• Sun, 06 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

تبصرہ نگاری ایک طرح کی گواہی ہے

Updated: July 07, 2024, 1:36 PM IST | Dr. Zafar Dark Qasmi | Mumbai

کسی کتاب پر تبصرہ کرنے سے قبل اس کا مطالعہ نہایت سنجیدگی سے کرنا ، اس کے مباحث کو بلا کسی جانبداری یا فکری دباؤ کے ساتھ پڑھنا اور انہیں عوام کے سامنے پیش کرنا لازمی ہے۔

Before commenting on a book, the commenter should read the book completely. Photo: INN
کسی کتاب پر تبصرہ کرنے سے قبل تبصرہ نویس کوچاہئے کہ وہ کتاب کو پوری طرح پڑھے۔ تصویر : آئی این این

تبصرہ نگاری نہایت دلچسپ اور اہم فن ہے۔ تبصرے متنوع مسائل پر کئے جاتے ہیں ۔ مثلاً سیاسی، سماجی، ملکی، قانونی احوال و واقعات وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا اس موضوع پر مزید گفتگو کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تبصرے کا مفہوم و معنی سمجھ لیا جائے۔ رئیس احمد صمدانی تبصرے کا مفہوم اس طرح پیش کرتے ہیں : ’’تبصرے میں کتاب کے مندرجات اور اسلوب بیان کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور مواد کے مثبت و منفی پہلوؤں کو اختصار سے بیان کیا جاتا ہے۔ تبصرہ قاری کو کتاب کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے اس کی بنیاد پر قاری اس دستاویز یا کتاب کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ ‘‘ اسی طرح کلیم الدین احمد نے تبصرہ کا تصور درج ذیل الفاظ میں پیش کیا ہے: ’’ کسی تصنیف، کلام یا واقعہ کے متعلق سرسری طور پر بحث ومباحثہ کیلئے جب رائے کا اظہار کیا جاتا ہے تو اسے تبصرہ کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد کسی کتاب کے جو ہر کا پتہ لگانا اور اسے اجمال یا تفصیل کے ساتھ پیش کرنا اور جو کچھ کہا جائے اس سے کتاب کی اہم ترین خصوصیتیں واضح ہوجائیں۔‘‘
 متذکرہ اقتباسات کی روشنی میں یہ بات کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تبصرہ کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ سماج و معاشرے اور اہل علم و ادب کو کسی کتاب کی بابت معلومات فراہم کی جائیں ۔ اس کتاب کی خصوصیت اور اس کے مضامین و مباحث سے یا موضوع سے متعارف پوری دیانت و سنجیدگی سے کرایا جائے۔ اس سے یقیناً معاشرے میں علمی روایت مستحکم ہوتی ہے جو ہمارے سماج کی یکجہتی اور امن و امان میں مثبت رول ادا کرتی ہے۔ اس لئے تبصرہ کتابوں پر کیا جائے یا کسی اور مسئلہ پر، معاشرتی تعمیر و ترقی کے لئے تبصرہ کا حقائق پر مبنی ہونا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ کتابوں پر تبصرے کی روایت تقریباًتمام زبانوں میں پائی جاتی ہے۔ انگریزی میں ۱۸۰۲ء میں Edinburg Review and Critical Journal کا اجراء عمل میں آیا جس میں تنقیدی مضامین کے ساتھ معیاری تبصروں کو بھی جگہ دی گئی۔ اگر ہم عربی زبان میں تبصرہ نگاری کی تاریخ و روایت پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس موضوع پر ماہرین نے کئی اہم کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ اس ضمن میں سب سے پہلا نام محمد بن اسحاق بن ندیم (م۹۹۵ء) کا ملتا ہے جنہوں نے ’’الفہرست‘‘ کے نام سے ایک اہم ترین اور جامع ترین کتاب تصنیف کی۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ ظہور ِ اسلام کے بعد ابتدائی چار صدیوں میں مسلمانوں نے عربی زبان میں جن علوم و فنون پر کتابیں لکھیں اور جو ادب شعر و نثر میں تخلیق کیا ان کو ابن ندیم نے موضوع وار درج کیا ہے۔ مصنفین کے حالات کے ساتھ ان کی کتابوں کے نام درج کئے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۱۰)

اسی طرح عربی زبان میں میں تبصرہ نگاری کے عنوان پر ایک اور اہم کتاب ’’ کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون‘‘ ہے۔ اس کتاب کو مصطفیٰ آفندی معروف بہ حاجی خلیفہ (۱۰۶۷ھ) نے لکھا ہے۔ اس کتاب کے اندر کم و بیش پندرہ ہزار کتابوں کا تعارف کرایا گیا ہے۔ اثناء تعارف کتابوں پر نہایت وقیع تبصرے بھی ملتے ہیں۔ اس کتاب کی اہمیت و افادیت کا اندازہ پڑھنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ علامہ حسین نبہانی کی ’’التذكار الجامع للآثار‘‘، علامہ اسماعیل پاشا کی’’ ایضاح المکنون فی الذیل علی کشف الظنون‘‘، شیخ جمیل ابن مصطفیٰ ابن محمد حافظ کی ’’السر المصون ذیل علی کشف الظنون‘‘ وغیرہ بھی فن تبصرہ نگاری پر بڑی اہمیت کی حامل ہیں ۔ شیخ یوسف سر کیس کی معروف کتاب’’ معجم المطبوعات العربیہ والمعربہ‘‘ فن تبصرہ نگاری پر بڑی معنی خیز مانی جاتی ہے۔ ان کتابوں کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ تبصرہ نگاری پر اصولی اور بنیادی مباحث یا کتاب پر تعارف و تبصرہ کا جو طریقہ ملتا ہے وہ ہر ایک تبصرہ نگار کو اختیار کرنا چاہئے تاکہ کسی بھی کتاب کا حق ادا ہوسکے نیز معاشرے اور علمی حلقوں میں اس کتاب کا درست پیغام پہنچ سکے۔ 
  فارسی زبان میں بھی فن تبصرہ نگاری پر کتابیں تصنیف ہوئی ہیں ۔ کئی بڑے بڑے فضلاء اور ادیبوں نے فارسی زبان میں تبصرہ نگاری پر تصنیفی و تحقیقی کارنامے انجام دیئے ہیں ۔ فارسی زبان میں تبصرہ نگاری پر ابو الفضل کی کتاب ’’کشکول‘‘ کے اندر اہم مباحث ملتے ہیں اور ان کی دوسری کتاب فن تبصرہ نگاری پر’’مکاتبات علامی‘‘ ہے۔ 
  اُردو زبان میں بھی تبصرہ نگاری پر بڑا اہم قابل قدر کام ہوا ہے۔ تحریک سر سید سے وابستہ کئی ماہرین نے تبصرے کئے ہیں جو آج بھی مطبوعہ ہیں ۔ خود سرسید احمد خاں نے کتاب’نجم الامثال‘ پر تبصرہ کیا ہے اور وہ تبصرے کی اہم شرائط پر گفتگو کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :’’ اگر ہم ان تمام باتوں کو راستی کے ساتھ بیان نہ کریں جو اس کتاب میں ہیں تو ہم صرف ایک مداح ہوں گے اوراس کے حسن و قبح کی نظر کرنے والے نہ ہوں گے۔ اس لئے ہم اس بات کو بیان کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ‘‘سرسید کے رفقاء میں تبصرہ نگاری کے فن پر مہدی افادی نے بھی گفتگو کی ہے۔ ’ تمدن عرب‘ پر مہدی افادی کا تحریر کردہ مضمون ۱۸۹۹ء میں رسالہ ریاض الاخبار میں شائع ہوا تھا جو تبصرہ کی اہم کڑی ہے۔ سرسید تحریک سے وابستہ ایک اور قابل قدر ادیب الطاف حسین حالی نے بھی تبصرہ نگاری پر بحث کی ہے۔ الطاف حسین حالی نے علامہ شبلی نعمانی کی کتاب’سیرت النعمان‘ پر تبصرہ لکھا تھا جو ۱۸۹۲ء کے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں شائع ہوا۔ 
 تحریک سر سید کے علاوہ فن تبصرہ نگاری میں ایک نمایاں نام مولانا ابوالکلام آزاد کا آتا ہے۔ انہوں نے ماہنامہ ’’ صدق‘‘ میں ایک کالم ’’تنقید‘‘ کے لئے مختص کیا تھا۔ اس کالم کے تحت اہل علم کو نئی کتابوں سے روشناس کرایا جاتا تھا۔ فن تبصرہ نگاری کا سلسلہ اب بھی پورے آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ رسائل و جرائد اور یومیہ اخبارات میں کتابوں پر تبصرے شائع کئے جاتے ہیں ۔ 
  کتاب پر تبصرہ کرنا اچھی بات ہے اس سے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ علمی و تحقیقی فکر پروان چڑھتی ہے، اور یہ سچ ہے کہ جو معاشرہ فکری و تحقیقی فکر و نظر کا حامل ہوگا اس کے اندر توازن ہوگا، تحمل و بردباری ہوگی سب سے بڑی بات ایسا سماج پرامن رہتا ہے۔ البتہ کسی کتاب پر تبصرہ کرنے سے قبل تبصرہ نویس کوچاہئے کہ وہ کتاب کو پوری طرح پڑھے، اس کے بعد مصنف کے متعلق معلومات حاصل کرے اس کا علمی پس منظر بھی مبصر کو معلوم ہونا چاہئے۔ تبصرہ نگاری کے لئے ضروری یہ بھی ہے کہ تبصرہ نویس موضوع سے بھی واقف ہو، کتاب پر تبصرہ تو کررہاہے لیکن جس موضوع پر کتاب ہے اس کے متعلق تبصرہ نگار کو معلومات نہیں ہے، ایسی صورت میں کوئی بھی تبصرہ نگار زیر تبصرہ کتاب کا حق ادا نہیں کر پائے گا۔ تبصرہ نگار کو موضوع کی عصری معنویت و جامعیت پر بھی گفتگو کرنی چاہئے، کتاب کی عصری اہمیت کو اجاگر کرنے سے نہ صرف اس کتاب کی عظمت میں چار چاند لگیں گے بلکہ تبصرہ نگار کی اہمیت میں اضافہ ہوگا۔ چوتھی چیز تبصرہ نگاری کے لئے متوازن سوچ کا پایا جانا ہے۔ یعنی اگر مبصر متوازن نہیں ہے بلکہ کسی خاص نظریہ کو سامنے رکھ کر کتاب پڑھ رہا یا اس پر تبصرہ کررہاہے ہے تو وہ اچھا اور غیر جانب دار تبصرہ نہیں کرسکتا۔ 
  یاد رکھئے! تبصرہ نگاری ایک طرح کی گواہی ہے اگر گواہی کسی کے متعلق غلط دی تو اس کے متعلق اسلامی تعلیمات میں جو ہدایات ملتی ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں ۔ لہٰذا کسی کتاب پر تبصرہ کرنے سے قبل اس کا مطالعہ نہایت سنجیدگی سے کرنا اور اس کے مباحث کو بلا کسی جانبداری یا فکری دباؤ کے ساتھ پڑھنا اور انہیں عوام کے سامنے پیش کرنا لازمی ہے، تبھی جا کر کسی بھی کتاب پر شایان شان تبصرہ ترتیب دیا جاسکتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK