شہر میں بسنے والوں کو گاؤں کی یاد دلاتا ہوا ایک خوبصورت افسانہ۔
EPAPER
Updated: July 09, 2024, 2:10 PM IST | Prof. Zahra Rehman | Mumbai
شہر میں بسنے والوں کو گاؤں کی یاد دلاتا ہوا ایک خوبصورت افسانہ۔
کوکن کا علاقہ بڑا خوبصورت ہے۔ دھان کے کھیتوں، آم کے باغوں، ناریل اور کاجو کے درختوں نے اس خطے کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیئے ہیں۔ جامن اور املی کے پیڑ، کروندوں سے لدی جھاڑیوں نے چھوٹے چھوٹے گاؤں کو ’’کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا است‘‘ والا حسن عطا کیا ہے۔ مہمان نوازی، تعلقات میں خلوص اور محبت، اپنائیت کے جذبے نے آج بھی تہذیبی قدروں کی جڑوں کو کھوکھلا ہونے سے بچا رکھا ہے۔ تیج تہوار شادی بیاہ کے موقعوں پر تو میلا سا لگ جاتا ہے۔ خوشیاں مل بانٹ کر دوبالا ہوجاتی ہیں اور دکھ اپنائیت کے مرہم سے مندمل کئے جاتے ہیں۔ گاؤں کی مٹی کی خوشبو کا مداح ہمارا مشترکہ خاندان بھی تھا۔ گاؤں میں چھوٹی سی پہاڑی پر درختوں سے گھری ہماری حویلی کسی جادو نگری سے کم نہ تھی۔ سامنے گنگناتی ندی کے نغمے ماحول کو سحر زدہ کرتے۔ بھرا پُرا خاندان تھا۔ چھٹیوں میں تو اس کی رونق الاماں۔ نت نئے پروگرام بنائے جاتے، ذائقہ دار کھانے پکائے جاتے، پکنک کے مزے لوٹے جاتے، دوست احباب کا تانتا بندھا رہتا۔ عزیزوں کے بلاوے آتے، خوب دعوتیں اڑائی جاتیں۔ لوگوں میں محبت کی کمی نہ تھی۔ سارا علاقہ ایک خاندان معلوم ہوتا۔ ہر صبح صبح بنارس اور ہر شام شام اودھ۔ صبح کی اذان کے وقت درختوں پر رنگ برنگے پرندے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا میں فضا کو نور الٰہی سے معطر کر دیئے۔ ہرے بھرے درختوں کے سایے دھوپ کی تمازت کو دور باش کا اشارہ کرتے۔ شفق کے رنگ حویلی کے محسن کو دوبالا کرتے۔ ترقی کے نام پر ہمیں زندگی کی کتنی خوشیوں سے محروم کر دیا ہے کہاں وہ دن رات، وہ موسم وہ بہاریں۔ ہم شہری جو ہوگئے۔ ہرے بھرے درخت، کھیت کھلیان سب روٹھ گئے۔ حویلیوں کی جگہ فلک بوس عمارتوں نے لے لی ہے۔ کھلی ہواؤں، مسحور کر دینے والی فضاؤں کو چھوڑ ہم ایئر کنڈیشنوں کے محتاج ہوگئے ہیں۔ لکڑی کے چولہے ندارد اور اُن پر پکے دادی کے ہاتھوں کے مزیدار پکوان عنقا۔ نلوں نے کنووں کے میٹھے پانی کی جگہ لے لی۔ گاگر اُٹھائے گاؤں کی کھلنڈری حسینائیں اب صرف فلموں یا شاعری میں قید ہوگئی ہیں۔ شکایت کریں تو کس سے؟ اپنے آپ سے؟ ہاں ہم ہی تو ہیں جو روزی روزگار کا بہانہ بنا کر شہروں کا رُخ کر بیٹھے۔ گاؤں کی اُردو اسکولوں کو بیکار کہہ کر شہر کی کانوینٹ اسکولوں میں بچوں کی تعلیم پر فخر محسوس کیا۔ مشترکہ خاندانوں کے تصور پر یہ کہہ کر کاری ضرب لگائی کہ نئی پیڑھی کے خیالات بزرگوں سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتے۔ کھیتی باڑی میں کیا رکھا ہے سوچ کر نوجوان نسل شہروں کی طرف دوڑ پڑی۔ لڑکیاں شہروں میں مقیم رفیق حیات تلاش کر انفرادی خاندانوں کے مزے لوٹنے لگیں۔ اُردو زبان کی شیرینی پس پشت ڈال انگریزی کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ خوبصورت تہذیبی قدروں کو دقیانوسی قرار دیا گیا ترقی کے نام پر۔
یہ بھی پڑھئے:افسانہ : مختصر یہ کہ....
لو مَیں بھی کیا رونا لے بیٹھی۔ بات چلی تھی میرے گاؤں کی جہاں مشترکہ خاندان کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ خاندان کے بزرگوں، نوجوانوں اور بچوں میں بڑا یارانہ تھا۔ علی چاچا کو تو ہم سب گھیرے رہتے۔ وہ ہندوستانی بحریہ کے ریٹائرڈ آفیسر تھے۔ بچوں کے ساتھ بچے اور جوان پیڑھی کے دوست۔ خوب دھوم مچاتے ہمارے ساتھ۔ رات ہوتی تو ہم سب اُن کے کمرے پر دھاوا بول دیتے وہ بھی مزے لے لے کر قصے سناتے ہنسی کے فوارے اُن کے کمرے سے ابل پڑتے۔ ان کی جاسوسی کہانیاں کے حمیدی اور فریدی بڑے اہم کردار ہوتے۔ کہانیاں سنتے سنتے ہم سب بھی حمیدی فریدی کردار بن کر نیند کی آغوش میں گم ہوجاتے۔
ہمیشہ کی طرح وہ چھٹیاں بھی بڑے مزے کی تھیں مگر چند دنوں سے گاؤں میں چوروں کا ذکر چوپال کی میٹنگوں کا موضوع بنا ہوا تھا۔ چوروں نے بھاگتے ہوئے لوگوں پر وار کرکے انہیں زخمی کرنے کی باتیں بھی گشت کر رہی تھیں۔ ہمارے گھر کے بزرگ اُسے افواہیں کہہ کر درگزر کر رہے تھے اسی لئے ہمیشہ کی طرح ہماری حویلی کے دروازے رات بھر کھلے رہتے۔ کواڑ بھیڑ دیئے جاتے مگر چٹخنی لگانے کا دستور ہی نہیں تھا۔ گھر میں خوب چہل پہل تھی۔ ہر دن روز عید اور ہر رات شب برات تھی۔ ہمارے خالو اور خالہ جان بمبئی کی نوکری سے سبکدوش گاؤں میں آبسے تھے۔ دونوں بڑے مہمان نواز اور پیاری شخصیتوں کے مالک تھے۔ اُن کے دو بیٹے جو قطر میں برسر روزگار تھے اُن دنوں چھٹی پر آئے تھے اور ہماری خوش باش گینگ کے ممبر تھے۔ اُس روز اُن کے گھر بڑی دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ علی چاچا کی طبیعت ناساز تھی اس لئے انہیں گھر پر چھوڑ کر ہمارا قافلہ خالہ جان کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ چاندنی رات، بھیگا بھیگا موسم، رات کا جادو جگاتا سناٹا اور اُس سناٹے کو چیرتی ہوئی ہماری آوازیں، ہنسی، قہقہے بڑا لطف دے رہا تھا ڈٹ کر گاؤں کے ذائقوں کا مزہ ہر شخص لے رہا تھا۔ سب لوگ رات بھر ان کے گھر قیام کرنے کے موڈ میں تھے مگر مَیں اور میری بہن حویلی لوٹ جانا چاہتے تھے۔ بڑی مشکل سے اجازت ملنے پر ہم دونوں گھر کی سمت نکل پڑے۔ گپ شپ کرتے ہوئے بلا خوف و خطر ہم گھر کی طرف چل پڑے۔ موسم کی خنکی اور چاندنی رات نے راستے کی مسافت کو خوشگوار بنا دیا تھا۔ ٹیلے کے قریب پہنچے ہی تھے کہ اچانک رونے اور کراہنے کی آواز نے دم بخود کر دیا۔ ایسا محسوس ہوا کوئی زخمی درد سے کراہ رہا ہے۔ دونوں کی گھگھی بندھ گئی۔ ذہن میں فوراً چوروں کا خیال آیا۔ پاؤں مانو منوں وزنی ہوگئے۔ ایک دوسرے کو خوف زدہ نظروں سے دیکھ ہم دونوں سیڑھیاں پھلانگ اوپر کی طرف دوڑ پڑے۔ حویلی کا دروازہ دھکیل بے دم ہو کر ہم دونوں زمین پر گر پڑے۔ علی چاچا جو جاسوسی ناول میں گم تھے دوڑ پڑے۔ اُن کی کیا ہوا کیا ہوا کی گردان کے جواب میں ہمارا سانسوں کا زیر و بم حائل تھا۔ سانسیں درست ہونے پر ان کو سارا ماجرا سنایا۔ وہ تو خود بھی کسی جاسوسی ہیرو سے کم نہ تھے فوراً ٹارچ اُٹھا کر معاملہ معلوم کرنے اتر پڑے۔ تھوڑی دیر بعد خوب قہقہے لگاتے ہوئے واپس لوٹے ہم دونوں کو حیرت زدہ کر وہ ہمیں پکڑ سیڑھیوں کو پھلانگتے نیچے کی طرف چل پڑے۔ اپنی ٹارچ کا رُخ پاس کے گھنے درخت کی جانب کیا۔ اُن کی ٹارچ کی روشنی کے ساتھ رونے اور کراہنے کی آواز شروع ہوگئی انہوں نے اشارہ کیا اور کہا غور سے دیکھو تمہارا زخمی کراہ رہا ہے۔ ڈرتے ڈرتے اوپر نظر کی اور چونک گئے۔ اس کی تصویر تو کتابوں میں دیکھی تھی اور پڑھا بھی تھا کہ وہ ایسا پرندہ ہے جو ویرانوں کو نہ صرف پسند کرتا ہے بلکہ اُس کی آواز تباہی کی نشانی ہے۔ چاچا مسکرائے اور بولے اس پرندہ کو یہاں کے لوگ ’’ہمنا‘‘ کہتے ہیں یہ اُلّو ہے جو آپ لوگوں کو اُلّو بنا گیا۔ ہم سوچنے لگے کہ ہم شہر والے زندگی کی کتنی سچائیوں سے محروم ہیں۔ یوں بھی شہروں میں ویرانے رہے ہی کہاں۔ وہاں تو اتنے فلک بوس مکانات ہیں کہ سورج کی روشنی بھی بند کمروں میں پہنچنے کو ترستی ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ، کھیتوں کی ہریالی، بھیگے موسم کی خوشبو ہم سے چھن گئیں۔
مگر ترقی کی دوڑ میں یہ سوچنے کی فرصت کہاں؟ ہم شہروں کے انسانی روبوٹ بن چکے ہیں۔ صرف ترقی یافتہ روبوٹ؟