۱۹۴۱ء کا موسم سرما۔ انتہائی سرد رات۔ قرب و جوار کی زندہ یا مردہ ہر شے لگتا تھا کہ منجمد ہو کر اکڑ گئی ہے۔ ہوائیں سانپ کی طرح ڈستی تھیں اور رگوں میں خون جم جاتا تھا۔
EPAPER
Updated: November 17, 2024, 3:50 PM IST | Anwar Muhammad Khan Lee /Manar Salim | Mumbai
۱۹۴۱ء کا موسم سرما۔ انتہائی سرد رات۔ قرب و جوار کی زندہ یا مردہ ہر شے لگتا تھا کہ منجمد ہو کر اکڑ گئی ہے۔ ہوائیں سانپ کی طرح ڈستی تھیں اور رگوں میں خون جم جاتا تھا۔
۱۹۴۱ء کا موسم سرما۔ انتہائی سرد رات۔ قرب و جوار کی زندہ یا مردہ ہر شے لگتا تھا کہ منجمد ہو کر اکڑ گئی ہے۔ ہوائیں سانپ کی طرح ڈستی تھیں اور رگوں میں خون جم جاتا تھا۔ ایسی ہی ایک رات کو ایک تنہا سایہ یوکرین کے ایک بے کراں برف پوش میدان کو پار کر رہا تھا۔
ایک نو جوان ماں اپنا گاؤں چھوڑ کر بھاگ رہی تھی، تیزی سے آگے، مشرق کی طرف بڑھ رہی تھی۔ وہ اپنے گاؤں سے بھاگ رہی تھی کیوں کہ اس پر فسطائیوں نے قبضہ کر لیا تھا، بھاگ رہی تھی اپنی خود داری اور اپنے بچے کو بچانے کے لئے۔
سامنے دریا تھا جس کے کنارے کنارے محاذِ جنگ پھیلا ہوا تھا۔ دریا کے اس پار سے ابھرتی ہوئی سوویت توپوں کی چنگھاڑا سے سنائی دے رہی تھی۔
نو جوان ماں دوڑتی بھاگتی چلی جارہی تھی۔ اسے ہر قیمت پر اپنے لوگوں کے درمیان پہنچنا تھا۔ اسے بہر صورت اپنے بچے کو دریا کے اس پار، عظیم آزاد سرزمین تک لے جانا تھا۔ شدید برف باری کی یہ رات اس کی جان ہی کیوں نہ لے لیتی، اسے ایک مقدس فریضہ بہر حال انجام دینا تھا اور اپنی اولین محبت کی اس علامت کو بہر حال زندہ رکھنا تھا۔
ماں سخت محنت کے ساتھ بڑی مشکل سے چلتی جا رہی تھی، آگے، کچھ اور آگے بڑھتی جا رہی تھی لیکن برف پوش میدان تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ وہ نڈھال ہو چکی تھی، برف اس کے جسم میں خنجر کی طرح چبھتی جا رہی تھی۔ اچانک اسے ایسا لگا کہ اس کا بچہ اس کی گود میں منجمد ہوا جا رہا ہے۔ اس نے اِدھراُدھر نظریں دوڑائیں اور اس کی پریشان نگاہیں کسی ایسے گوشے اور ایسی جائے پناہ کو تلاش کرنے لگیں جہاں وہ اپنے بچے کو گرمی پہنچانے کے لئے اور زیادہ اوڑھا لپیٹ سکے۔ دوکالی کالی پر چھائیاں اس کے سامنے نمودار ہوئیں۔ یہ دو درخت تھے جو پہلو بہ پہلو ایک دوسرے سے ملنے کھڑے تھے۔ وہ ذرادم لینے کے لئے ان کا سہارا لے کر کھڑی ہو گئی۔ اس کی قوت جواب دے چکی تھی۔ برف اس کے چہرے کو اپنی نہایت ہی سرد جلا دینے والی زبان سے چاٹ رہی تھی۔ ماں کے سینے میں مہیب الفاظ تڑپنے لگے:’’ بچہ منجمد ہوتا جارہا ہے، وہ اس برف کی تاب نہ لا سکے گا!‘‘
لیکن ماں نے اس مہیب خیال کو دل سے نکال دیا۔ نہیں، نہیں ! جس بچے کو وہ دشمن کے چنگل سے چھین لائی ہے اسے برف کی جمادینے والی آغوش کے سپرد نہ کرے گی۔ چاہے ساری دنیا ہی برف میں کیوں نہ بدل جائے، چاہے دنیا کی ساری زندگی ہی منجمد کیوں نہ ہو جائے، وہ اپنے سینے سے ماں کا دل نکال کر اس کی گرمی سے بچے کو حرارت عطاکرے گی…اس نے اپنی اونی جیکٹ اتار کے بچے کو اس میں لپیٹ لیا… چند لمحات گزرے لیکن اسے یہ لمحات مہینوں نہیں برسوں نہیں، دوام جیسے معلوم ہوئے۔ برفیلی ہوا اس کے جسم کو دہکتے ہوئے لوہے کی طرح جلاتی جا رہی تھی۔
یہ بھی پڑھئے:جمیل مرصع پوری: عمدہ شاعر، مخلص انسان
اور ایک بار پھر اسے محسوس ہوا کہ وہ خود نہیں بلکہ اس کا بچہ، اس کا لخت جگر کا نپ رہا ہے، منجمدہوا جارہا ہے۔
اس نے اپنی اونی شال اپنے سر سے اتار کے بچے کے گرد لپیٹ دی۔ اب ماں کا کھلا ہوا جسم برف کے مقابلے میں بالکل بے بس ہو گیا۔ اس نے موت کی قربت کو محسوس کیا، سمجھ گئی کہ وہ خود منجمد ہوتی جا رہی ہے۔ اب اس میں ذرا بھی سکت باقی نہیں رہ گئی تھی۔
اس نے اپنا بلاؤ زاتارا اور بچے کو کچھ اور زیادہ گرمی پہنچانے کے لئے اس سے ڈھک دیا۔ وہ تو ویسے بھی اپنی جان سے ہاتھ دھونے کو ہے لیکن بچے کو بہر حال زندہ رہنا چاہئے ! ماں اپنے بچے کی جان بچاتی ہی ہے ! اس نے اپنی بچی کھچی قوت سے بچے کو ساری مادری محبت کے ساتھ اپنے برہنہ سینے سے لگالیا اور چپکے چپکے کہا:
” میرے لاڈلے، اب تمہیں گرمی پہنچانے کے لئے میرے پاس شاید میرے دل کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔ اس دل کی آخری دھڑکن تک تمہاری ہے! “
ماں خاموش ہوگئی لیکن اس کے کانوں میں تانبے کی لڑیاں ٹن ٹن کر رہی تھیں، دانے اکڑ اکڑ کے پھٹ رہے تھے۔ ماں اب نہ کچھ دیکھ سکتی تھی نہ کچھ سن سکتی تھی… وہ درخت سے زیادہ سے زیادہ سمٹتی چلی گئی۔ سردیوں کی ظالم رات نے اسے ایک نئے لباس سے ڈھک دیا، پالے کی برفیلی انگلیوں نے اس کے جسم پر نازک بلوریں بوٹے بن دیئے۔
صبح آئی، شفاف اور برفیلی صبح، فضا میں چمکتی ہوئی تیز بر ہنہ تلوار جیسی صبح۔
درختوں کے سامنے تین افراد دشمن کو دھوکا دینے والا سفید لباس پہنے کھڑے تھے۔ یہ اسکاؤٹ تھے جو سروں کو برہنہ کیے ہوئے تھے، خاموش اور بے حس و حرکت، اس کی آنکھوں کے سامنے ایک ایسا سماں تھا جسے وہ اپنی زندگیوں میں کبھی فراموش نہ کر سکیں گے۔ منجمد ہو جانے والی عورت کا برف کا مجسمہ۔
وہ تینوں اس مقدس قربان گاہ کے سامنے دیر تک یوں ہی بے حس و حرکت کھڑے رہے۔
آخر کار ان میں سے ایک درختوں اور برف کے مجسمے کے پاس گیا۔ اس نے کسی مبہم سی امید میں اس بنڈل کے اندر جھانکا جسے منجمد عورت اپنے سینے سے چمٹائے ہوئے تھی۔ اس نے جذبات کی شدت سے کانپتی ہوئی انگلیوں سے کپڑے کو اوپر سے ہٹایا اور دیکھا کہ اندر سے ایک بچے کی آنکھیں اسے تک رہی ہیں۔ نوجوان سپاہی، ششدر ہو کے غیر ارادی طور پر پیچھے ہٹ گیا۔ ’’ وہ زندہ ہے وہ منجمد نہیں ہوا۔ ‘‘اس نے جذبات کی شدت سے نحیف ہو جانے والی آوازمیں کہا۔
بچہ صبح کی دھوپ سے آنکھیں میچ کےمسکرایا۔
سپاہی جو آگ پانی کی، طرح طرح کی محرومیوں سے گزر چکے تھے، اپنے مسرت کے آنسوؤں کو ضبط نہ کر سکے۔ انھوں نے اپنے سر پر اٹھا کر ماں کے اس شاندار مجسمے کو ایک بار پھر دیکھا اوردعا مانگنے کی جیسی سرگوشی میں بے رحمی کے ساتھ بدلہ لینے کی قسم کھائی۔
بچے کو گود میں لے کر وہ لوگ وہاں سے چلے آئے لیکن برف کا مجسمہ، مادری محبت اور ایثار کی عظمت و قوت کا وہ پیکر ان کے دلوں میں کانسے کی ایک ایسی یادگار کی شکل اختیار کر گیا جو انتقام کیلئے مسلسل اکساتی رہتی تھی۔
( مترجم کی کتاب ’’یادوں کے جزیرے‘‘ سے)