ایک فرض شناس خاتون ڈاکٹر کی کہانی۔
EPAPER
Updated: April 28, 2025, 1:10 PM IST | Professor Zahra Abdul Rahman Morrak | Mumbai
ایک فرض شناس خاتون ڈاکٹر کی کہانی۔
ڈاکٹر یاسمین نے جلد جلد مریضہ کی جانچ پوری کی۔ اُسے دواؤں کا پرچہ دے کر صحت کا خیال رکھنے کی ہدایت کی۔ کھانے پینے میں احتیاط برتنے اور مقوی غذا کے استعمال کے مشورے دیئے اور فون کے ذریعہ ڈرائیور کو کار تیار رکھنے کی ہدایت دے تیزی سے اسپتال کے کمرے سے نکل کر باہر کی طرف چل پڑی۔ ایک کیس کے سلسلے میں یاسمین کو ڈاکٹرز ٹریبونل کے سامنے پیش ہونا تھا۔ ایک مریض نے پولیس میں ان کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا اور تفتیش کے سلسلے میں اُن کی پیشی تھی۔
دہرہ دون کے مشہور فوزیہ اسپتال کی وہ مقبول ترین گائناکالوجسٹ تھی۔ اسپتال میں ڈاکٹر یاسمین اور بچوں کے ڈاکٹر عمر کی جوڑی بڑی مقبول تھی۔ ماؤں کی گود کو صحتمند بچوں سے مالا مال کرکے دونوں نے شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا تھا۔ ڈاکٹر عمر اپنا کام مکمل کرکے جا چکے تھے۔ حاملہ مریضہ کی تشخیص سے فارغ ہو کر وہ ٹریبونل کے علاقے کی طرف چل پڑی۔ موسم بہت خوشگوار تھا۔ ہمیشہ کی طرح وہ بھی پُرسکون تھی۔ منزل آنے پر کار سے اُتر ڈرائیور کو کچھ انتظار کی ہدایت دے وہ اُس کمرے کی طرف چل پڑی جہاں ٹریبونل کے تین سینئر ڈاکٹرز سمیت گپتا، نہاں اور ملک اُس کا انتظار کر رہے تھے۔ اگرچہ ڈاکٹر یاسمین کا نام اُن کیلئے نیا تھا۔ تینوں ڈاکٹرز اُس کی قابلیت کے معترف تھے مگر سرکاری طور پر کیس کی کارروائی ضروری تھی۔
سلام علیک کے بعد ڈاکٹر ملک نے پہل کرتے ہوئے ڈاکٹر یاسمین سے استفسار کیا، ’’مدعی نے الزام لگایا ہے کہ آپ نے اس کی اجازت کے بغیر اس کی حاملہ بیوی کا آپریشن کیا۔ اس الزام کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟ آپ ایک مقبول ڈاکٹر ہیں اور اس غلطی کی مرتکب کیوں اور کیسے ہوئیں؟‘‘
ڈاکٹر یاسمین نے بڑے سکون سے جواب دیا، ’’جی ہاں! مَیں نے مدعی کی اجازت کے بغیر اپنی مریضہ کا آپریشن کیا۔ مَیں نے جو کچھ کیا اُسے مَیں بالکل درست سمجھتی ہوں۔ مسیحائی صرف ہمارا پیشہ ہی نہیں بلکہ فرض اولین ہے مجبور اور بے بس انسانوں کو دُکھ اور تکلیف سے بچا کر مسیحائی کرنے کا۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ مسیحائی میں ہمیشہ ثابت قدم رہیں۔ اگرچہ جان دینے والا اور جان لینے والا تو اوپر والا ہے مگر ہم دل و جان سے کوشش کرتے ہیں کہ بیمار کو صحت عطا کریں۔ ہماری ایک بھول کسی کی زندگی کی آخری سانس بھی ہوسکتی ہے۔ جب مریض ہمارے ساتھ جُڑ جاتا ہے تو اللہ کے بعد ڈاکٹر پر اس کا زبردست بھروسہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کے سامنے اس وقت صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ اس مریض کی زندگی بچا لے۔ بچے کو اس دنیا میں لانے والی عورت موت و حیات کی کشمکش سے دو چار ہوتی ہے۔ اکثر مریضہ اور ڈاکٹر دونوں کے پاس وقت کم ہوتا ہے۔ وقت پر لیا ہوا فیصلہ مریضہ کے لئے زندگی اور موت کے درمیان کا فاصلہ ہوتا ہے۔ مدعی کی بیوی اور میری مریضہ کے پاس زندگی اور موت کا سوال تھا۔ میرے سامنے ایک بے بس عورت تھی بچے کا ایک ہاتھ باہر آچکا تھا وہ بیہوش تھی۔ مَیں نے اُس کے شوہر کو سمجھانے کی کافی کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ اگر آپریشن نہ کیا جاتا تو زچہ اور بچہ دونوں زندگی کی جنگ ہار جاتے۔ مَیں جانتی تھی کہ دونوں کو صرف آپریشن کے ذریعہ ہی بچایا جاسکتا ہے مَیں نے اس کے شوہر کی ’ناں‘ کو بالائے طاق رکھ وہی کیا جو میری اُس ضمیر کی آواز تھی جو مَیں نے ڈگری حاصل کرتے ہوئے سنی تھی۔ آپریشن کے ذریعہ مَیں نے اُس بے بس مظلوم ماں اور اُس کے بچّہ کو موت کے منہ سے نکالا۔ اگر کسی کو موت کے منہ سے بچانا غلطی ہے تو مَیں اس غلطی پر بالکل شرمسار نہیں ہوں بلکہ مجھے فخر ہے کہ مَیں نے اُس عہد مسیحاہی کی عزت رکھ لی جو ہمارے پیشے سے منسلک ہوتے ہوئے مَیں نے لیا تھا۔‘‘
ڈاکٹر ملک مسکرائے اور بولے، ’’آپ تو قابل ِ مبارکباد ہیں۔ آپ تو اس شعر کی تفسیر ہیں ’’بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق/ عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی!‘‘ حالات کے نتائج کو بالائے طاق رکھ کر آپ کا یہ قدم قابل ستائش ہے۔ عام طور پر مریض کے عزیز و اقرباء کو قائل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔ اپنے فرض سے کوتاہی بڑا جرم ہے۔ ڈاکٹر نہاں اور ڈاکٹر سمیت آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟‘‘
ڈاکٹر نہاں نے مسکرا کر حامی بھری مگر کہنے لگی، ’’ڈاکٹر یاسمین آپ پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ چیک اَپ کے وقت آپ مریض کے ساتھ کسی کو اندر آنے کی اجازت نہیں دیتیں۔ مَیں اس کی وجہ آپ کی زبانی سننا چاہوں گی۔‘‘
یاسمین مسکرائی اور کہنے لگی، ’’امراضِ نسواں کے ماہر کا سابقہ مختلف مزاج کے لوگوں سے پڑتا ہے۔ میری مریضہ کے ساتھ عام طور پر اُن کے شوہر ہی ہوتے ہیں۔ عورت یقیناً قدرت کی عظیم تخلیق ہے۔ اُس کے اس دنیا میں آنے کے بعد سے اس کی زندگی کے آخری لمحوں تک وہ قربانیوں کی مکمل تصویر ہے۔ اُس کی گود تربیت کی پہلی درسگاہ ہے۔ اُس کے قدموں تلے جنّت ہے مگر کچھ لوگ اس کی عظمت کا نہ اعتراف کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی خدمت کا۔ میری یہ مریضہ ہمیشہ اپنے شوہر سے ڈری ڈری سہمی سی رہتی تھی۔ اُس کے شوہر کی تذلیل آمیز گفتگو مجھ پر گراں گزرتی تھی۔ مَیں اکیلے میں اُس کی صحت کے بارے میں مشورے دے کر اُس کو عمل کرنے کی ترغیب دیتی تھی۔ ویسے یہ رویہ اُن حضرات کے ساتھ مخصوص نہ تھا۔ مَیں عام طور پر چیک اَپ کے وقت یکسوئی پسند کرتی ہوں۔ کبھی کبھار تو کیا اکثر عورتوں کے شوہر سوالات پہ سوالات کرکے جوابات سے مطمئن نہ ہو کر ہماری صبر کی برداشت سے باہر ہوجاتے ہیں۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ ڈاکٹر اور مریضہ کے درمیان ایک گہرا تعلق بہت سارے مسائل کا حل ہوتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر سمیت اب تک خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔ مسکرا کر بولے، ’’مبارک ہو ڈاکٹر یاسمین! آپ جیسے ڈاکٹر ہی اس پیشے کا وقار ہیں۔‘‘ پھر بڑی سنجیدگی سے سب کو مخاطب کرکے بول پڑے، ’’میرے ساتھیو! ہم سب کی پریشانیاں یکساں ہیں۔ کل تک ہم قابل ِ احترام تھے مگر آج ایک عجیب و غریب سوچ نے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے کہ ڈاکٹری صرف پیسہ کمانے کا ذریعہ ہے۔ ڈاکٹروں پر آئے دن نت نئے الزامات عائد کرکے شرمندہ کیا جاتا ہے۔ اب تو نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ چکی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایسے معاملات بھی سامنے آئے ہیں کہ بعض لوگوں نے نقلی ڈگریوں کا جال بچھا کر پیسہ بٹورنے کی مشینیں لگا رکھی ہیں حتیٰ کہ بڑے بڑے اسپتال بھی کھول رکھے ہیں۔ ایسے حضرات ہمارے پیشے پر بدنما داغ ہیں۔ اب یہ حکومت کا کام ہے کہ ایسے ڈاکٹروں کی نقلی ڈگریوں کا پتہ لگا کر اس پیشے کی عظمت کو بدنامی سے بچائے اور مظلوم بے بس مریضوں کو اُن کے چنگل سے محفوظ رکھے۔ اگر ایک طرف دنیا نت نئی بیماریوں سے بدحال ہےتو دوسری طرف نت نئی مشینوں سے۔ ان مشینوں کی ایجاد نے بیماریوں کی تشخیص میں آسانیاں ضرور فراہم کی ہیں مگر مریضوں کی جیب پر بوجھ بھی بڑھا دیا ہے۔ اس کا الزام بھی ڈاکٹروں کے سر آجاتا ہے دراصل مختلف فلاحی اداروں اور حکومت کی اس سلسلے میں پیش رفت ضروری ہے۔ تاکہ مریضوں کو راحت ملے اور ڈاکٹروں پر اُن کا بھروسہ قائم رہے۔ ڈاکٹر اور مریض کے درمیان ایک خوشگوار رابطہ بہت سے مسائل کا حل ہوتا ہے۔ جہاں تک بیماریوں کا تعلق ہے بعض مرتبہ مصلحتاً بھی مریض کو بیماری سے ناواقف رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ مریض کی منفی سوچ صحت یابی میں رخنہ ڈال دیتی ہے اور عزیز و اقرباء کی بے بسی میں اضافہ کر دیتی ہے۔
ڈاکٹر نہاں نے کہا، ’’آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں۔ آپریشن تھیڑ یا چیک اَپ کے وقت کسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ابھی چند دن پہلے میرے ایک ڈاکٹر دوست کے بچّے کو اسکول میں کھیلتے ہوئے حادثہ پیش آیا۔ نوبت آپریشن پر پہنچی۔ میرے وہ دوست بچوں کے مشہور اور بہت ہی قابل ڈاکٹر ہیں آپریشن کے وقت وہ خود بھی آپریشن تھیٹر میں موجود تھے۔ بذات خود ڈاکٹر ہونے کے باوجود وہ کئی دن ذہنی طور پر پریشان رہے۔ اگر ایک ڈاکٹر یہ نظارہ برداشت نہیں کرسکتا تو ایک عام آدمی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ کاش مریض کے عزیز و اقارب اس نکتہ کو سمجھ کر ڈاکٹروں کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے دے باز آئیں۔‘‘
ڈاکٹر ملک کہنے لگے، ’’میرے ساتھیو! ہم سب کو یاد رکھنا ہے کہ ڈاکٹری خدمت خلق کا دوسرا نام ہے۔ اس پیشے کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ بدلتے ہوئے حالات نے اس پیشے پر کاری ضرب لگائی ہے۔ لاکھوں کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ میڈیکل ایڈمیشن امیروں کی جاگیر بن گئے ہیں۔ میڈیکل ہاسٹل ریگنگ کے نام پر خودکشی کے مراکز بن رہے ہیں مگر ہم سب کو اس پیشے کے وقار کو قائم رکھنا ہے۔ یہ ہم سب کا عہد ہے۔‘‘
ڈاکٹر ملک کی گفتگو نے ماحول کو غمزدہ کر دیا کہ اچانک ٹریبونل کا کلرک چائے کی ٹرے اور اجازت لے کر کمرے میں داخل ہوا۔ چائے کی چسکیوں نے چاروں ڈاکٹروں کو تازہ دَم کر دیا۔ تینوں ڈاکٹروں نے ڈاکٹر یاسمین کو مبارکباد دی اور مستقبل کے لئے دعائیں بھی۔ ڈاکٹر یاسمین شکریہ کے بعد ایک نئی صبح کی اُمید کے ساتھ اپنی منزل کی طرف چل پڑی۔