• Sun, 06 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۱۰)

Updated: July 01, 2024, 1:46 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اس ہفتے ملاحظہ کریں ریختہ کی بنیادوں کو استوار کرنے والےصاحب دیوان شاعر ولیؔ دکنی کی عارفانہ رنگ میں ڈوبی ہوئی غزل۔

Wali Dakhani. Photo: INN
ولی دکنی۔ تصویر : آئی این این

اسے المیہ نہیں تو کیا کہیں گے کہ ولیؔ اورنگ آبادی یا ولیؔ دکنی (۱۷۲۵۔۱۶۶۷) نے تو شمالی ہند اورجنوبی ہند کی زبان کے درمیان کی دوری کو کم کرنے کی کوشش کی ، عارفانہ اشعار عاشقانہ رنگ میں کہے اور دکنی (یا دکھنی) کا دامن تھامے رکھنے کے باوجود جدید ریختہ کی بنیادوں کو مستحکم کیا مگر انہی کی وطنیت اور تاریخ پیدائش کے بارے میں رائے دیتے ہوئے افراط وتفریط کا مظاہرہ کیاجاتا رہا۔ مگر دوسری طرف ان کے کئی اشعار لوگوں کی زبان پربھی  ہیں۔
(۱)پڑھتے ہیں ولیؔ شعر ترا عرش پہ قدسی
باہر ہے تری فکر رسا حد بشر سوں
 (۲)ہزاروں لاکھ خوباں میں صنم میرا چلے یوںکر
ستاروں میں چلے جوں ماہتاب آہستہ آہستہ
(۳)اے ولیؔ لگتا ہے ہر دل کو عزیز  
شعر تیرا بس کہ شوق انگیز ہے
(۴) ولیؔ اس گوہر کانِ حیا کی کیا کہوں خوبی
مرے گھر اس طرح آوےہے جیوں سینے میں راز آوے
 مندرجہ بالا تمام شعروں  میں ’’ اپنی فکر رساکے حد بشر سے باہر ہونےکا اعلان کرنا ’’ اپنے شعر کو شوق انگیز کہنا ‘‘ محض شاعرانہ  تعلی نہیں ولیؔ کا لسانی اور شعری کارنامہ ہے اورایک خاص کیفیت میں مبتلا ہونے کا اشاریہ بھی۔ یہ خاص کیفیت الہام  ووجدان  کے بغیر کسی کو نصیب ہوتی ہے نہ جس کو نصیب ہوتی ہے اس کو کشف و تحیرسے دور رکھتی ہے، ان کی غزل ہے:

یہ بھی پڑھئے: عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۹)

بھڑکے ہے دل کی آتش تجھ نیہ کی ہوا سوں 
شعلہ نمط جلا دل تجھ حسن شعلہ زا سوں 
گل کے چراغ گل ہو یک بار جھڑ پڑیں سب 
مجھ آہ کی حکایت بولیں اگر صبا سوں 
نکلی ہے جست کر کر ہر سنگ دل سوں آتش 
چقماق جب پلک کی جھاڑا ہے توں ادا سوں 
سجدہ بدل رکھے سر، سر تا قدم عرق ہو 
تجھ با حیا کے پگ پر آ کر حنا حیا سوں 
یاں درد ہے پرم کا بیہودہ سر کہے مت 
یہ بات سن ولیؔ کی جا کر کہو دوا سوں 
اس غزل میں جوزبان استعمال کی گئی ہے وہ اب شاید ہی کسی طبقے اور علاقے میں پورے طور پر استعمال ہوتی ہو اس لئے کئی الفاظ مثلاً نیہ ( محبت ) نمط( مثل یا مانند) پرم (معشوق، بے تحاشا) نامانوس معلوم ہوتے ہیں مگر مفہوم سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ پوری غزل میں ایک ہی کیفیت کا بیان ہے جس کو عشق ومحبت میں مبتلا شخص کی کیفیت کہہ سکتے ہیں۔ عشق مشتق ہے عشقہ سے جو ایک ایسی بیل ہے جو کسی درخت سے لپٹ جاتی ہے تواس کو خشک وزرد کردیتی ہے اور اس کے لپٹ جانے کے بعد درخت میں پھل آتا ہے نہ پتّے۔ ’محبت‘ ’حبہ‘ سے مشتق ہے جو ایسا بیج ہے جو زمین میں بودیئے جانے کے بعد سردی ، گرمی ، بارش سے متغیر نہیں ہوتا اوراپنے وقت پر ہی پھلتا پھولتا ہے۔عاشق کے وجود کو ایک ایسا درخت تصور کیا گیا ہے جو معشوق کے حسن وجمال کی تجلی میں محو کردیا جاتا ہے اوریہ محویت اس درجہ کی ہوتی ہے کہ عاشق کو اپنی ذات یا وجود کا ہوش ہی نہیں رہتا بس معشوق ہی رہ جاتا ہے۔ جو پہلے سراپا نیاز تھا سراپا ناز بن جاتا ہے۔ اسی طرح محبت کرنے والے شخص کیلئے بھی فراق ووصال میں یا اذیت ولذت میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔
صوفیاء واضح کرتے رہے ہیں کہ عشق خود کو گم کردینے  اور ہمیشہ بیقرار رہنے کا نام ہے یا یہ کہ جس کو اللہ سے محبت  ہے  اس کو غیر اللہ سے وحشت ہی رہے گی۔ اس غزل میں ولیؔ نے اپنی کیفیت بیان کرنے میں کمال کردیا ہے۔ جس کے عشق میں وہ مبتلا ہیں اس کے سامنے صبا اور حنا تو ہیچ ہیں ہی گل کے بھی چراغ گل ہیں اور خود ان کاحال یہ ہے  یا وہ محسوس کرتےہیں کہ پہلے سراپا نیاز تھے بعد میں سراپا ناز بن گئے۔ پہلے کی قسطوں میں بیان کیا جاچکا ہے کہ انسان جب انوار الٰہی یا تجلیات کو دیکھتا ہے تو حیرت  میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہ وہ حیرت ہوتی ہے جس کو لفظوں  میں بیان نہیں کیاجاسکتا مگر چونکہ بیان کرنا اس کے لئے ضروری  ہوتا ہے اس لئے وہ انہیں لفظوں  میں اپنی کیفیات  بیان کرنے پر مجبور ہوتا ہے جو دنیاوی محبوب کے  دیدار کے لئے استعمال ہوتے ہیں لہٰذا مغالطہ ہوتا ہے کہ بیان کرنے والا عشق حقیقی  کااظہار کررہا ہے یا عشق  مجازی کا۔  اس غزل میں بھی جس کیفیت کا اظہار کیا گیا ہے مثلاً دل  کے شعلۂ حسن سے جل جانے کا ، سب کے یکبارگی جھڑپڑنے کا، ادا کے شرربار ہونے کا ، حنا کے حیا  سے عرق عرق  ہونے کا وغیرہ  وہ یہ جتانے کیلئے کافی ہے کہ محبوب عام نوعیت کا ہے نہ ہی اس کے جلوے کا تحمل سب کے بس کا ہے۔ صوفیاء کے اقوال وملفوظات میں بار بار یہ وضاحت کی گئی ہے کہ جس شعر میں خال وجمال وزلف اور فراق ووصال وصورت کا بیان کیا گیا ہو مگر اس کو کسی ایسی عورت یا لڑکے پر منطبق نہ کیاجائے جس کو عشاق دوست رکھتے ہیں تو اس کا پڑھنا اور سننا حرام نہیں ہے۔ مولانا  رومؔ نے عشق کی صفت کے طور پر بلند واعلیٰ مضامین موزوں کئے ہیں مثلاً:’’عشق ہماری نخوت  وناموس کی دوا اور ہمارے لئے افلاطون وجالینوس (مسیحا) ہے۔عشق کی ہی بدولت یہ جسم خاکی آسمانوں پر پہنچا  اور پہاڑ رقص کرنے لگا۔‘‘
 عشق ہی تو وہ مشغلہ ہے جو بھڑکتا ہے تو معشوق کے سوا سب کچھ جلا کرخاک کردیتا ہے اور عاشقی آہ وزاری سے پیدا ہوتی ہے ۔ ولی ؔ کی مندرجہ بالا غزل میں جس کیفیت کا اظہارکیا گیا ہے اس پر عشق مجازی کا گمان گزرتا ہے مگر مولانا رومؔ ہی کا شعر ہے کہ عشق مجازی اگر پاکبازی کے ساتھ ہوتو حقیقت کی طرف رہبری کرتا ہے۔ اس لئے ولیؔ کی مذکورہ غزل کو عشق حقیقی کی کیفیات پر محمول کرنا غلط نہیں ہے۔
  اس غزل یا جن حالات میں یہ غزل موزوں کی گئی ہے اس کے کچھ خارجی محرکات پر بھی غور کیاجاسکتا ہے مثلاً عالمگیر جن کا عہد ولی ؔ کا عہد ہے اقلیم ہند کے طاقتور شہنشاہ تھے اور ولی  اقلیم سخن کے تاجدار لیکن جب دکن کی مختلف ریاستوں کو مغل سلطنت میں ضم کیاجانے لگا تو ان کے  دل میں انتشار کی کیفیت پیدا ہوئی اور وہ  سیلانی بھی واقع ہوئے تھے۔  یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ بعض لوگوں نے ولیؔ دکنی کو ولی گجراتی لکھ دیا۔اس کی ایک  وجہ یہ ہے کہ ولی نے گجرات کے فراق میں  جو شعر کہے ہیں ان میں بڑا سوز ہے مثلاً
گجرات کے فراق سوں ہے خار خار دل
 یا گجرات کے شہر ’سورت‘ کی تعریف کرتے ہوئے اس کو ’باب مکہ ‘ تسلیم کیا ہے۔ 
شرافت میں یہ ہے جیوں باب مکہ
مگر لچھمی نرائن شفیق (۱۷۴۵۔۱۸۰۸ء)  نے ’’چمنستان شعراء ‘‘ (ص ۸۲) میں یہ لکھ کر دودھ کا دوھ پانی  کا پانی کردیا ہے کہ 
 ’’ان ( ولیؔ ) کی پیدائش اورنگ آباد میں ہوئی چونکہ زیادہ تر درگاہ حضرت شاہ وجیہ الدین واقع گجرات میں رہ کر تعلیم حاصل کی  اور گڑھ  کے متصل نیلی گنبد میں مدفون  ہوئے اس لئے لوگوں نے غلطی سے ان کو گجرات سے منسوب کردیا۔‘‘
 راقم الحروف ولیؔ کو دکن کا باشندہ، ایک اعلیٰ وارفع تہذیب کا نمائندہ اور عظیم شاعر سمجھتا ہے۔ وہ ولیؔ کے اس قول سے اتفاق کرتا ہے کہ’’شعر تیرا بس کہ شوق انگیز ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK