• Thu, 30 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ : عجیب سزا ہے غریب ہونا بھی

Updated: January 29, 2025, 3:45 PM IST | Zakira Shabnam | Mumbai

غریبی انسان کو بے حد مجبور کر دیتی ہے، اسی پہلو سے یہ افسانہ ایک دردناک منظر پیش کرتا ہے۔ (پہلی قسط)

Picture: INN
تصویر: آئی این این

رات کے ۹؍ بج رہے تھے، ٹرین جیسے ہی اسٹیشن پر رکی سبھی قلی ٹرین کی جانب دوڑ پڑے، ان میں جمال بھی تھا، بیچارہ جمال صبح سے دو چار روپے کمانے کی کوشش میں اس طرح ہر ایک ٹرین کے رکنے پر اتر نے والے مسافروں کی جانب دوڑ پڑتا کہ کو ئی اسے اپنا بوجھا دے دے تو کچھ پیسے مل جائیں۔ اس سے اس کی اور اس کی بیٹی کی بھوک کچھ تو مٹ جائے گی لیکن کوئی اسے اپنا سامان اٹھانے کیلئے دینے کو تیار ہی نہ ہوتا ہر بار اسے ناکامی اور مایوسی کا ہی سامنا کرنا پڑتا۔
 جمال بھی کبھی جمال خان کے نام سے جانا جاتا تھا۔ وہ بھی کبھی اپنے وطن کی ایک اسٹیل فیکٹری میں نوکری کیا کرتا تھا۔ اس کی بھی ایک عدد بیوی اور دو بچے تھے۔ ایک خوشحال کھاتا پیتا گھر تھا۔ مگر اچانک اس کے شہر میں زبردست سیلاب آیا جو اپنے ساتھ بہت کچھ بہالے گیا جس کے بہاؤ میں اس کی بیوی اور جوان بیٹا بھی بہہ گئے۔ جمال اور اس کی ۱۴؍ سالہ بیٹی کسی طرح بچ نکلے، اپنے وطن اپنے شہر کو چھوڑ کر وہ مارے مارے پھر تے رہے۔ اس طرح بہت دور نکل آئے۔
 اس شہر کے بالکل آخری سرے پر پختہ سڑک کے کنارے ایک بہت ہی قدیم قبرستان کے ایک کونے میں جمال نے جگہ جگہ سے گھا س پھو س اور لکڑیاں اکٹھا کرکے ایک چھوٹی سی جھوپڑی بنائی تھی۔ اب کچھ دنوں سے اس جھوپڑی میں باپ بیٹی رہ رہے تھے مگر سب سے بڑا سوال اب جمال کے آگے دو وقت کی روٹی کا تھا۔ وقت سے پہلے وہ بہت بوڑھا اور کمزور دکھائی دینے لگا اور بالکل ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا تھا۔ شہر، شہر گاؤں، گاؤں بھٹکتے ہوئے وقت کی گردش سے بیچارے جمال کی زندگی بدحال ہوگئی تھی۔ اسے اپنے سے زیادہ اپنی بیٹی کی فکر اندر ہی اندر کھائی جا رہی تھی، اس کے یہاں تین دنوں سے فاقہ تھا۔ وہ اپنی بیٹی کی بھوک برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔ جب بھی کوئی ٹرین سے مسافر اپنا سا مان لئے اترتا وہ دوڑ تا ہوا اس کے قریب پہنچ جاتا اور ان مسافر وں سے التجا کرتا کہ، ’’مجھے اپنا سامان دے دو جتنی دور کہو اٹھا دوں گا، بدلے میں جتنا آپ مناسب سمجھو مجھے دے دینا....‘‘ مگر افسوس کہ ہر کوئی اسے یہ کہہ کر آ گے بڑھ جاتا، ’’بابا تم تو بہت بوڑھے اور کمزور ہو چلے ہو، یہ سامان تو بہت بھاری ہے، تم نہیں اٹھا پاؤ گے۔‘‘ اور وہ لو گ کسی جوان قلی کو آواز دیتے آگے بڑھ جاتے، غریب اور مجبور جمال منت سماجت ہی کرتا رہ جاتا۔ اسی طرح کئی دنوں سے یہی سلسلہ چل رہا تھا۔ آج اس نے اپنی پیاری سی نازک بھوکی بیٹی کا خیال کرتے ہوئے یہ طے کر لیا تھا کہ کچھ بھی ہو وہ آج خالی ہاتھ نہیں جائے گا، کسی بھی طرح دو چار روپے کما کر اپنی بھوکی بچی کیلئے روٹی لے کر ہی جائے گا۔
 جب ایک بھاری بھرکم آدمی ٹرین سے جیسے ہی اترا تو وہ دوڑتا ہوا جا کر اس کا بو جھا چھیننے لگا، ’’بابو جی یہ مجھے دے دو مَیں اسے اٹھا دوں گا، دو تین دنوں سے میر ے گھر میں فاقہ ہے۔ میری بچی بھوکی ہے، آپ جو مناسب سمجھیں مجھے پیسے دے دینا۔‘‘ سامان کافی وزن دار ہونے کی وجہ سے مسافر جمال کو دیکھتے ہی کہنے لگا، ’’ارے یہ تو بہت بھاری ہے تم بہت کمزور ہو تم یہ نہیں اٹھا پاؤ گے۔ چھوڑ دو اسے، میں کسی دوسرے کو بلا لوں گا۔‘‘

یہ بھی پڑھئے:افسانہ : بوجھ

جمال کے تو آنسو نکل پڑے، ایسے نہ کہئے بابو جی میری بچی بھوک سے مر جائے گی مَیں اسے اٹھا سکتا ہوں، آپ کہئے تو سہی کہ اسے کہاں تک پہنچانا ہے۔‘‘ مگر اس آدمی نے جمال کی ایک نہ سنی اپنا سامان دوسرے کے سپرد کرکے جمال کے ہاتھوں میں کچھ روپے رکھتے ہوئے یہ کہہ کر چلتا بنا کہ، ’’بابا تم میری بات مانو یہ پیسے رکھ لو اور اس سے اپنی بچی کیلئے کچھ کھانا خرید کر لے جاؤ....‘‘
 جمال کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبانے لگیں اور اس کے ہاتھ بو جھا اٹھا نے کیلئے پھیلے کے پھیلے رہ گئے جس میں کچھ رو پے رکھ دیئے گئے اور وہ جاتے ہوئے اس آ دمی کو دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس درمیان اسے اس بات کا بھی ہوش نہیں رہا کہ اسے لوگ بھکاری سمجھ کر اس کے پھیلے ہوئے ہاتھوں میں کچھ سکے ڈالے جا رہے ہیں۔ جب اسے اس بات کا احساس ہوا تو وہ چلانے لگا کہ، ’’مَیں بھکاری نہیں ہوں مجھے بھیک نہیں چاہئے، مَیں محنت مزدوری کرنا چاہتا ہوں، آپ لوگ مجھے موقع کیوں نہیں دیتے، وقت اور حالات، غریبی اور مفلسی نے مجھے اس طرح کمزور بنا دیا ہے ورنہ میں بھی محنت مزدوری کرسکتا ہوں....‘‘
 جمال کو بھیک لیتے ہوئے بہت بُرا لگا، اس نے چاہا کہ یہ پیسے اسی وقت وہیں پر پھینک دے، مگر اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی معصوم بھوکی پیاسی بیٹی کا چہرہ گھومنے لگا، پھر اس نے دل مضبوط کرکے ان روپیوں سے روٹی وغیرہ خرید کر لے آیا اور اپنی بیٹی کے سامنے رکھ کر کہنے کھا لو بیٹی اسے، کھا لو تین دنوں سے تم نے کچھ بھی نہیں کھایا ہے۔‘‘ وہ کہنے لگی، ’’بابا میرے ساتھ آپ بھی تو بھوکے ہیں مگر یہ بتائیے۔ ان چیزوں کے لئے آپ کو پیسے کہاں سے ملے، کیا کوئی کام مل گیا؟‘‘
 جمال اپنی بیٹی کے اس سوال پر چونک پڑا اور اس معصوم سے جھوٹ نہیں بول سکا، اس نے سارا ماجرا بیان کر دیا۔ یہ سب سننے کے بعد وہ کہنے لگی، ’’بابا آپ ہی تو ہمیں کہا کرتے تھے کہ بھیک لینا بری بات ہے، محنت مزدوری کرکے کھانا چاہئے ورنہ فاقہ ہی اچھا ہے، ہم یہ بھیک سے خریدی ہوئی روٹی نہیں کھائیں گے۔ بھلے ہی بھوک سے مر جائیں۔‘‘ اور پھر اس نے ایک ہی سانس میں لوٹا بھر پانی پی لیا اور اپنے بابا کو بھی پانی بھرا لوٹا پینے کے لئے تھما دیا۔
 جمال کو بیٹی کی اس حرکت سے بہت شرمندگی محسوس ہوئی، وہ آنسوؤں کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ آج کی رات بھی پیٹ کی آگ پانی ہی سے بجھائی گئی، ساری رات آنکھوں میں کٹی۔ صبح سویرے جمال اٹھ کر قبرستان میں اس جھوپڑی کے باہر بیٹھا انہی سوچوں میں غرق تھا کہ آج کیا کرے کس طرح دو چار روپے کمائے کوئی بھی تو کچھ کام دینے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ وہ یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ قبرستان میں کچھ لوگ آئے اور ایک قبر کے سامنے فاتحہ خوانی کے بعد بہت سارے پھول اس قبر پر ڈال کر چلے گئے۔ یہ دیکھتے ہوئے جمال کے دماغ میں اچانک خیال آیا، اس نے جلدی سے ادھر ادھر دیکھا، جب اسے یہ یقین ہوگیا کہ سبھی جاچکے ہیں وہاں پر اس کے علاوہ کوئی نہیں ہے تو وہ پھرتی کے ساتھ اس پھولوں سے ملبوس قبر کے پاس پہنچ گیا اور پل بھر میں سارے تازہ بکھرے پھول چن لئے اور جلدی سے اپنے کاندھے پر پڑا بوسیدہ سا تولیہ میں ڈال لینے کے بعد دو چار گھروں میں جاکر انہیں بیچ دئیے جس سے چند روپے اسے مل گئے اور ان روپیوں سے کھانے کی کچھ چیزیں خرید کر وہ اپنی بیٹی کے پاس دوڑا چلا آیا جو بھوک کی آگ کو صرف پانی سے ٹھنڈا کرتے ہوئے ابھی تک نیند کی آغوش میں سوئی ہوئی تھی۔ اس نے جلدی سے بیٹی کو جگایا، ’’اٹھ بیٹی دیکھ میں تیرے لئے کھانے کو کیا لے کر آیا ہوں۔‘‘
 وہ معصوم ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھی، بھوک سے اس کا من کھانے کی چیزوں کو دیکھ کر للچا رہا تھا، پھر بھی اس نے اپنے بابا سے پوچھا کہ، ’’یہ سب کہاں سے آیا ہے۔‘‘ مگر جمال نے اسے جلدی یہ بتا کر ٹوک دیا، ’’بیٹی یقین کر کہ یہ بھیک سے لائی ہوئی روٹی نہیں ہے۔ تیرے لئے بس اتنا جان لینا کافی ہے۔ چل شروع کر اب ہم دونوں پیٹ بھر کر کھا لیتے ہیں۔ پھر نہ جانے کب ہمیں کھانا نصیب ہو۔‘‘ دونوں نے سیر ہو کر کھا لیا۔
 بھوک انسان کو کس قدر مجبور اور بےبس بنا دیتی ہے۔ بھوک کے آگے انسان کا بس نہیں چلتا۔ جب اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا تو پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ کوئی بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو کوئی چوری کرنے پر اتر آتا ہے۔ جمال کی سمجھ میں جب کچھ نہیں آیا تو اس نے بھیک مانگنے کے بجائے چوری کو ترجیح دی۔ چاہے وہ قبروں پر بکھرے پھولوں کی چوری ہی کیوں نہ ہو، مگر پھول بھی تو جمال کو روزانہ نہیں مل سکتے تھے۔ کبھی کبھار ہی جب قبروں پر پھول ڈالے جاتے تو وہ انہیں حاصل کر پاتا، چنانچہ ایک اور کام کو اس نے اپنا لیا۔ جب کوئی اپنے رشتہ دار کی قبر پر زیارت وغیرہ کے لئے چلا آتا تو اس کی اجازت سے وہ بوسیدہ قبروں کی اپنے ہاتھوں سے مرمت کر دیتا اور اس کے بدلے میں اہل قبو ر خوش ہو کر کچھ روپے دے دیتے، مگر ظاہر ہے یہ سب کام تو رو زا نہ کے نہیں تھے، زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، جب دو چار دن یا کچھ دن کوئی قبرستان کی طرف نہیں آتا تو جمال اور اس کی بیٹی کو فاقے ہی کرنے پڑتے۔
 ایک دن جمال کی بیٹی بخار سے تپ رہی تھی۔ دو دنوں سے گھر میں فاقہ تھا، اس معصوم کے پیٹ میں کچھ بھی نہیں تھا اور اوپر سے بخار نے آگھیرا تھا۔ جمال پریشان ادھر سے ادھر بےچینی سے پھرتا رہا۔
ذاکرہ شبنم
پھر وہ اپنی بیٹی کو سرکاری دواخانے لے گیا، جہاں پر ڈاکٹر نے معائنہ کے بعد مفت میں دوائی تو دے دی مگر جمال کو سختی سے تاکید کی کہ دوائی خالی پیٹ ہرگز مت دینا، اپنی بچی کو بریڈ (روٹی) وغیرہ کھلانے کے بعد ہی دوائی دینا۔ وہ دواخانے سے دوائی لے کر اپنی بیٹی کو لے آیا اور صبح سے رات تک مارا مارا پھرتا رہا، مگر چند روپیوں کا بندوبست نہیں کر پایا۔ جب اپنی بچی کو بخار میں تپتے ہوئے دیکھا تو اس سے رہا نہیں گیا۔ کھلانے کے لئے اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا، رات کے بارہ بج رہے تھے، وہ معصوم بخار سے تڑپ رہی تھی، جب بیٹی کی یہ تڑپ باپ کو دیکھی نہیں گئی تو اس نے یہ سوچ کر دوائی بچی کو کھلا دی کہ کسی طرح اس دوائی کے کھانے سے تھوڑا بہت بخار اتر جائےگا۔ پھر صبح ہو تے ہی وہ کسی بھی طرح کچھ نہ کچھ بندوبست کرکے کچھ نہ کچھ اس کو کھلا دےگا، دوائی دینے کے بعد وہ معصوم جو پہلے سے ہی نڈھال تھی کچھ ہی دیر میں سو گئی، جمال کو کچھ تسلی ہوئی کہ وہ آرام کر رہی ہے۔ دوائی کے اثرسے بخار بھی اتر جائےگا۔
 جب صبح ہوئی تو قبرستان میں کچھ لوگ اپنے رشتہ دار کی قبر کے پاس آئے جو بہت بوسیدہ ہو چلی تھی، ان لوگوں کو دیکھتے ہی جمال دوڑتا ہوا ان کے قریب پہنچ گیا اور ان سے کہہ کر اس قبر کو جلدی جلدی اپنے ہاتھوں سے مٹی کے ذریعہ ٹھیک کرنے لگا اور اچھی خاصی مرمت کر دی، وہ لوگ خوش ہو گئے اور جمال کے ہاتھوں میں کچھ روپے رکھ دئیے، ان روپیوں کو لیتے ہی وہ جلدی سے جاکر بریڈ لے آیا، آتے ہی اپنی سوئی ہوئی بیٹی کو آواز دے کر جگانے لگا، ’’بیٹی دیکھ میں تیرے لئے روٹی لایا ہوں۔ اٹھ جا اسے کھا لے....‘‘ مگر اس معصوم کو جگانے کی جمال کی ہر کوشش ناکام اور بےسود رہی، وہ تو ہمیشہ کیلئے سو چکی تھی، اب و ہ کہاں سے جاگ پاتی، اسے اس بےدرد دنیا سے، بھوک پیاس سے ہر طرح سے نجات جو مل گئی تھی۔ جمال چیختا رہا، چلاتا رہا، آنسو بہاتا رہا، مگر اس معصوم کی سانسوں کی ڈور اسی وقت ٹوٹ چکی تھی، جب اس نے رات میں خالی پیٹ دوائی لے لی تھی۔ اب جمال بالکل تنہا اپنی بچی کی قبر کے پاس ہر وقت بیٹھا خالی خالی نگاہوں سے قبر کو تکتا رہتا۔ اسے نہ کھا نے کا ہوش تھا نہ پانی کا خیال، اسی طرح گھنٹوں بیٹھا آنسو بہاتا رہتا۔ معمول کے مطابق اپنوں کی قبروں کا حال دیکھنے اور ان کی مر مت کروا نے کیلئے کچھ لو گ قبرستان آئے، جب انہوں نے چاروں طرف دیکھا کہ ہمیشہ ان کے آتے ہی دوڑا چلا آنے والا جمال آج کہیں بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ جب ان کی نگاہیں جمال کو تلاش کرنے لگیں تو انہیں ایک قبر کے پہلو میں کوئی بیٹھا ہوا دکھائی دیا قریب جاکر دیکھنے پر انہیں معلوم ہوا کہ جمال ہی بیٹھا آ نسو بہا رہا تھا۔ انہوں نے جمال کو آواز دی، ’’بابا آپ یہاں بیٹھے آ نسو بہا رہے ہیں، ویسے جب کبھی ہم یہاں آ تے تو آپ ہمارے پیچھے دوڑے چلے آتے تھے، قبروں کی مرمت کرنے کیلئے، آج یہاں کیوں بیٹھے آ نسو بہا رہے ہیں، یہ کس کی قبر ہے، کیا آپ کا کوئی رشتہ دار مر چکا ہے؟‘‘
 جمال زار و قطار روتے ہو ئے کہنے لگا۔ نہ بھیّا یہ میرا رشتہ دار تھوڑی ہے یہ تو میرے جگر کا ٹکڑا ہے جو مجھ سے جدا ہوگیا، یہ میری معصوم بچی ہے جو مجھے چھوڑ کر چلی گئی، یہی تو میرے جینے کا واحد مقصد تھی۔ میری غریبی نے اسے مار دیا۔ بخار سے تپ رہی تھی، ڈاکٹر نے ہدایت کی تھی کہ کچھ کھلانے کے بعد اسے دوائی دینا، مگر میں ناکارہ ایک بریڈ کا انتظام نہیں کرسکا، بخار اتر جائے یہی سوچ کر مَیں نے اسے رات میں دوائی کھلا دی کہ صبح ہوتے ہی میں روٹی کا انتظام کر کے اسے کھلا دوں گا مگر دوائی لینے کے بعد وہ جیسے سوئی ویسے ہی سو تی رہی پھر وہ نہیں جاگ پائی۔ غریبی اور مفلسی نے اسے مار دیا، بھیّا اسے مار دیا، بھوک کے زہر نے اس کی جان لے لی۔ صرف وقت پر ایک روٹی کے نہ ملنے سے اس کی جان چلی گئی، مَیں اب کس کے لئے جیوں؟ کس کے لئے کچھ کروں؟ اب میرے جینے کا کوئی مقصد ہی نہیں رہا، مَیں چاہتا ہوں اسی طرح ہر پل یہاں بیٹھا رہوں اور بھوک اور پیاس سے نڈھال ہو کر ایک دن مر جاؤں گا جس طرح میری بچی نے دم توڑ دیا تھا، مَیں بھی اس کے پاس جانا چاہتا ہوں....‘‘ وہ روئے جا رہا تھا اور سہمے جا رہا تھا۔ جمال کی باتیں سن کر وہ سبھی چپ چاپ غریب اور مفلسی کی اس جیتی جاگتی مجبور اور بےبس تصویر کو دیکھتے ہوئے سر جھکائے واپس چلے گئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK