• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ابن صفی کی تحریروں میں قاری کی دل بستگی کا سامان ہی نہیں ایک پیغام بھی ہوتا تھا

Updated: July 28, 2024, 2:56 PM IST | Salman Ghazi | Mumbai

جاسوسی ادب کو ادب ِعالیہ نہ ماننے والوں کے اپنے دلائل ہوسکتے ہیں مگر ابن صفی کی مقبولیت سے انکار کوئی نہیں کرسکتا۔ اُن کے ناولوں میں بے ساختگی، طنز و مزاح، سیاست پر تبصرہ، سائنس فکشن اور اسکے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔

Ibn-E-Safi. Photo: INN
ابن صفی۔ تصویر : آئی این این

کتاب ہو یا رسالہ، اخبار ہو یا ناول، اردو داں کسی بھی چیز کو خرید کر پڑھنے میں یقین نہیں رکھتے۔ ہمارے خیال میں مفت خوری یا مفت بینی کی ایسی نادر مثال دنیا کی شاید ہی کسی اور زبان میں مل سکے، اس پر مستزاد وہ تمام الزامات ہیں جو اردو کی بے وقعتی پر وقتاً فوقتاً اردو داں طبقہ حکومتوں، اکیڈمیوں اور مختلف اداروں پر لگاتا رہتاہے گویا اردو کی موجودہ بد حالی کے ذمہ دار خود ہم نہیں بلکہ دوسرے ہیں۔ ایک ایسی زبان جسے عالمی زبان ہونے کا فخر ہے، جس کے جاننے والے ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور جن کی تعداد کروڑوں میں ہے اس زبان کے رسالے، اخبارات اور کتابوں کے چند سو خریدار بھی نہیں ملتے۔ ہمارے نزدیک ابنِ صفی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اردو قاری کو کتاب خرید کر پڑھنے پر مجبور کر دیا۔ اب تک کی اردو ادب کی تاریخ میں ابن صفی وہ واحد مصنف ہیں جن کی کتابیں بازار میں آتے ہی فروخت ہو جاتی تھیں اور اکثر لوگ انہیں بلیک میں خرید کر پڑھنے پر بھی مجبور تھے۔ ان کی تحریر کا جادو ہر زمانے میں سر چڑھ کر بولتا رہا۔ اب بھی کم نہیں ہوا ہے۔ 
 ان کے انتقال کے بعد جب ان کے ماہانہ ناولوں کا سلسلہ عرصۂ دراز تک بند رہا تو لوگ سمجھے کہ ابن صفی بھی اردو ادب کی تاریخ کے اوراق میں گم ہو گئے۔ کچھ لوگ یہ سمجھے کہ اردو داں طبقہ ابن صفی کو بھول گیا ہے لیکن یہ تمام قیاسات غلط ثابت ہوئے جب برادر محترم عارف اقبال نے دہلی سے ان کے ناولوں کی اعلیٰ معیار پراشاعت کا نظم شروع کیا اور ایک بار پھر ابن صفی ادبی افق پر چھا گئے۔ اس نئے سلسلے کے تمام ناول بازار میں آچکے ہیں لیکن زمانہ شاہد ہے کہ اگر قاری نے ناول کی اشاعت کے بعد ایک ہفتے کے اندر اندر نہیں خرید لیا تو کتب فروشوں کی دکانوں سے خالی ہاتھ لوٹا۔ ابن صفی کی تحریر میں کوئی تو بات ہوگی جو اردو جیسے بے حس قاری کے اذہان میں بھی تحریک پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: یوم ولادت و وَفات پر خراج عقیدت: ابن صفی کے ناولوں کیلئے بہت سوں نے اردو سیکھی

ناول نگاری ایک مشکل فن ہے جس نے گزشتہ دو صدیوں میں بے پناہ ترقی کی ہے۔ یورپ میں ناول نگاری کی تکنیک پر اس قدر کام ہوا ہے اور ایسے ناول بازار میں آئے جن کی کروڑوں کی تعداد میں جلدیں فروخت ہوئیں۔ اردو میں ناول نگاری کے فن نے کچھ ترقی تو کی لیکن ظاہر ہے جب قاری نہ ہوں اور مصنف کو کوئی صلہ نہ ملے تو اس میدان میں صرف شوق کی خاطرہی کچھ مصنفین قسمت آزما سکتے تھے۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ایسے مصنفین سامنے آئے جو ناول نگاری کے فن سے تو خاطر خواہ واقفیت نہیں رکھتے تھے لیکن عوام نے صرف ان کی زبان اور انداز بیان کی وجہ سے انہیں پڑھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عام مسلمان گھرانوں میں فلم بینی اور ناول پڑھنے کو مخرب اخلاق سمجھا جاتا تھا اور نوجوان لڑکے لڑکیاں کبھی کبھار چھپ کر ناول پڑ ھ لیتے تھے۔ ظاہر ہے ایسے میں کوئی فن ترقی نہیں کر سکتا۔ ناول نگاری میں پلاٹ یعنی بنیادی خیال، کہانی، کردار نگاری، منظر کشی اور دلچسپ واقعات کی ان خطوط پر تقسیم ضروری سمجھی جاتی ہے جس سے پورے ناول میں قاری کی دلچسپی باقی رہ سکے۔ اُردو کے بڑے ادیب کرشن چندر کے ناولوں میں کوئی پلاٹ نہیں ملتا تھابلکہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ قلم برداشتہ جو ذہن میں آتا ہے لکھتے چلے جاتے تھے۔ ان کے ہاں کردار نگاری بھی نہیں ملتی اس کے باوجود وہ ایک کامیاب ادیب تھے جس کی وجہ صرف ان کا انداز بیان تھا جس پربے ساختگی کے ساتھ مزاح کا عنصر غالب رہتا تھا۔ 
 اسی طرح اس زمانے کے دوسرے ادیبوں یا ناول نگاروں کے پاس بھی کوئی پلاٹ یا کہانی نہیں ملتی تھی بلکہ قریب قریب ایک ہی کہانی کو ہر ادیب اپنے اپنے رنگ میں پیش کر دیتا تھا۔ جن ادیبوں کی زبان اور انداز بیان دلچسپ ہوتا تھا وہ کامیاب سمجھے جاتے تھے۔ 
 ابن صفی کی سب سے بڑی خوبی ان کا دلچسپ انداز بیان ہے جس کے سبب ادب میں ان کا قد اپنے ہم عصروں ہی میں نہیں بلکہ بعد کے آنے والے ادیبوں میں بھی سب سے اونچا نظر آتا ہے۔ ان کے ناول جاسوسی تھے اور جاسوسی ناول عموماً اپنے پلاٹ یا جرم کو کرنے کے پلان اور مجرم کو پکڑنے کے پولیس کے طریقۂ کار کے سبب دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ عام قاری ان باتوں سے لاعلم ہونے کے سبب اس میں دلچسپی لیتا ہے لیکن یہ بات انتہائی عجیب ہے کہ ابن صفی کے ناولوں میں کوئی خاص مر کزی خیال یا پلاٹ نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی وہ کسی پلاٹ کے مطابق چلتے تھے بلکہ پورے ناول میں عمران یا حمید کے شگفتہ جملے، قاسم کے ساتھ حمید کا مذاق یا فریدی کے ساتھ نوک جھونک چلتی رہتی تھی جبکہ عمران کے ناولوں میں بعض مر تبہ پورے پورے صفحات عمران کے بے معنی لیکن دلچسپ جملوں سے پر نظر آتے ہیں جن کا ناول کے پلاٹ یا کہانی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ صرف قاری کو بہلائے رہتے تھے۔ پھر آخری دو صفحات میں فریدی یا عمران اپنی پوری کارگزاری سنا کر بتا دیا کرتے تھے کہ کس طرح انہوں نے مجرم پر ہاتھ ڈالا جبکہ تمام محیر العقول کام کرنے کے لئے ان لوگوں کے طریقۂ کار کا کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا۔ چونکہ یہ کام ایک شخص کے لئے ممکن ہی نہیں اس لئے بلیک فورس اور ایکس ٹو کی ٹیم کی ایجاد ضروری ٹھہری۔ تکنیکی اعتبار سے یہ ایک عیب ہے لیکن سچ پوچھئے تو یہی ابن ِ صفی کی سب سے بڑی خوبی ہے کیونکہ یہ بات مزید حیرت کا باعث بنتی ہے کہ اس سقم کے با وجود ان کے ناول انتہائی مقبول تھے اور آج بھی ہیں۔ بلکہ غور فرمائیے کہ اگر یہ ناول کسی کہانی یا پلاٹ پر مبنی ہوتے تو انہیں ایک بار پڑھنے کے بعدقاری کے لئے ان میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ سچ پوچھئے تو یہی وجہ ہے کہ بیسیوں بار پڑھے ہوئے ابن صفی کے ناولوں کو بھی قاری بار بار پڑھنے پر مجبور ہے۔ شائقین کا آج بھی یہ حال ہے کہ کئی بار کے پڑھے ہوئے ناول شیلف سے نکالتے ہیں اور ازسرنو پڑھتے ہیں۔ یہ ابن صفی کی شستہ زبان اور ان کے انداز بیان کا کمال نہیں تو اور کیا ہے؟
 ابن صفی کا مطالعہ وسیع تھا لیکن یہ کوئی غیر معمولی وصف نہیں۔ اکثر مصنفین کثیر المطالعہ ہوتے ہیں لیکن ابن صفی کے پاس ذہانت بھی تھی جو اس مطالعے سے نت نئی چیزیں اختراع کر کے قاری کے سامنے اس طرح پیش کر تے تھے کہ قاری اس کی سحر انگیزی میں کھو جاتا تھا۔ ان کے بعض کردار محیر العقول ہی نہیں بلکہ نا قابل یقین تھے ــ’’سائے کی لاش ‘‘ کا جانور نما نیم انسان، اندھیرے کا شہنشاہ کا اندھا مجرم، ــ ادھورا آ دمی‘‘ یا’’ دوہرا قتل‘‘ کے ہم شکل ابن صفی کی ذہنی اُپج تھی جس نے ان کرداروں کو نہ صرف انتہائی دلچسپ یا بھیانک بنا دیا۔ فریدی، حمید، قاسم اور عمران تو ان کے خاص کر دار ہیں لیکن جوزف اور جیمسن جیسے اضافی کرداروں کو بھی جب بعد کے ناولوں میں انہوں نے کردار نگاری کے ذریعے ابھارا بلکہ نکھارا تو ان کرداروں کو بھی انہوں نے قاری کے لئے انتہائی دلچسپ بنا دیا جو ایک غیر معمولی صلاحیت رکھنے والے ادیب ہی کے لئے ممکن ہے۔ جن حضرات نے ان کرداروں کو شروع کے ناولوں میں دیکھا تھا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ یہ کردار کبھی کسی خاص اہمیت کے حامل ہو سکتے ہیں لیکن ابن صفی نے ادب میں ہر ناممکن کو ممکن کر کے دکھا دیا۔ سائنسی ایجادات کے غلط استعمال پر ان کے کئی ناول ہیں جن میں بہت سی چیزیں جو اُس زمانے میں نا ممکن نظر آتی تھیں آج سامنے آ گئی ہیں اور جو ابن صفی کی غیر معمولی ذہنی صلاحیت کی غمّاز ہیں۔ 
 ابن صفی کی تحریر کا دوسرا وصف ان کی سحر انگیز منظر نگاری ہے۔ ان کا یہ کمال اکثر ناولوں میں نظر آتا ہے لیکن بعض ناولوں میں یہ اپنی انتہا پر ہے جیسے شعلے سیریز، درندوں کی بستی اور زمین کے بادل جو قدیم ناول ہیں لیکن عمران سیریز کے بعد کے ناول جو یورپ کی سیر کرواتے ہیں انہیں پڑھتے ہوئے بھی قاری یہ محسوس کرتا ہے جیسے مصنف نے زندگی کا اکثر حصہ یورپ اور خصوصا اٹلی میں گزارا ہو۔ 
 ابن صفی نے اپنی تحریروں سے صرف قاری کی دل بستگی کا سامان نہیں پیداکیا بلکہ ان میں ایک چھپا ہوا پیغام ضرور ہوتا تھا۔ حمید کا کردار ایک عام انسان کا کردار ہے جو سوچ، فکر اور خواہشات رکھتا ہے لیکن فریدی ایک آئیڈیل انسان کا کردار ہونا چاہئے جسے اپنے خیالات، جذبات اور افعال پر بڑی قدرت ہے۔ اس کی شخصیت کی جاذبیت اور کشش کے سبب ہر قاری اس کردار کی نقل کرنا چاہتا ہے یا کم از کم ویسا بننے کا خواہشمند ضرور ہو جاتا ہے جو انسانی نفسیات اور فطرت کے عین مطابق ہے۔ ابن صفی جانتے تھے کہ عام انسان حمید کی طرح ہے لیکن اسے فریدی جیسا بننے کا تمنائی ضرور ہونا چاہئے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ حمید کے کردار میں عام قاری کیلئے بے پناہ کشش ہے لیکن فریدی کا کردار اس کے ذہن پر اس طرح چھایا رہتا ہے کہ وہ اس کردارکے مقابلے میں ایک احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ کردار نگاری کے فن کی بلندی ہے۔ 
  ابن صفی نے شاعری بھی کی اور غیر جاسوسی ادب میں بھی طبع آ زمائی کی لیکن ان کا ذہنی میلان چونکہ سرّی ادب کی طرف رہا اس لئے اسی میں انہوں نے کمال حاصل کیا اور ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں پہنچنے کی کوئی مصنف صرف خواہش ہی کر سکتا ہے کیونکہ سچ پوچھئے تو:
 ایں سعادت بزورِ بازو نیست۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK