• Fri, 27 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ : مختصر یہ کہ....

Updated: July 03, 2024, 4:55 PM IST | Khansa Zaheer Bollanjakar | Bhiwandi

حال ہی میں دادا جی کے دل کا آپریشن ہوا تھا۔ اور وہ کافی کمزور ہوچکے تھے۔ زیادہ چلنے پھرنے سے ڈاکٹر نے منع کیا ہوا ہے۔ اس لئے وہ زیادہ تر اپنے کمرے میں ہی پائے جاتے تھے۔ دوست و احباب گھر ملنے آیا کرتے تھے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

حال ہی میں دادا جی کے دل کا آپریشن ہوا تھا۔ اور وہ کافی کمزور ہوچکے تھے۔ زیادہ چلنے پھرنے سے ڈاکٹر نے منع کیا ہوا ہے۔ اس لئے وہ زیادہ تر اپنے کمرے میں ہی پائے جاتے تھے۔ دوست و احباب گھر ملنے آیا کرتے تھے۔ مَیں نے سوچا امتحان گاہ جانے سے پہلے دادا جی سے ملتا ہوا جاؤں اور پتہ کروں کہ اب ان کی طبیعت کیسی ہے؟ ہمارے گھر کا معمول تھا کہ ہر شخص جو باہر کام پر جا رہا ہو، وہ دادا جی سے اجازت لے کر اور ان کی طبیعت کا حال معلوم کرتا ہوا اپنے کام پر جاتا۔
 مَیں نے اپنی ضرورت کا سامان بیگ میں رکھا اور دادا جی کے کمرے کی طرف چل دیا۔ ان کے کمرے کا دروازہ ادھ کھلا تھا اور وہ شاید کسی کام میں مصروف تھے۔ مَیں نے دروازہ آہستہ سے کھٹکھٹایا اور اندر جھانک کر دیکھا، دادا جی بستر پر بیٹھے نماز پڑھ رہے تھے۔ ان کے نماز سے فارغ ہونے تک مَیں ان کی آرام کرسی پر بیٹھا انہیں مسلسل دیکھ رہا تھا کہ کس طرح جب وہ نماز میں ہاتھ اٹھاتے تو ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور وہ کافی کمزور بھی لگ رہے تھے۔
 خیر وہ نماز سے فارغ ہوئے اور میری طرف متوجہ ہوئے۔ مَیں نے کہا کہ، ’’دادا جی آج میرا امتحان ہے، دعا کیجئے گا‘‘ اور ان کی طبیعت بھی دریافت کی۔ انہوں نے ہمیشہ کی طرح مسکراتے چہرے کے ساتھ کہا کہ، ’’مَیں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘ اور انہوں نے مجھے دعائیں بھی دیں۔

یہ بھی پڑھئے: افسانہ : اچانک

 مَیں نے بالآخر ان سے کہا کہ، ’’دادا جی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور کافی کمزور بھی لگ رہے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ آپ آرام کر لیتے اور بعد میں نماز پڑھتے۔‘‘
 ’’بعد میں کب؟‘‘ دادا جی نے کہا۔
 ’’جب آپ مکمل صحت یاب ہوجاتے تب پڑھ لیتے نماز، کہیں طبیعت مزید خراب نہ ہوجائے۔ ڈاکٹر نے آرام کرنے کیلئے کہا ہے آپ سے۔‘‘
 دادا جی یہ سن کر ہنسنے لگے۔ مجھ سے کہا، ’’اچھا بتاؤ امتحان کی مکمل تیاری کر لی ہے تم نے؟‘‘ مَیں نے کہا، ’’ہاں تیاری کر تو لی ہے لیکن ابھی بھی کچھ چیزیں مجھے اچھی طرح یاد نہیں ہے۔ اس لئے دعا کیجئے گا کہ وہ امتحان میں پوچھا نہ جائیں۔‘‘
 ’’تو امتحان نہ دینے جاؤ۔ جب مکمل تیاری ہو جائے تمہاری اور ٹوٹی پھوٹی چیزیں یاد ہوجائیں ساری تب جاؤ امتحان گاہ۔‘‘ دادا جی نے کہا۔
 ’’دادا جی اس طرح تو سال برباد ہوجائیگا۔ اور ابھی مَیں نے اتنی تیاری تو کی ہی ہے کہ پرچہ لکھ سکوں اور کامیاب ہو جاؤں۔‘‘ مَیں نے کہا۔
 ’’جی بالکل اسی طرح نماز کیلئے بھی بہانہ نہیں چلتا خرابی طبیعت کا۔ بلکہ ہر کام جو نیکی کا ہو۔ مختصر یہ کہ یہ زندگی بھی بالکل امتحان ہال میں ملے ہوئے ۳؍ گھنٹوں کی طرح ہے۔ جب تک پرچہ حل کرنے میں لگا سکتے ہیں لیکن جہاں وقت ختم ہوا، آپ کا پرچہ ’’لال سیاہی‘‘ والے کے پاس چلا جاتا ہے۔‘‘
 ’’لال سیاہی والا؟‘‘ مَیں نے پوچھا۔
 ’’جی ہاں! آپ کے استاد کے پاس۔ پھر اس کے بعد چاہے آپ کو کتنے ہی جوابات حل کرنے آتے ہوں، سب بے معنی ہیں۔ اس لئے کوشش یہ کرنی چاہئے کہ جب تک زندہ ہیں نیکیاں کرتے رہیں، ثواب بٹورتے رہیں، فرائض اور سنن کو پورا کرتے رہیں۔ اچھے نتائج کیلئے زندگی کا پرچہ ہم نے یہاں اپنی پوری محنت اور کوشش لگا کر حل کرکے جانا ہے تاکہ جن لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی سورت ’الغاشیہ‘ کی آٹھویں اور نویں آیتوں میں فرمایا ہے کہ ’’بہت سے چہرے اُس دن (قیامت کے دن) تروتازہ (اور آسودہ حال) ہوں گے (۸) اپنی کوشش پر خوش ہوں گے (۹)۔‘‘
 ان میں ہمارا بھی نام ہو۔ اور دنیا میں کی گئی ہماری کوشش، چاہے وہ تھوڑی ہی ہوں، وہ کامیاب ہوجائیں۔‘‘
 دادا جی کی اس مخصوص مسکراہٹ کا تبادلہ اب میرے چہرے پر ہوچکا تھا اور ان کی سیکھ اور سوچ کا بھی!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK