• Mon, 30 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عینی آپا: ۲۰؍ویں صدی میں پیدا ہونے والی دراصل ۲۱؍ ویں صدی کی اَدیبہ تھیں

Updated: September 15, 2024, 3:42 PM IST | Muzaffar Hussain Syed | Mumbai

جو شکوہ غالبؔ کو تھا، وہی قرۃ العین کو بھی تھا، انہوں نے خود ایک بار کہا تھا: ’’اچھا ادب بہت کم لوگوں تک پہنچتا ہے، جیسے میں جو کچھ لکھتی ہوں، جانتی ہوں، اسے پڑھنے والے لوگ کم ہی ہیں‘‘ لیکن انہوں نے اس کے ساتھ ہی دوسری سانس میں یہ بھی کہا تھا: ’’اچھا ادب آپ کو پڑھنے پر مجبور کرتا ہے، آج آپ نے نہیں پڑھا تو وہ آپ کو دس سال بعد پڑھنے پر مجبور کریگا۔ ‘‘

Qurratulain Hyder. Born: 20th January 1927 Died: 21st August 2007 Photo: INN
قرۃ العین حیدر۔ آمد: ۲۰؍جنوری ۱۹۲۷ء۔ رخصت: ۲۱؍اگست ۲۰۰۷ء۔ تصویر : آئی این این

 آنے والی نسلیں ہم پر فخر کریں گی، ہم عصرو!
یہ مصرع جس شخصیت ِ بے مثل پر من و عن صادق ہے، اس کا نام نامی اسم گرامی قرۃ العین حیدر ہے۔ اردو کی عظیم قلم کارہ قرۃ العین حیدر عرف عینی اکیسویں صدی کی ادیبہ تھیں، جنہوں نے شاید غلطی سے بیسویں صدی کے اوائل میں جنم لے لیا، اسی لئے زمانہ انہیں سمجھ نہ سکا، البتہ یہ ان کی خوش نصیبی تھی کہ ان کے پڑھنے والوں نے انہیں سمجھے بغیر (بلکہ اکثر پڑھے بغیر ہی) ان کی تعریف دل کھول کر کی، اتنی تعریف کہ آسمانِ ادب پر بٹھادیا۔ یہاں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ قرۃ العین حیدر اس مقام کی مستحق نہیں تھیں، جس پر فائز کی گئیں، وہ تو اس سے بھی بلند مقام کی حقدار تھیں، بشرطیکہ اُن کے ہم عصر ان کو صحیح اور درست آنک سکتے، یہاں اس دلچسپ اور سبق آموز حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ پچاس کی دہائی سے ہی قرۃ العین کا ایسا رُعب اور دبدبہ اردو کے ادبی حلقوں پر قائم ہوگیا تھا کہ کوئی ان کے ادبی مقام کو ذرّہ برابر بھی کم کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا تھا، اور یہ ان کی بڑی حصولیابی تھی۔ انہوں نے تمام تحریکات، ادبی انجمنوں، جماعتوں اور نام نہاد ادبی گروہ بندیوں سے بالاتر ہوکر اپنے قلم کی بادشاہت قائم کی، جسے بالکل صحیح و لغوی معنی میں قلمرو کہا جاسکتا ہے۔ 
 مرزا غالبؔ کی مثل قرۃ العین حیدر بھی اپنے عصر کی نہیں بلکہ دورِ آئندہ کی قلمکارہ اور ادیبہ تھیں۔ غالبؔ کو ہمیشہ یہ شکوہ رہا کہ ان کے زمانے کے لوگوں (شاعروں، تذکرہ نگاروں، خواص، ابابِ اقتدار، حتیٰ کہ عوام) نے نہ انہیں سمجھا اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کی، لہٰذا اردو کے اس عظیم شاعر کو اس امید پر قانع ہونا پڑا کہ آنے والا زمانہ اس کی قدر کریگا، اس کی اہمیت جانے گا، اور یقیناً ایسا ہوا بھی۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے غالبؔ کو بیسویں صدی نے پہچانا، غالبؔ شناسی کا نیا عہد شروع ہوا، ان کی صدی مناتے مناتے اردو والوں نے ان کا حق ادا کردیا اور اردو دنیا ہی کیوں، اردو کے دائرے کے باہر بھی ہندوستان، پاکستان، برطانیہ، بلکہ ایک جہان نے ان کی عظمت کے آگے سرنگوں کردیا، تاہم اس ذکر کو یہیں تک رہنا چاہئے کیونکہ اس مضمون کا موضوع غالبؔ نہیں، بلکہ ان کی رخصت کے ستّاون اٹّھاون برس بعد اس جہانِ آب و گِل میں تشریف لانے والی ایک عظیم قلم کارہ ہے جس نے اگرچہ شاعری بھی کی مگر زبانِ فرنگ میں۔ اب یہ بات دگر کہ اس نے نثر میں جو شاعری کی، اس نے اس کی نثر کو اعلیٰ ترین منازل سے ہمکنار کردیا، ایں قدر کہ لوگ عش عش کر اُٹھے، قارئین بھی اور ناقدین بھی، اور اس حد تک کہ شاید خود مرزا غالبؔ بھی موجود ہوتے تو نثر نگاری اور نفسِ مضمون دونوں کی بنا پرقرۃ العین کو اپنی آنکھ کا تارا قرار دیتے۔ 

یہ بھی پڑھئے:ادیب پیدا ہوتا ہے، بنایا نہیں جاتا

جو شکوہ غالبؔ کو تھا، وہی قرۃ العین کو بھی تھا، انہوں نے خود ایک بار کہا تھا: ’’اچھا ادب بہت کم لوگوں تک پہنچتا ہے، جیسے میں جو کچھ لکھتی ہوں، جانتی ہوں، اسے پڑھنے والے لوگ کم ہی ہیں ‘‘ لیکن انہوں نے اس کے ساتھ ہی دوسری سانس میں یہ بھی کہا تھا: ’’اچھا ادب آپ کو پڑھنے پر مجبور کرتا ہے، آج آپ نے نہیں پڑھا تو وہ آپ کو دس سال بعد پڑھنے پر مجبور کریگا۔ غالبؔ اور شیکسپیئر کولے لیجئے، آج بھی ان کا ادب اتنا ہی تازہ ہے۔ ‘‘
 بہرکیف قرۃ العین حیدر، غالبؔ سے کہیں زیادہ خوش قسمت تھیں کہ سمجھا یا نہ سمجھا، ان کے ہم عصروں نے انہیں کندھوں پر بٹھایا، ان کی پزیرائی کی، مذاکروں میں ان پر گفتگو کی گئی، ان پر اتنا کچھ لکھا گیا (اور لکھا جارہا ہے) کہ شاید گنتی کے چند اردو ادیبوں کے علاوہ کسی اور پر اتنا کچھ نہیں لکھا گیا۔ انہیں دورِ حاضر کے تمام انعامات و اعزازات (ساہتیہ اکادمی انعام، گیان پیٹھ انعام اور پدم بھوشن سمیت بے شمار) سے نوازا گیا، علاوہ ازیں عصرِ رواں کی عظیم ادیبہ سے بالا ایک عظیم دانشور بھی تسلیم کیا گیا۔ ملک کی دو موقر دانش گاہوں (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملّیہ اسلامیہ، دہلی) نے انہیں مہمان پروفیسر کی حیثیت سے مدعو کیا، اور ان کے دورانِ قیام دونوں درس گاہوں کے بے شمار طلبہ اور تحقیق کاروں نے ان کے علم و عرفان سے فیض حاصل کیا، اپنے ذہن و دل کو منوّر کیا۔ اس کے علاوہ کئی مغربی دانش گاہوں اور علم گاہوں نے بھی انہیں وقتاً فوقتاً دعوتِ تقریر و تدریس دی۔ علی گڑھ کا ذکر آیا ہے تو ایک دلچسپ بات کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ رشید احمد صدیقی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ جب وہ کسی محفل میں کسی معقول شخص کو دیکھتے تو انہیں یہ گمان ہوتا کہ ہو نہ ہو، یہ شخص ضرور علی گڑھ کا پروردہ ہے، جب وہ اس کے قریب جاتے اور تعارف حاصل کرتے تو اگر وہ فردِ فرید علی گڑھ کا تعلیم یافتہ و تربیت یافتہ نکلتا تو ان کی خوشی دوچند ہوجاتی، تاہم سوئے اتفاق اگر وہ شخص علی گڑھ سے فیضیاب ہونے سے محروم رہا ہوتا تو رشید صاحب خیال کرتے کہ کاش اگر یہ شخص علی گڑھ آیا ہوتا، اور رہا ہوتا تو اس کا رنگ کیا ہوتا۔ یہ بات قرۃ العین حیدر پر بھی صادق آتی ہے کہ موصوفہ نے دہرہ دون، دہلی اور لکھنؤ میں تعلیم حاصل کی، لیکن اتفاقاً وہ علی گڑھ نہ جاسکیں اور نہ ہی وہاں تعلیم حاصل کرسکیں، لہٰذا علی گڑھ کا ایک نمک خوار وفادار ہونے کے ناطے راقم الحروف بھی یہ خیال کرتا ہے کہ کاش ہماری عینی آپا نے علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی ہوتی، جب کہ ان کا علی گڑھ پر بھرپور حق تھا، ان کی پیدائش علی گڑھ میں ہوئی تھی اور ان کے والدِ محترم سجاد حیدر یلدرم مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے اوّلین مسجّل تھے، مگر اایسا ادبی مرتبہ پایا کہ اب تویہی کہا جائے گا کہ علی گڑھ خود قرۃ العین حیدر سے محروم رہا۔ 

یہ بھی پڑھئے: جنگ کی تباہ کاریوں کے درمیان یوکرین کا ادب پروان چڑھ رہا ہے

قرۃ العین بہ ظاہر جدید تھیں، مگر اندر سے خالصتاً مشرقی روایات کی علمبردار۔ انہوں نے ن م راشد پر اپنے خاکے میں جو فقرہ راشد کے بارے میں لکھا ہے، وہ خود ان پر بھی بعینہٖ صادق ہے، وہ کہتی ہیں کہ ’’راشد صاحب کا طرزِ رہائش انگریزی ہے اور دماغ مشرقی۔ ‘‘ ویسے بھی اس امر کے اَن گنت ثبوت موجود ہیں کہ قرۃ العین حیدر باطنی طور پر نہ صرف ایک پختہ مسلمان تھیں بلکہ وہ ملّت ِ مسلمہ کو درپیش مسائل اور خصوصاً اس کی پسماندگی کے سلسلے میں خاصی تشویش میں مبتلا رہتی تھیں اور ملّی خدمات کے تحت معاشرتی کام کرنے والے چنیدہ حضرات کو مہمیز بھی کرتی رہتی تھیں۔ سیّد حامد نے اپنے ایک مضمون میں یہ اشارہ بھی کیا ہے کہ آخر عمر میں قرۃ العین حیدر صاحبہ کسی بزرگ سے بیعت ہوگئی تھیں، حالانکہ انہوں نے اس بات کو عینی صاحبہ کے مزاج سے بعید خیال کیا ہے، تاہم ایسے شواہد بھی ہیں کہ قرۃ العین حیدر کے ذاتی کمرے میں کسی بزرگ کی تصویر آویزاں تھی۔ نیز یہ امر تو اظہرمن الشمس ہے کہ قرۃ العین کو اپنے اسلاف پر زبردست فخر تھا اور وہ اپنے عالم، فاضل بزرگوں کا ذکر بڑی عقیدت سے کرتی تھیں، انہوں نے اپنے کئی بزرگوں کے بارے میں لکھا بھی اور ان کے کارناموں کو روشناس کرانے کیلئے کاوشیں بھی کیں، انہوں نے اپنے خاندان کو ہمیشہ ایک روایتی ادارہ قرار دیا۔ اب اسے ستم ظریفی ہی کہا جائیگا کہ انہوں نے کسی شخص کو اپنا ہم سفرِ زیست بنانے کے لائق نہیں گردانا، اور اپنی حیات کا سفر تنہا ہی طے کیا، شاید ان کی کسوٹی پر کوئی کھرا نہیں اُتر سکا ہوگا۔ 
 قرۃ العین حیدر صف ِ اوّل کی، اوّلین ادیبہ تھیں، ان کی شناخت بحیثیت افسانہ نگار اور ناول نگار ہی کی گئی اگرچہ انہوں نے خاکے بھی لکھے، لیکن یہ انکشاف (ان کیلئے جو پہلے سے واقف نہیں ) دلچسپی کا موجب ہوگا کہ ان کی اوّلین تخلیقی کاوش، کوئی افسانہ یا نظم نہیں بلکہ ایک کارٹون تھا، جو بچّوں کے ایک رسالہ میں شائع ہوا تھا۔ ان کی ابتدائی دلچسپی مصوری میں تھی اور انہوں نے اس کی تربیت بھی حاصل کی تھی، گو کہ بعد ازاں وہ اسے اپنا مشغلہ نہ بناسکیں یا بنانا پسند نہیں کیا، تاہم وہ شوقیہ تصاویر بناتی تھیں اور ان کی تصاویر ان کے دولت کدہ کی دیواروں پر ہمیشہ آویزاں رہیں۔ 

قرۃ العین حیدر اپنی تمام تر جدّت پسندی کے باوجود وہ اپنے ماضی میں جیتی تھیں۔

اکیسویں صدی کی آمد سے قبل ہی پیدا ہوجانے کے علاوہ قرۃ العین حیدر کے ساتھ دوسرا ظلم یہ ہوا کہ وہ اردو کی ادیبہ تھیں (اگرچہ یہ اردو کی خوش قسمتی ہے) بالاتفاق اگر وہ انگریزی، فرانسیسی یا روسی زبان کی مصنّفہ ہوتیں تو صورتِ حال دگر ہوتی، ویسے بھی مزاجاً اور اسلوباً وہ مغربی طرز کی ادیبہ ہیں، اس لئے شروع میں ان کی تحریریں کسی کے پلّے نہیں پڑیں، برسوں پہلے انہوں نے شہریار اور ابوالکلام قاسمی کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا: 
 ’’مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں (ابتدائی دنوں میں ) لوگوں نے برابر کہا کہ آپ جو باتیں لکھتی ہیں وہ ہماری سمجھ میں نہیں آتیں، باقی ادیبوں کے افسانے سمجھ میں آجاتے ہیں ، اور یہ کہ آپ انگریزی الفاظ کیوں استعمال کرتی ہیں اور یہ کہ آپ جو ماحول دکھاتی ہیں، وہ بھی عجیب و غریب اور انوکھا ہوتا ہے۔ ‘‘
 شکر ہے کہ قرۃ العین حیدر کو بیسویں صدی کا آخر اور اکیسویں صدی کا دورِ اول نصیب ہوا، لوگوں نے انہیں کچھ کچھ سمجھا اور اس کا اعتراف بھی کیا، اور تو اور ان کا شہرۂ آفاق ناول ’آگ کا دریا‘ بھی بالآخر قارئین کی سمجھ میں آنے لگا۔ سچ یہ ہے کہ قرۃ العین حیدر اردو کی ایسی ادیبہ ہیں جو بین السطور لکھتی رہیں اسی لئے کسی کی سمجھ میں آیا، کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔ 
 قرۃ العین حیدر تمام ادبی حدبندیوں سے ہمیشہ بالاتر رہیں، انہوں نے ترقی پسند تحریک کے عروج کے دور میں ہوش سنبھالا، ترقی پسندوں کے ساتھ لکھا، لیکن نہ کبھی خود کو ترقی پسند کہا اور نہ عوامی ادب کے سراب میں گم ہوئیں، ان کی شہرت جب بامِ عروج پر تھی، تب جدیدیت کا پرچم بلند ہوا، وہ اس سے بھی الگ تھلگ رہیں، اور اس کے بعد، مابعد جدیدیت کے دَور میں بھی۔ انہیں ترقی پسندوں نے بھی سراہا اور جدیدیت پسندوں نے بھی اپنا سردار مانا، لیکن وہ کنول کے پھول کی طرح ہر گروہ بندی اور درجہ بندی سے بلند رہیں۔ دراصل وہ تو خود پیدائشی جدید بھی تھیں اور ترقی پسند بھی۔ ناقدین نے انھیں ’’کلاسیکی‘‘ قرار دیا، مگر انہوں نے اس خطاب کو کبھی قبول نہیں کیا۔ مذکورہ بالا انٹرویو میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا: 
 ’’اگر میری تحریروں کو دیکھ کر کوئی مجھے رومانیت پسند کہتا ہے تو کہے، اس لئے کہ میں سمجھتی ہوں کہ میرا ذہن کلاسیکی نہیں ہے، میں بنیادی طور پر رومانٹک ہوں، دیکھئے رومانیت جو ہے، ظاہر ہے، مجھے بتانے کی ضرورت نہیں، زیادہ تر جو دنیا کا ادب ہے اس کی بنیاد رومانٹک ہی ہے۔ رومانٹک اپروچ۔ تو بہرحال میں بنیادی طور پر رومانٹک ہوں … یہاں رومانسٹزم سے میرا مطلب وہ رومانس نہیں ہے، عشق و محبت کا چکّر نہیں ہے، یہ ایک یکسر مختلف شے ہے، تو یہ ہے کہ آپ احساس، کھوج اور کُرید، حسّیت، وفورِ جذبات، تخیّل اور تحیّر، انفرادیت پسندی اور جو کچھ ہے مطلب یہ ہے کہ جتنی اس طرح کی چیزیں ہیں، انہی سے رومانی جذبہ بنتا ہے۔ وہ جو ادب کا رومانٹک اپروچ ہے، وہ بالکل ضبط و توازن، تنظیم، خیالات کی صراحت، اِن باتوں سے مختلف چیز ہوتی ہے، جس سے پورے ادب کا رخ بدلا، انیسویں صدی سے، یعنی اس میں تخیل اور اندرونی فکری عمل جو بھی ہے اس پر زور دیا جانا چاہئے۔ ‘‘
 یہاں یہ باور رہے کہ قرۃ العین حیدر کے والد محترم سجاد حیدر یلدرم اردو ادب میں رومانی تحریک کے روحِ رواں اور ایک صاحبِ طرز ادیب تھے۔ خود قرۃ العین حیدر ان کی قائل تھیں۔ جابجا انہوں نے اپنے والد کی تعریف و توصیف بھی کی ہے۔ 
 قرۃ العین حیدر اصلی ترقی پسند اور اصلی جدید ہیں، ان کا کینوس بہت وسیع ہے۔ ان کی فکر اور ان کے طرزِ تحریر کو کسی دائرہ میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، بقول یاور عباس، انہوں نے کبھی اپنے قلب کو اپنے ضمیر سے جدا نہیں کیا، انہوں نے اپنے اصل میدان، افسانے اور ناول کے علاوہ دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی، خاکے لکھے، رپورتاژ لکھے (رپورتاژ کو ایک نئی جہت اور معنویت عطا کی)، مضامین لکھے، تبصرے لکھے، اردو میں بھی، اور انگریزی میں بھی، حتیٰ کہ ایک فلم (ایک مسافر ایک حسینہ) بھی لکھی۔ انہوں نے ریڈیو پر نشریات کیں، رسائل و جرائد کی ادارت کی، محکمۂ اطلاعات کو اپنی خدمات تفویض کیں اور یہاں تک کہ دیگر سرکاری ملازمتیں بھی کیں، ان کا میدانِ عمل ہندستان سے پاکستان اور برطانیہ تک وسیع رہا۔ ایسی ہی گوناگوں شخصیت تھی اُن کی۔ 
 قرۃ العین حیدر کی مدّتِ کار کم و بیش ستّر برس پر محیط ہے، یہ ایک طویل عرصہ ہے جو شاید کم ہی قلمکاروں کو نصیب ہوا ہوگا، کیوں کہ ایسے کتنے لوگ ہوں گے، جنہوں نے محض گیارہ برس کی عمر میں لکھنا شروع کردیا ہو۔ (مولانا آزاد کو مستثنیٰ قرار دیں ) اور فقط بیس بائیس برس کی عمر میں جس کی پہلی تصنیف منظرِعام پر آئی ہو۔ لیکن ایک اہم بات اور کہ اس طویل عرصے میں انہوں نے کل جمع ستّر پچھتّر افسانے لکھے، جن میں سے صرف ۴۷؍ اُن کے چار مجموعوں میں شامل ہوئے، باقی کی دریافت بعد میں ہوئی جو ان کی کلیات کا حصہ بنے۔ کل جمع یعنی حاصل قلم، سات عدد ناول، چھ ناولٹ، ایک طویل سوانحی ناول، گیارہ رپورتاژ، چند خاکے، کچھ تراجم اور کچھ بچّوں کی کتابیں، اس کے علاوہ کچھ مرتّبہ کتابیں، انگریزی میں نظمیں، درجنوں مضامین و تبصرے۔ ظاہر ہے کہ کل وقتی قلم کاری کے لحاظ سے نگارشات کی یہ تعدادبہت زیادہ نہیں، لیکن جو کچھ ہے بہت خوب ہے اور اعلا پائے کا ہے، یہی ان کا کمال ہے۔ سیّد حامد نے درست ہی کہا ہے: ’’اُن کی شخصیت میں بہت سے ایسے اوصاف تھے جو اس پائے کے مشاہیر اور اکابرین میں عام طور پر نہیں ملتے۔ ‘‘
 اپنی تمام تر جدّت پسندی کے باوجود وہ اپنے ماضی میں جیتی تھیں جس کا اعتراف انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا ہے:
 ’’انسان بنیادی طور پر ناسٹلجک ہوتا ہے۔ آپ کو بھی اپنے کالج کے زمانے کے دوستوں سے مل کر خوشی ہوتی ہوگی۔ ہمیں بھی پرانے ساتھیوں سے مل کر اچھا لگتا ہے۔ اب آج جو ماحول ہے ملک میں، چاروں طرف خون خرابہ، افراتفری اسے دیکھ کر تو ہمیں اپنا زمانہ یاد آتا ہے۔ ‘‘
 علامہ اقبالؔ نے جن دیدہ وروں کا ذکر کیا ہے، قرۃ العین حیدر یقیناً اُن میں سے ایک ہیں۔ نرگس پتا نہیں کب تک اپنی بے نوری پہ روئے گی تب جاکر دوسری عینی آپا پیدا ہوں گی یا شاید کبھی نہیں ہونگی۔ ان کی عظمت، نابغگی و ہمہ گیری بے مثل ہے۔ 
 اتماماً، مغربی طرز کی اس خالصتاً مشرقی ادیبہ کو سلام کہ اس مختصر مضمون میں اس سے سِوا ممکن نہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK