گوری رنگت والا بچہ اور اس کا بابا نہ جانے کب سے اپنے ہی سایوں کو روند رہے تھے۔ان کے سائے دھیرے دھیرے بڑھتے جا رہے تھے۔
EPAPER
Updated: December 18, 2024, 4:51 PM IST | Tahir Anjum Siddiqui | Maligaon
گوری رنگت والا بچہ اور اس کا بابا نہ جانے کب سے اپنے ہی سایوں کو روند رہے تھے۔ان کے سائے دھیرے دھیرے بڑھتے جا رہے تھے۔
گوری رنگت والا بچہ اور اس کا بابا نہ جانے کب سے اپنے ہی سایوں کو روند رہے تھے۔ان کے سائے دھیرے دھیرے بڑھتے جا رہے تھے۔ اُس گول مٹول سے بچے نے اپنی آنکھوں کے کٹوروں کو بالکل ہی چھوٹا کرلیا اورریگستان کے سینے پرحدِ نگاہ تک پھیلتی چلی جانے والی دھوپ کو دیکھتے ہوئے کہا۔’’کتنی تیز دھوپ ہے بابا؟‘‘’’ہاں بیٹا! بہت تیز ہے مگر اپنے حصّے کا نخلستان ڈھوندنا تو پڑے گا۔‘‘
باپ نے اپنے سر پر لپٹے کپڑے کے ایک سرے سے پہلے بچے کے چہرے پر امڈ آنے والی ڈھیر ساری پسینے کی بوندوں کو صاف کیا پھر اپنا چہرہ بھی پونچھ لیا۔ پسینے کے ساتھ ریت کے باریک باریک ذرات اس کپڑے سے لپٹے چلے آئے۔ باپ نے اپنے بیٹے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔
’’اِدھر آ بیٹا ! ۔۔۔۔میری چھاؤں میں آجا ۔۔۔۔‘‘گوری رنگت والاچھ سات برس کا معصوم چہرے والا وہ بچّہ اپنے باپ کے سائے میں ہو گیا ۔’’ہاں بابا! اب دھوپ نہیں لگتی.....مگر کتنی گرمی ہے ؟....اور یہ ہوا اپنے ساتھ کتنی ریت اڑا رہی ہے؟‘‘بچے نے اپنی پلکوں کے دریچوں کو کھول بند کرتے ہوئے کہا۔
’’ہوں !۔۔۔۔رک بیٹا ذرا!‘‘وہ دونوں رک گئے۔
باپ نے اپنے سر کا کپڑا کھولا۔اس کے دو ٹکڑے کئے ۔ چھوٹا ٹکڑا بچے کے سر اور چہرے پر اس طرح لپیٹا کہ صرف اس کی آنکھوں کے کٹورے ہی کھلے رہ گئے۔
’’لے بیٹا! میری انگلی پکڑ کر چل ۔‘‘دونوں ریگستان کی سلگتی ریت پرچلتے رہے۔ہوا کے گرم تھپیڑے ان سے ٹکراتے رہے۔ریت کے ذراّت اڑتے رہے۔ان کے بالوں اور کپڑوں سے الجھتے رہے
یہ بھی پڑھئے:ادب اور قاری میں وہی رشتہ ہے جو فرد اور جماعت میں ہوتا ہے
پلکیں بند کر لینے کے باوجود بھی ان کی آنکھوں کو پریشان کرتے رہے۔وہ دونوں اپنے سایوں کے ساتھ ساتھ ریگستان کے سینے کو بھی روندتے رہے۔اس سفر میں انہیں کئی نخلستان ملے لیکن ان پر دوسرے لوگ قابض تھے ۔
ان کو اپنے حصّے کے نخلستان کی تلاش تھی۔دھوپ بڑی شدت کی تھی۔ہوائیں تیز چل رہی تھیں۔ریت سارے ریگستان میں اپنا وجود پھیلائے ہوئے تھی۔
باپ نے اپنی آنکھوں کو مسلتے ہوئے صحرا کے سکوت کو توڑا۔’’تجھے معلوم ہے بیٹا !.....ایک مرتبہ میں بھی اپنے بابا کے ساتھ ایسے ہی ریگستان سے گزر رہا تھا......لیکن اس روز دھوپ تو اِس سے بھی تیز تھی.....مگر جیسے میں نے تجھے اپنے سائے میں کیا ہے نا .....تیرے دادا نے بھی مجھے اپنے سائے میں کر لیا تھا ۔‘‘
’’پھر تو تم کو بھی دھوپ نہیں لگ رہی ہو گی ۔۔۔۔ ہے نا ؟‘‘بچے کو محسوس ہوا جیسے اس کے بابا کو کوئی نخلستان مل گیا ہو۔ وہ بہت خوش ہوگیا۔ ’’ہاں بیٹا! مجھے بھی دھوپ نہیں لگ رہی تھی .....مگر معلوم ہے پھر کیا ہوا تھا؟‘‘
’’کیا ہوا تھا بابا؟‘‘لپیٹے گئے کپڑے سے جھانکتی بچے کی کٹورا آنکھیں سوالیہ نشان بن گئیں۔
’’تیرے دادا آسمان کی طرف چلے گئے تھے ۔‘‘’’آسمان کی طرف !! ۔۔۔۔وہ کیسے بابا ؟‘‘بچے کی آنکھوں کے حلقے مزید پھیل گئے۔اس نے حیرت اور معصومیت سے پوچھا۔
’’رک بیٹا! بتاتا ہوں......ذرا انگلی چھوڑ تو میری!‘‘بچے نے دیکھا کہ وہ ابھی تک اپنے بابا کی انگلی تھامے کھڑا تھا۔ اس نے جھٹ سے انگلی چھوڑ دی۔
’’دیکھ بیٹا! ۔۔۔۔ایسے گئے تھے وہ آسمان کی طرف!‘‘اس نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دئیے ۔ بچے نے آسمان کی طرف اٹھے ہوئے اس کے ہاتھوں کو دیکھا۔
بچے پر پڑنے والا بابا کا سایہ غائب ہو گیا۔اس کے بابا کے پیر دھیرے دھیرے اُپر اٹھنے لگے۔اس کا منہ حیرت سے کھل گیا۔وہ اپنے بابا کواوپر اٹھتا دیکھتا رہا ۔
دھوپ کی شدّت نے اس کی حیرت کو جھلسایا تو وہ چونک گیا ۔اس نے اپنے سر اور چہرے پر لپٹے کپڑے کو کھول کر آسمان کی طرف دیکھا۔
اس کابابا اوپر جارہا تھا ۔
’’بابا !.....نیچے آؤ نا! ......کتنی تیز دھوپ ہے؟‘‘اس نے اپنے بابا کو واپس بلایا۔’’بابا !۔۔۔۔ بہت تیزدھوپ ہے ۔۔۔۔تم کچھ بولتے کیوں نہیں؟ ۔۔۔۔اوپر کیوں جا رہے ہوبابا؟ ۔۔۔۔نیچے آؤ نا !‘‘
اوپر سے کوئی جواب نہ آیا۔وہ چلانے لگا۔
’’با با ۔۔۔۔ بابا۔۔۔۔او بابا!۔۔۔۔نیچے آؤ نا بابا!۔۔۔۔نیچے ۔۔۔۔نی۔۔۔۔چے ۔۔۔۔نی ۔۔۔۔نی‘‘
اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بوندیں نکل کر گالوں سے لڑھکیں اور اس کے گرد آلود کپڑے میں جذب ہوگئیں۔ اس نے اوپر دیکھتے دیکھتے اپنے گٹھنے سلگتی ریت پر ٹیک دئیے۔
آنسوؤں کی بہت ساری بوندیں اُس کی آنکھوں سے نکل پڑیں اور اُس نے دہاڑ مار مار کر روتے ہوئے اپنے لب کھولے ۔
’’با با۔۔۔۔نی ۔۔۔۔چے ۔۔۔۔بابا!۔۔۔۔‘‘مگر نیچے نظر پڑتے ہی اُس کی آواز گلے میں ہی اٹک گئی ۔
نیچے اُس کا بابا ریگستان کی سلگتی ریت پر اپنے ہی سائے پر بے حس و حرکت پڑا تھا ۔وہ ابھی اپنے بابا کو اِس حالت میں آنسو بھری آنکھوں سے دیکھ ہی رہا تھا کہ کسی نے اُس کے گرد آلود کپڑے کا کنارہ پیچھے کی طرف کھینچا۔
وہ بڑی پھرتی سے پیچھے مُڑا۔اُس کے پیچھے ایک چھ سات سالہ، کٹورا آنکھوں والا بچّہ کھڑا تھا۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا، کٹورا آنکھوں والے بچے نے معصومانہ انداز میں اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کتنی تیز دھوپ ہے بابا!‘‘اُس نے گوری رنگت والے اُس بچّے کو دیکھا۔ پھراپنے اطراف حدّ نگاہ تک پھیلتے چلے گئے گرم ریگستان کو دیکھا اور ایک ٹھنڈی سانس لے کر اٹھ کھڑا ہوا ۔اس کے منہ سے بیساختہ نکلا۔
’’اِدھر آ بیٹا ! ۔۔۔۔میری چھاؤں میں آجا ......‘‘