Inquilab Logo

درد کی رات گزر جائے تو سو جاؤں گا…

Updated: June 30, 2024, 2:00 PM IST | Sarwar Al Huda | Mumbai

۲۱؍جون ۲۰۲۴ء کو معروف شاعر، کرناٹک اردو اکادمی کے سابق چیئرمین اور کرناٹک کے سابق آئی جی پی خلیل الرحمٰن المعروف بہ خلیل مامون دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔ وہ مشہور سالانہ ادبی رسالہ ’’نیا ادب‘‘ کے مدیر بھی تھے۔ زیرنظر مضمون میں ان کی شخصیت اور فن کا احاطہ کیا گیا ہے۔

Khaleel Mamoon. Photo: INN
خلیل مامون۔ تصویر : آئی این این

خلیل مامون صاحب نے صرف ایک مرتبہ دنیا سے گزر جانے کاذ کر کیا تھا۔ اپنی صحت کے بارے میں کچھ بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ اتنے سال کا ہو گیا ہوں، یہ عمر بھی اچھی خاصی ہوتی ہے۔ نہ کوئی گھبراہٹ تھی اور نہ کوئی ملال تھا۔ بہت سی دوسری باتوں کے ساتھ موت کا ذکر معمول کا ذکر معلوم ہوا تھا۔ ’کیا کرنا ہے‘، ’کیا رکھا ہے‘، ’ٹھیک ہے‘ یہ کچھ ایسے جملے اور الفاظ ہیں جو عام طور پر وہ گفتگو میں استعمال کرتے تھے۔ انگریزی کا ’کریکٹ‘ اور ’رائٹ‘ یہ دو الفاظ بھی گفتگو کا حصّہ تھے۔ مجھے ہمیشہ محسوس ہوا کہ وہ اپنے بارے میں زیادہ سوچتے نہیں ہیں۔ اگرچہ صحت کے سلسلے میں بہت حساس تھے۔ مستقل طور پر یونانی اور ہومیوپیتھی کی دوائیں استعمال کرتے۔ اپنی تکلیف کے بارے میں کبھی کبھی بتاتے۔ پاؤں کی ایک انگلی کا آپریشن ہوا تھا یا اس میں شدید تکلیف تھی، اور باتوں کا ذکر کرتے ہوئے سرسری طور پر آپریشن کا ذکر کیا۔ پچھلے سے پچھلے برس غالب انسٹی ٹیوٹ نے غا لب سے متعلق بنگلور میں ایک سمینار کا انعقاد کیا تھا۔ کلیدی خطبہ خلیل مامون صاحب کا تھا۔ بہت تیاری کے ساتھ جلسے میں شریک ہوئے۔ یہ میری ان سے دوسری ملاقات تھی۔ پہلی ملاقات دہلی میں ہوئی تھی۔ انہیں کسی بزرگ کے مزار پر جانا تھا۔ ایک ایسا مقام طے ہوا جہاں ان سے ملاقات ہو سکے، اور پھر وہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جائیں۔ 
پہلی ملاقات میں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کئی ملاقاتیں ہو چکی ہوں۔ ان کی شخصیت کا اپنا ایک رعب تھا۔ مگر ان سے مل کر اور بات کر کے محسوس نہیں ہوا کہ انہیں اپنے اس مرتبہ کا احساس ہے جو عام طور پر لوگوں کو مضحکہ خیز بنا دیتا ہے۔ ان کی شخصیت میں خوش لباسی اور خوش گفتاری دونوں کا اہم کردار ہے۔ ایک اور ملاقات کا خیال آتا ہے، ساہتیہ اکیڈمی میں ان کی کتاب پر مذاکرہ تھا، گوپی چند نارنگ صاحب کی صدارت تھی، مجھے بھی اس موقع پر کچھ کہنا تھا۔ خلیل مامون صاحب کی تین نظموں کو پڑھ کر سنایا تھا اور انہی کے حوالے سے بات چیت کی فضا ہموار ہو گئی تھی۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے بارے میں کچھ کہنے سے گریز کیا تھا۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ کبھی انہوں نے اپنی شاعری یا اپنی نثر کے بارے میں مجھ سے کوئی گفتگو کی ہو یا فرمائش۔ وہ اپنی کتابیں بھیج دیتے اور پھر بے نیاز ہو جاتے۔ یہ ادا بہت کم لوگوں کے یہاں باقی رہ گئی ہے۔ 
ایک مرتبہ خوشگوار موڈ میں فون پر کہنے لگے کہ’’ سرور یہ بتائیے کہ کس کو کتاب نہ بھیجی جائے؟‘‘ میرا جواب تھا کہ آپ پہلے کتابیں انہیں بھیج دیجئے جنہیں بھیجی جانی چاہئیں۔ پھر گفتگو اسی موضوع پر آگے بڑھتی گئی۔ کتابوں کے سلسلے میں ان کا تجربہ بہت ناخوشگوار تھا۔ کہتے تھے کہ ضروری نہیں ہے کہ آپ جسے کتاب بھیجیں وہ کتاب دیکھے بھی۔ لیکن وہ لازماً اپنے پاس آنے والی کتابوں کو پڑھتے تھے اور مجھ سے کبھی کبھی گفتگو بھی کرتے۔ دیکھئے کیا لکھا ہے کیسا لکھا ہے۔ ان کی مشکل یہ تھی کہ آسانی سے انہیں کوئی کتاب پسند نہیں آتی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ ان کا کوئی تعصب تھا بلکہ وہ شاعری ہو یا فکشن یا تنقید دوسری زبانوں کے ادب سے حوالہ دیتے اور کہتے کہ دیکھیے لوگ اس طرح سوچتے نہیں ہیں۔ مغربی ادب کا مطالعہ یہ فقرہ رسمی و رواجی سا بن گیا ہے۔ ہر ایک کے بارے میں آسانی سے کہہ دیا جاتا ہے مگر ہم یہ نہیں سوچتے کہ جس مغربی ادب کے مطالعے کو کسی سے منسوب کیا جا رہا ہے، اس کی سمجھ اور بصیرت کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ لوگ صرف ناموں اور کتابوں کا حوالہ دے کر سمجھتے ہیں کہ بات بن گئی۔ بات بن بھی جاتی ہے مگر محض اطلاعاتی۔ ذہن خود کو اور دوسروں کو علمی اور فکری طور پر آسودہ نہیں کر سکتا۔ الگ الگ وقتوں میں ایک سے زائد مرتبہ جو ان سے گفتگو ہوئی، وہ میرے مطالعے کے تعلق سے بہت اہم ہیں۔ وہ اکثر کسی کتاب کا ذکر کرتے اور بہت خوبصورتی کے ساتھ یہ معلوم کر لیتے کہ وہ کتاب میں نے پڑھی ہے یا نہیں۔ وہ نئی سے نئی اور پرانی سے پرانی کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے بہت کم عجلت سے کام لیتے۔ کئی مرتبہ یہ کہنا پڑا کہ مَیں ابھی آپ کو کال کرتا ہوں۔ یہ بھی ان کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ہے کہ انہوں نے کبھی اس کا برا نہیں مانا۔ وہ اس معاملے میں بہت عملی تھے اور سمجھ جاتے تھے کہ کوئی مصروفیت ہے۔ 
 کبھی ایسا بھی ہوا کہ کئی دن ہو گئے اور کال بیک نہیں کیا۔ پھر جب بات ہوتی تو ذکر بھی نہیں آتا تھا کہ انہوں نے فون کیا ہے۔ مجھ سے وہ علمی اور ادبی طور پر اتنا کام لینا چاہتے تھے کہ میں خوش ہونے کے ساتھ ساتھ گھبرا جاتا تھا۔ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ میں کتابوں کے ترجمے بھی کروں۔ ان میں ایک کتاب سوسان سونتچ کی اگینسٹ انٹرپرٹیشن Against Interpretation بھی ہے۔ Illness as Metaphor. کا ترجمہ بھی ان کے منصوبے میں شامل تھا۔ مجھ سے George Steiner کی کتاب Language and Silence. کا اکثر ذکر کرتے۔ اتفاق سے چند ماہ قبل دریا گنج بک بازار میں کتاب کا دوسرا ایڈیشن مل گیا، اور میں نے انہیں اس کی اطلاع دی تو اس قدر خوش ہوئے کہ جیسے کوئی نہ حاصل ہونے والی شے مل گئی ہو۔ کاغذ اتنا خستہ ہے کہ مشکل سے میں اس کے اوراق پلٹ سکا۔ یہ واحد کتاب ہے جس کا ذکر انہوں نے مجھ سے سب سے زیادہ کیا ہے۔ اور شاید اس کتاب کا ان کے ذہن نے بھی گہرا اثر قبول کیا۔ جارج اسٹائنر کی کتاب ’ٹالسٹائی اور دوستوفسکی‘ ’این ایسے ان کنٹراسٹ‘ کے ذکر سے وہ بہت خوش ہوئے تھے۔ ہربٹ ریڈ کی کتاب ’موڈرن آ رٹ‘ سے بھی وہ بہت متاثر تھے۔ اردو میں ہربٹ ریڈ کا پہلا تذکرہ محمد حسن نے اپنی کتاب ’اردو میں رومانوی تحریک‘ میں کیا ہے۔ محمود ہاشمی کا ایک مختصر سا مضمون ہربٹ ریڈ پر موجود ہے جو ان کی کتاب ’انبو ہِ زوال پرستاں ‘ میں شامل ہے۔ اتفاق سے ہر بٹ ریڈ کی یہ کتاب بھی بک بازار میں مل گئی۔ کتاب پوری طرح محفوظ ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۹)

خلیل مامون صاحب کو قدیم ہندوستان کی تاریخ اور تہذیب سے گہری دلچسپی تھی۔ تصوف کی طرف ان کا میلان تھا۔ وہ اکثر کہتے ہیں کہ میں بزرگوں کا یعنی مشائخ کا عقیدتمند ہوں۔ وہ دنیاوی معاملات میں تقدیر کے بہت قائل تھے۔ عقیدہ اتنا مضبوط تھا کہ انہیں اپنے اور دوسروں کے معاملے میں زیادہ پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ وہ اس معنی میں کہ دکھ اور افسوس اپنی جگہ مگر قدرت کا فیصلہ ہے۔ اُنہوں نے امیر خسرو پر ایک جلسے کا منصوبہ بنایا۔ مجھ سے ایک سیشن میں مقالہ پڑھنے یا گفتگو کرنے کیلئے کہا تھا۔ میں نے ہامی بھی بھر لی تھی مگر شریک نہیں ہو سکا تھا۔ اس کا رنج بھی تھا اور تکلیف بھی۔ مگر فارسی کے ایک اسکالر کا جب نام پیش کیا تو وہ خوش ہوئے۔ امیر خسرو کی شخصیت کے کئی رنگ ہیں اور ان کو ہر رنگ میں دلچسپی تھی۔ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ امیر خسرو پر اردو میں جو تنقید لکھی گئی ہے اس کا جائزہ لیا جائے۔ اس ضمن میں ممتاز حسین کا نام آیا تھا اور مجھے اسی پر گفتگو کرنی تھی۔ جیتے جی انہوں نے بہت سے منصوبے بنائے اور اس معاملے میں ان کے یہاں ایک خواب کی صورت تھی۔ انہیں کبھی یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ وقت بہت تیزی کے ساتھ نکل رہا ہے یا بہت وقت نکل چکا ہے۔ 
اس وقت یاد نہیں کہ ’نیا ادب‘ کے کتنے شمارے شائع ہو چکے ہیں۔ ایک شمارہ ایسا بھی تھا جس میں کلیم عاجز کی شاعری اور شخصیت پر مضامین تھے اور شاعری کا انتخاب بھی۔ وہ کلیم عاجز کی شاعری کو اہمیت دیتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ نیچرل شاعر ہیں، اس معنی میں کہ انہوں نے تاریخی حادثے کو ذات کے حوالے سے آفاقی رنگ عطا کر دیا۔ ان کی علم دوستی اور ادب سے سچی وابستگی نے مجھے حوصلہ بخشا ہے۔ ’نیا ادب‘ کا جو تازہ شمارہ ان کے پیش نظر تھا، اس کے سلسلے میں اپنے انتقال سے ایک دن پہلے لمبی گفتگو کی تھی۔ اتنے مسائل ان کے ذہن میں تھے کہ جیسے ایک شمارہ ان سب کا بوجھ اٹھا لے گا۔ اب محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے جن ادیبوں پر مضامین شائع کرنے کا ارادہ کیا تھا، وہ دراصل ان کی اس آگہی کا نتیجہ تھا کہ پتہ نہیں پھر وقت ملے یا نہ ملے۔ کاش ایسا ہو کہ جو شمارہ وہ جس طرح کا شائع کرنا چاہتے تھے اس کا کوئی مسودہ یا تحریری شکل میں کوئی خاکہ مل جائے تو اس کو اس صورت میں مرتب کیا جا سکے۔ ’نیا ادب‘ کا ایک شمارہ تقریباً دہلی میں تیار ہوا اور اس میں میرے کئی عزیز شاگرد شریک تھے۔ ڈاکٹر عبدالسمیع کی کتاب ’اردو میں نثری نظم‘ بہت پسند تھی اور وہ چاہتے تھے کہ عبدالسمیع نثری نظم کا ایک انتخاب کتابی صورت میں شائع کریں۔ ڈاکٹر محضر رضا کی مرتبہ کتاب ’مکاتیب قاضی عبدالودود‘ جب انہیں ملی تو مجھے فون کیا اور محضر کے بارے میں دیر تک گفتگو کرتے رہے۔ 
قاضی عبدالودود کے یہ خطوط دو جلدوں میں ہماری ادبی تاریخ کا ایک اہم حوالہ ہے۔ خلیل مامون، قاضی صاحب کے خطوط پڑھتے جاتے اور کبھی مجھے تو کبھی محضر کو فون کرتے۔ ایک مرتبہ اس حد تک کہا کہ باہر کی دنیا میں بھی بہت کم ایسی شخصیات ہوں گی جیسی قاضی صاحب کی تھی۔ ان کے نزدیک قاضی عبدالودود کا سب سے بڑا امتیاز ان کا مطالعہ اور ذہن کا حاضر اور مرتب ہونا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ تحقیق میں اتنا معروضی ذہن اردو کو شاید پہلی بار ملا۔ انہیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ قاضی صاحب کی رینج بہت پھیلی ہوئی ہے اس کی وجہ دوسری زبانوں سے ان کی واقفیت ہے۔ انہیں اس بات پر رنج تھا کہ اتنے اہم خطوط پر کوئی جلسہ نہیں ہوا اور نہ کسی نے اس پر توجہ دی۔ لیکن محضر کی محنت ضائع نہیں ہوگی۔ ان کا یہ بھی ارادہ تھا کہ بنگلور میں قاضی عبدالودود پر دو دن کا جلسہ کیا جائے اور ایک سیشن ان مکاتیب پر مشتمل ہو۔ مجھے ان کے اس جوش اور جذبے نے کافی متاثر کیا تھا۔ وہ ہمیشہ قاضی صاحب کے ذکر کا کوئی پہلو نکال لیتے۔ اُن کی تحقیق کے حوالے سے وہ کسی ورق یا اقتباس پر ٹھہر جاتے اور پھر ان کی کال آجاتی۔ (جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK