’’صحت ِ زبان و بیان اور اردو املا‘‘ ایک اہم موضوع ہے۔ اس پر یہ طویل مضمون آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر ہے جس کا پہلا حصہ ملاحظہ کیجئے۔ اس میں اردو زبان کی اہمیت سے بحث کی گئی ہے۔
EPAPER
Updated: September 29, 2024, 1:27 PM IST | Dr. Tabish Mehdi | Mumbai
’’صحت ِ زبان و بیان اور اردو املا‘‘ ایک اہم موضوع ہے۔ اس پر یہ طویل مضمون آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر ہے جس کا پہلا حصہ ملاحظہ کیجئے۔ اس میں اردو زبان کی اہمیت سے بحث کی گئی ہے۔
علم و قلم کی دنیا میں بول چال اور بیان کرنے کے انداز کو زبان کہتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے، جو انسان اور غیرانسان کے درمیان دیوار کھڑی کرتی ہے۔ انسان وہی ہے، جس کے اندر نطق و گویائی ہو اور وہ اپنی ضروریات کے اظہار کیلئے حرف و صوت کا سہارا لینے پر قادر ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یا تو ہم اُسے گونگا کہیں گے یا حیوان۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جس شخص کا بولنے چالنے، ادائے روز مرّہ اور مافی الضمیر کے اظہار کا انداز، جتنا معیاری اور اعلیٰ ہوگا، اتنا ہی اعلیٰ اور معیاری اس کا وہ پیام ہوگا، جسے وہ کسی ضرورت کے پیشِ نظر کسی فرد یا اجتماع تک پہنچانا چاہے گا۔
دُنیا میں بولی یا سمجھی جانے والی زبانوں کا شمار دشوار ہے۔ خود ہمارے ملک ہندوستان جنت نشان میں درجنوں زبانیں بولی، سمجھی اور لکھی، پڑھی جاتی ہیں۔ سب کا اپنا اپنا انداز اور ڈھب ہے۔ یہ سب اپنے علاقوں کے باشندوں کے ذریعے سے ان کی ضروریات کے مطابق وجود میں آئی ہیں۔ اردو بھی ایک زبان ہے۔ اس کی بھی ایک تاریخ ہے۔ بلاشبہ، یہ دنیا کی بڑی اور عظیم علمی و تہذیبی زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔ اِس کا امتیاز یہ ہے کہ یہ کسی قوم، ملک یا خطۂ ارض تک محدود نہیں ہے اور نہ کسی مذہب و ملّت کے زیر ِ اثر وجود میں آئی ہے۔ ہر علاقہ و دیار اور ہر قوم و مذہب کے لوگ اسے بولتے، سمجھتے اور لکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی اِسے اچھی طرح بولتے اور سمجھتے ہیں، جو کسی غلط فہمی کی وجہ سے اِسے پسند نہیں کرتے۔ لطف تو یہ ہے کہ وہ اس کی مخالفت بھی اِسی کے الفاظ اور محاوروں کا سہارا لے کر کرتے ہیں۔
اردو، دنیا کی متعدد چھوٹی بڑی زبانوں کے آمیزے سے وجود میں آئی۔ سب سے اس نے حسب ضرورت استفادہ کیا ہے، اپنے دامن کو موتیوں سے بھرا ہے اور اپنے پیروں پر کھڑی ہوئی ہے۔ آپ اِس میں بے شمار زبانوں کے اچھے، صاف ستھرے اور دلوں میں جگہ پیدا کرنے والے الفاظ پائیں گے۔ میں اکثر یہ کہتا ہوں اور علمی دنیا کے متعدد علما اور دانشوروں کے اقوال سے اس کی تائید و تصویب ہوتی ہے کہ اردو زبان خالص صحبتی، تربیتی اور تہذیبی زبان ہے۔ اس کی شیرینی، مٹھاس، نزاکت، تاثیر اور خوشبو کو وہی لوگ محسوس کرسکیں گے جنہوں نے ایسی مجلسیں، محفلیں اور صحبتیں پائی ہیں، جہاں اس کی آرائش و زیبائش کا التزام ملتا ہے اور مسلسل اس کا انداز و اسلوب، محلِ استعمال، محاورات اور روز مرّہ ان کا موضوعِ گفتگو رہتا ہے۔ اس کی خوبیوں اور نزاکتوں تک محض لغات یا سندوں اور ڈگریوں کے ذریعے نہیں پہنچاجاسکتا۔
یہ بھی پڑھئے: تخلیق ِ کائنات کی ساعت تخلیق ِنعت کی بشارت سے آراستہ تھی
اردو کا دائرہ بہ تدریج پھیلتا اور وسیع ہوتا جارہا ہے۔ اِس کو بولنے، سمجھنے اور پسند کرنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ پوری دنیا میں اردو کی نئی نئی بستیاں آباد ہورہی ہیں۔ یورپ، امریکہ، عرب ممالک، امارات اور دور و نزدیک کے دوسرے ممالک میں کسی نہ کسی سطح پر اس کے فروغ و ارتقاء کے سلسلے میں کوششیں ہورہی ہیں۔ ہمہ وقتی یا شبینہ و صباحی مدارس و مکاتب قائم ہورہے ہیں۔ وہاں آئے دن اردو کی مجلسیں اور محفلیں منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ چھوٹے بڑے مشاعرے ہوتے ہیں۔ میں نے پوری دنیا کی سیر تو نہیں کی لیکن یورپ کے مختلف ممالک، عرب، گلف، امارات اور دوسرے پڑوسی ملکوں میں جہاں بھی گیا ہوں، اردو ہی کے حوالے سے گیا ہوں۔ ہر جگہ مشاہدے میں یہی بات آئی ہے کہ وہاں جہاں بھی شعری یا نثری محفلیں منعقد ہوئیں، وہ اپنی معنویت اور اثرات کے اعتبار سے دوسری زبانوں کے پروگراموں پر فائق رہی ہیں۔
اردو زبان اپنی مذکورِ بالا تمام خوبیوں اور انفرادیتوں کے باوجود بعض پریشان کن اور ترقی کی راہ میں موانع پیدا کرنے والے مسائل سے بھی دوچار ہوتی رہی ہے۔ اُن میں اس کا تلفظ اور املا دونوں سرِ فہرست ہیں۔ اِن دو چیزوں نے اردو کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں اور دشواریاں پیدا کی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اِن پہلوؤں سے بے پناہ بے احتیاطی اور بے اعتدالی پائی جاتی رہی ہے۔ اب بھی پائی جاتی ہے۔ یہ مسائل صرف عوام یا کم خواندہ طبقے تک محدود نہیں، اعلیٰ درجے کے تعلیم یافتہ افراد، مصنفین اور ارباب درس و تدریس بھی ان کا شکار رہے ہیں۔ اُنہوں نے جامعات کی اعلیٰ ڈگریاں اور عالم و فاضل کی سندیں حاصل کرکے اردو کے نام سے خود کو ممتاز و نمایاں تو کیا، اسے روزی روٹی کا بھی ذریعہ بنایا، لیکن مذکورِ بالا مسائل کے بارے میں سنجیدگی سے کبھی غور نہیں کیا۔ نہ اس کی ضرورت محسوس کی۔ جب ان کے سامنے اس سلسلے میں کوئی بات آئی، انہوں نے اس کو شے مستزادتصور کیا یا اس سے چشم پوشی کی۔
اپنے اصل موضوع پر آنے سے پہلے میں یہ گوش گزار کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ الفاظ اور ان کا اِملا ایک تفصیلی موضوع ہے۔ کسی مختصر مضمون یا گفتگو میں نہ اِس کا احاطہ ممکن ہے اور نہ مَیں علم و فضل کے اس مقامِ بلند پر فائز ہوں کہ تھوڑے سے وقت میں اِس کا حق ادا کرسکوں۔ میری آج کی اس گفتگو کی حیثیت بس اتنی ہے کہ میں تعلیم و تعلم سے تعلق رکھنے والے بھائیوں اور تقریر، تحریر اور تصنیف و تالیف سے دلچسپی رکھنے والے عزیزوں کو اِس بات کا احساس دلادوں کہ ہمیں تقریر یا تحریر میں زبان و بیان اور تلفظ واملا کے سلسلے میں کس حد تک باخبر اور محتاط رہنا چاہئے۔
علم و ادب، تحریر و تصنیف اور تقریر و خطابت کی دنیا میں الفاظ اور اُن کے تلفظ کی ہمیشہ اور ہر دور میں اہمیت رہی ہے۔ علما اور اربابِ نظر نے ہمیشہ ان کی معنویت، لغوی حیثیت، محلِ استعمال، تلفظ اور طرز ادا پر زور دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تحریر یا تقریر کی عمارت جملوں پر کھڑی ہوتی ہے اور جملے الفاظ سے بنتے ہیں۔ الفاظ کے بغیر ابتدائیہ، خبریہ یا انشائیہ جملوں کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی صورت میں یہ بات صاف اور واضح ہوجاتی ہے کہ اصل حیثیت الفاظ کی ہے۔ تقریر یا تحریر کا اصل حسن اسی وقت سامنے آتا ہے، جب اِس بات کا پورا پاس و لحاظ رکھا گیا ہو کہ اس میں زیر ِ استعمال الفاظ کی لغوی حیثیت کیا ہے، ان کا تلفظ کیا ہے، ان کی ادائی کس طرح ہوئی ہے اور جہاں اور جس سلسلے میں جو لفظ استعمال کیا گیا ہے، وہاں وہی لفظ مناسب ہے یا اس کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ استعمال کیا جانا چاہئے تھا؟ اِس احساس سے انحراف کرکے جو عبارت لکھی جائے گی یا بات کی جائے گی، وہ صاحب نظر قاری یا سامع کیلئے تکلیف دِہ اور اذیت ناک ہوگی۔ وہ تقریر یا تحریر اپنے موضوع کی اہمیت و ناگزیری کے باوجود بے اثر اور غیرمفید رہے گی۔ جو لوگ تقریر، تحریر یا اپنی عام زندگی میں موقع و محل کا خیال نہیں رکھتے، وہ کبھی اپنے مقصد میں کام یاب نہیں رہتے۔ اِس موقعے پر ہمارے ممدوح، مخدوم اور بزرگ تحریکی رفیق حضرت مولانا ابوالبیان حماد عمریؒ یاد آگئے۔ انھوں نے ایک بار برسبیل تذکرہ بتایا تھا کہ ستّر کی دہائی میں جامعہ دارالسلام عمرآباد کے ایک پروگرام میں میری سفارش پر علی گڑھ کے ایک بہت بڑے اسکالر کو مدعو کیا گیا تھا۔ چونکہ وہ صاحب تحریک اسلامی سے تعلق رکھتے تھے اور میں نے ہی ذمہ دارانِ جامعہ سے ان کی سفارش کی تھی، اِس لئے میں مستقل ان کے ساتھ رہا۔ ان کے قیام و طعام اور دوسری سہولتوں کیلئے بھی مَیں ہی پیش پیش رہا۔ پروگرام میں لے جانے سے پہلے تنہائی میں، میں نے اُن سے عرض کیا: ’’محترم! تمل ناڈو کا یہ نارتھ آرکاٹ کا ایریا بعض معاملات میں بہت حساس واقع ہوا ہے۔ اِس دیار میں اردو زبان اور سر پہ ٹوپی کسی مسلمان کی پہچان تصور کی جاتی ہے۔ مناسب ہوگا کہ اسٹیج پر جائیں تو آپ کے سر پر ٹوپی ضرور رہے۔ ‘‘ مولانا محترم نے فرمایا کہ ان کی یہ بات سن کر مہمان صاحب چراغ پا ہوگئے۔ کہا: ’مولانا حمادؔ صاحب! دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، آپ لوگوں کی قدامت اور دقیانوسی اب تک نہیں گئی؟‘ چنانچہ وہ ٹوپی کے بغیر ہی اپنے ماڈرن حلیے اور لباس میں اسٹیج پر تشریف لے گئے۔ ان کا بہت جامع تعارف کرایا گیا اور بڑا قیمتی اور گراں قدر خطبہ انھوں نے پیش کیا۔ خطبہ کیا تھا حکمت و بصیرت کا ایک حسین مرقع تھا لیکن سامعین اس کی افادیت سے محروم رہے۔ مجمع میں شروع سے آخر تک انہی کے سلسلے میں چہ می گوئیاں ہوتی رہیں۔ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے ان کے اور انہی کی وجہ سے تحریک اسلامی کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ کہتے رہے۔ نہ سنجیدگی سے خطبہ سنا اور نہ استفادہ کیا۔
لفظ یا جملے میں اِملا ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اِسی سے مصنف یا محرّر کی پہچان ہوتی ہے۔ ویسے املا تحریروں میں ہی دیکھا اور جانا جاتا ہے، لیکن کبھی کبھی یہ تقریر میں بھی اپنا رنگ دکھا دیتا ہے۔ جیسے: لفظ شخص میں شین پر زبر ہے، خا اور صاد ساکن ہے۔ اِسے اگر کوئی شَخص، شین اور خا دونوں کو زبر کے ساتھ بولتا یا لکھتا ہے تو وہ تحریر میں نہیں، تقریر میں پہچانا جائے گا۔
یہ بھی پڑھئے:عینی آپا: ۲۰؍ویں صدی میں پیدا ہونے والی دراصل ۲۱؍ ویں صدی کی اَدیبہ تھیں
اِملے میں پہلی چیز تو یہ دیکھی جاتی ہے کہ لفظ میں کن کن حرفوں کو استعمال کیا گیا ہے۔ دوسری چیز مستعمل حرفوں کی ترتیب دیکھنے کی ہوتی ہے۔ تیسری چیز یہ دیکھنے کی ہوتی ہے کہ جو حروف استعمال کیے گئے ہیں، اُن میں صحیح حرکات کا استعمال کس حد تک ہوا ہے۔ اس کی ایک مثال املا کی تعریف کے ذیل میں دے دی گئی ہے۔ عِلْم کو عِلَمْ، قَلَمْ کو قَلْمْ، حُکْمْ کو حُکَمْ، شَکْلْکو شَکَلْ، گَرْمْ کو گَرَمْ، سِحْرْ کو سِحَرْ یا سَحَرْ کو سِحْرْ یا سِحَرْ لکھنا یا بولنا بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ اِس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ ایسی غلطیوں کا اندازہ تحریروں میں تو نہیں ہوپاتا لیکن تقریروں، گفتگو اور اشعار میں ہوتا ہے۔ ایسی غلطیوں سے تقریر یا گفتگو میں بھی کرکراپن آجاتا ہے اور اشعار بھی بے بحرے ہوجاتے ہیں۔ یہ ایسی غلطیاں ہیں، جن میں اچھے خاصے لوگ غچّہ کھا جاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ ۱۹۸۹ میں جب میرا مجموعہ کلام ’تعبیر‘ شائع ہوا تو اس کا ایک نسخہ میں نے اپنے ممدوح حکیم محمد ایوب ندوی رحمۃ اللہ علیہ کو دیا اور ایک نسخہ جماعت اسلامی ہند کے مرحوم امیرمحترم محمد سراج الحسن رحمۃ اللہ علیہ کو۔ وہ ان دنوں سکریٹری کے منصب پر فائز تھے، کسی سلسلے میں بلریا گنج کا دورہ کیا تھا۔ قیام محترم حکیم صاحب کے ہاں تھا۔ ’تعبیر‘ کو دونوں بزرگوں نے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھااور حوصلہ افزا کلمات سے بھی نوازا۔ وہاں ایک صاحب اور بیٹھے ہوئے تھے۔ اُنہیں شاید دونوں بزرگوں کے تحسینی کلمات اچھے نہیں لگے۔ انہو ں نے تعبیر کا نسخہ اٹھایا۔ ورق گردانی کی۔ ایک شعر پر رک گئے اور سب کے سامنے فرمایا: یہ شعر تو غلط ہوگیا۔ اِس میں سکتہ ہے۔ وہ شعر تھا:
مری ذات ہی اس کا موضوع تھی = وہ میرے گناہوں کو دھوتا رہا
جب میں نے پوچھا کہ کہاں سکتہ ہے؟ تو انہوں نے مصرعِ اولیٰ میں لفظ ’موضوع‘ کی طرف اشارہ کیا۔ دراصل ’موضوع‘ مفعول کے وزن پر ہے۔ انہوں نے اسے فِعْلُنْ کے وزن پر پڑھ لیا۔ وہ لکھتے تو یقیناً مَوْضُوْعْ ہی رہے ہوں گے، لیکن بولنے اور پڑھنے میں عام کم خواندہ لوگوں کی طرح آخر کے عین ساکن کو غائب کرکے فِعْلُنْ کے وزن پر بولتے اور پڑھتے رہے ہوں گے۔ اسی لئے انہیں سکتہ نظر آیا۔
اِن شاء اللہ /انشاء اللہ: یہ ہے تو عربی کا لفظ لیکن فارسی، اردو اور دوسری زبانوں میں بھی بہ کثرت استعمال ہوتا ہے۔ بعض برادان وطن بھی اِسے استعمال کرتے ہیں۔ اِس کے املے کے سلسلے میں لوگ شدید غلطی کا شکار ہیں۔ سب انشاء اللہ الف، نون اور شین کو ملاکر لکھتے ہیں جبکہ یہاں ’اِن‘ کا استعمال حرفِ شرط کے طورپر ہوا ہے۔ اِس کا مطلب ہے، ’اگر‘ اور شا کا معنی ہے چاہا‘چنانچہ ان شاء اللہ کا مفہوم ہوا اگر اللہ نے چاہا۔ ایسی صورت میں الف اور نون کو’ شا‘ سے الگ ہی لکھنا چاہیے۔ قرآنِ مجید میں بھی یہ الگ ہی لکھا ہوا ملے گا۔ اِن شآء اللہ۔ عربی کے طالب علموں کو خوب معلوم ہوگا کہ اگر ملا کے لکھاجائے تو ’اِنشا‘ کے معنیٰ کیا ہوں گے۔
نونِ غنّہ (ں ): منادا کے آخر میں نونِ غنّہ (ں )لگانے کا بھی رواج عام ہے۔ اے جوانو! اے دوستو! اے مسلمانو! کو غنّہ لگا کر اے جوانوں، اے دوستوں اور اے مسلمانوں لکھا اور بولا جاتا ہے۔ اِس سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہیے۔ غنّہ تو اس وقت لگے گا، جب انہیں ہم غائب کے صیغے میں استعمال کریں۔ مثلاً: جوانوں نے کہا، دوستوں نے سنا، دشمنوں سے مت ڈرو، اور مسلمانوں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔
مصدر: فارسی میں مصدر کی پہچان دَن یا تَن ہے۔ لیکن اردو میں ’نا‘( نون اور الف)۔ جیسے: کھانا، پینا، لینا، دینا، جانا، پانا وغیرہ۔ مصدری لفظ کے سلسلے میں دبستانِ دہلی کا عمل یہ ہے کہ یہ اِسم اور فعل کے تابع ہے۔ وہ مذکّر ہے تو یہ بھی مذکر ہے، وہ مؤنّث ہے تو یہ بھی مؤنث۔ مثلاً: روٹی کھانی ہے، دوا لینی ہے، کتاب پڑھنی ہے، شہر جانا ہے، کل اُسے کھانا کھلانا ہے اور درزی کے ہاں کرتا سلانا ہے۔ وغیرہ
ہا اور الف: اردو املا ہا اور الف کے سلسلے میں اکثر موضوعِ بحث بنا رہتا ہے۔ حالاں کہ ذرا سی توجہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کہاں الف لکھا جائے گا اور کہاں ہا۔ یہاں ’ہا‘ سے ہماری مراد ہائے مختفی سے ہے۔ ہائے مختفی وہ ’ہا‘ ہے، جو ہم کسی لفظ کے آخر میں لکھتے ہیں جسے ہمیشہ الف کی آواز میں بولا جاتا ہے۔ وزنِ شعری میں بھی وہ الف ہی کا قائم مقام رہتا ہے۔ ہائے مختفی سے متعلق قاعدہ یہ ہے کہ یہ صرف عربی یا فارسی الفاظ کے آخر میں ہی آئے گی۔ جیسے: طلبہ، صوفیہ، کعبہ، ادویہ، مدینہ، مرثیہ، صفحہ، آموختہ، شگفتہ، گزشتہ، رفتہ، دستہ، بستہ، کہنہ وغیرہ مگر جو الفاظ عربی یا فارسی کے نہیں ہیں ان کے آخر میں ہم الف لکھیں گے۔ جیسے: پتا، راستا، رستا، بھروسا، اکھاڑا، پسینا، پٹاخا، پیسا، روپیا وغیرہ۔ بعض ماہرین لسانیات نے بعض شہروں کے ناموں کو مستثنیٰ کردیا ہے۔ مثلاً: امروہہ، کلکتہ، پٹنہ وغیرہ لیکن یہ استثنا ہی ہے۔ اِس سے قاعدہ نہیں بدلے گا۔
’ہا‘ کی قسمیں : ’ہا‘ کی تین قسمیں ہیں : ہائے ملفوظ، ہائے مخلوط اور ہائے مختفی۔ ہائے مخلوط وہ ’ہا‘ ہے، جو کسی لفظ کے شروع میں آتی ہے یا درمیان میں۔ یہ اپنے پورے تلفظ کے ساتھ بولی یا لکھی جاتی ہے۔ جب یہ کسی لفظ کے شروع میں آتی ہے تو شوشے دار لکھی جاتی ہے جیسے: ہم، ہو، ہجرت، ہر۔ اس کی پہچان کیلئے نیچے ایک علامت(، ) لگا دیتے ہیں۔ اِس علامت کو بعض علاقوں میں لٹکن بھی کہتے ہیں۔ اگر ’ہا‘ کسی لفظ کے درمیان میں آئے گی تو اسے کہنی دار لکھیں گے۔ پہچان کیلئے اس کے نیچے بھی لٹکن لگائیں گے۔ جیسے: بہت، نہیں، کہیں، مہینا، کہنہ وغیرہ۔ جب ہا کسی لفظ کے آخر میں لکھیں گے تو اسے ہائے مختفی کی شکل میں لکھیں گے۔ البتہ اس کے نیچے پہچان کیلئے لٹکن لگائینگے، جو کہ عام ہائے مختفی کے نیچے نہیں لگاتے۔ جیسے: وجہہ، نکہہ، نُہہ فلک، گنہہ(گناہ کا مخفف) اور کُہنہ وغیرہ۔ لیکن ہا کی اِس شکل پر انکاری ’نہ‘ یا کافِ بیانیہ ’کہ‘ کو قیاس نہ کریں۔ ’نہ‘ ہمیشہ نون پر زبر کے ساتھ ہی لکھا اور پڑھا جائے گا اور ’کہ‘ کاف کے زیر کے ساتھ۔ شعری وزن میں بھی یہ دونوں نَ اور کِ ہی رہیں گے۔
ہائے مختفی کے سلسلے میں مزید باتیں
یہ بات بتائی جاچکی ہے کہ ہائے مختفی ہمیشہ عربی یا فارسی الفاظ کے آخر میں آتی ہے۔ ہاے مختفی میں ’ہا‘ سے پہلے والا حرف ہمیشہ زبر کے ساتھ ہوتا ہے لیکن جب ایسے کسی لفظ کو امالے کے ساتھ پڑھیں گے یا لکھیں گے تو ہا سے پہلے والا حرف زیر کے ساتھ ہوجائے گا۔ ایسی صورت میں ہا کو یائے مجہول (ے) سے بدل دیتے ہیں۔ جیسے قصیدہ سے قصیدے، درجہ سے درجے، مرثیہ سے مرثیے، رتبہ سے رتبے اور جذبہ سے جذبے وغیرہ۔ امالہ ایک ضروری عمل ہے۔ اس کے بغیر تقریر، تحریر یا شعر میں بدنمائی اور مضحکہ خیزی پیدا ہوجاتی ہے۔ داغؔ کا شعر ہے:
کسی کا مجھ کو نہ محتاج رکھ زمانے میں
کمی ہے کون سی یارب! ترے خزانے میں
اِس کے پہلے مصرعے میں اگر زمانہ اور دوسرے مصرع میں خزانہ پڑھا یا جائے تو یہ اہلِ نظر کے درمیان دیر تک مذاق و تمسخر کا موضوع بنا رہے گا۔ یہی بات شہروں کے ناموں کے سلسلے میں بھی ہے۔ غالب کا شعر ہے:
کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں = اِک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے
داغ دہلوی کا بڑا پیارا سا شعر ہے:
کوئی چھینٹا پڑے تو داغ کلکتے چلے جائیں
عظیم آباد میں ہم منتظر ساون کے بیٹھے ہیں
اِن دونوں اشعار میں اگر کلکتے کو کلکتہ اور سینے کو سینہ پڑھیں گے یا لکھیں گے تو یہ ایک مقبوح و مکروہ بات ہوگی۔
ہمزہ: یہ حرف بھی ہے اور علامت بھی۔ مثلاً: جلوۂ یار، کوچۂ جاناں اور حوصلۂ مرداں میں ہمزہ کا استعمال علامتِ اضافت کیلئے ہے اور جائو، کھائو، سائل، مسئلہ، علاء الدین، ثناء اللہ، ماشاء اللہ اور اِن شاء اللہ میں حرف کے طور پر۔ جن الفاظ کے آخر میں الف ہے، ان میں اضافت کے وقت ہمزہ کا استعمال نہیں ہوگا۔ یائے مجہول (ے) کافی ہے۔ جیسے: ابتدائے عشق، انتہائے شوق، صدائے دل، دانائے راز، افشائے راز وغیرہ۔ جن الفاظ کے آخر میں یائے معروف (ی) ہے، وہاں بھی ہمزہ نہیں رہے گا۔ آسانی کیلئے یا کے نیچے بس زیر لگادیں گے۔ جیسے: روشنیِ دل، بندگیِ خدا، مرضیِ مولیٰ، سرخیِ حِنا وغیرہ۔
(طویل مضمون سے)