• Wed, 22 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ : بوجھ

Updated: January 22, 2025, 4:27 PM IST | Musrat Wahid Khan | Mumbai

مَیں نے ایک بہت ہی غریب گھرانے میں آنکھ کھولی میرا باپ کسی محکمے میں ایک معمولی چپراسی تھا میری پیدائش پر کوئی خوش نہیں ہوا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

مَیں نے ایک بہت ہی غریب گھرانے میں آنکھ کھولی میرا باپ کسی محکمے میں ایک معمولی چپراسی تھا میری پیدائش پر کوئی خوش نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے علاوہ اس گھر میں دو بیٹیاں پہلے ہی موجود تھیں میری پیدائش پر میرا باپ اتنا غصے ہوا کہ اس نے میری ماں کو خوب مارا کہ بیٹی کی پیدائش کے جرم میں، تو میری ماں نے اپنی مار کا بدلہ مجھ پہ اس طرح اتارا کہ میری طرف سے بالکل لاپروا ہوگئی۔ میری پیدائش کے پانچ برس بعد میری ماں پھر اُمید سے ہوئی تو امّاں دعا مانگنے لگیں اور خدا بھی اب کی بار اماں پہ مہربان ہوا ۔ جس دن بھائی پیدا ہوا تو اس دن سے میری بڑی دو بہنوں کا اسکول جانا بند کرا دیا گیا تاکہ اماں کو کام کاج نہ کرنا پڑے اور وہ منّے کی پرورش اچھے طریقے سے کرسکے۔
 مجھے اسکول جانے دیا گیا کیونکہ میں چھوٹی تھی کوئی کام نہیں کرسکتی تھی۔ منّے کے ساتھ اماں ابا کا بے تحاشا لاڈ پیار دیکھ کر مجھے منے پہ رشک آتا کہ کاش اس کی جگہ میں ہوتی۔ ہمارے حصے کی چیزیں بھی اسے دی جاتی اور ہمیں روکھی سوکھی کھانے کو ملتی۔ اماں ابا اتنے مگن ہوئے کہ ہماری طرف تو انہوں نے دیکھنا بھی چھوڑدیا۔ اماں منے کو گود میں لے کر جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتی کہ منے کو خوب پڑھاؤں گی یہ بہت بڑا افسر بنے گا اس کے پاس بہت بڑی کوٹھی اور کار ہوگی.... ’’مَیں بیٹھوں گی...‘‘ مَیں معصومیت سے کہتی تو اماں ایک تھپڑ میرے منہ پہ جڑ دیتی ’’اٹھ جاکہ بہنوں کے ساتھ کام کر، کم بخت کلموئی، تم کیا سمجھتی ہو کہ میرا منّا تمہارا بوجھ اٹھائے گا۔ میں تمہیں پہلے ہی چلتا کروں گی۔‘‘ ’’مَیں سوچتی رہ جاتی کہ ہم بوجھ ہیں؟ اماں مجھے کہاں چلتا کرے گی؟‘‘ لیکن جب یہ پتہ چلا کہ میری بڑی بہن کی شادی ہوئی ابا نے اپنی عمر کے آدمی کے ساتھ اسے گھر سے چلتا کیا تو مَیں ڈر کے مارے اماں کی اور زیادہ خدمت کرنے لگی۔ مجھے کسی کے ساتھ ایسے نہ بھیج دے، اماں کا گھر میں اتنا رعب تھا کہ ہم گھر میں ایسے ڈرے سہمے رہتے جیسے یہ گھر نہ ہو کوئی جیل ہو۔ گھٹے ہوئے ماحول کی وجہ سے میں بہت حساس ہوگئی تھی۔ ہر وقت اپنے آپ میں گم سم رہتی پڑھائی میں دل لگایا ہوا تھا، اس طرح دن گزرتے گئے اور یوں برسوں بیت گئے۔ میں نے جب آٹھویں کا امتحان پاس کیا تو میری دوسری بہن بیاہ چکی تھی۔ وہ ایک دوزخ سے نکل کر دوسری دوزخ میں جاپڑی تھی بلکہ بڑی بہن بیوہ بھی ہوگئی تھی، لوگوں کے گھروں کا کام کاج کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی تھی۔ میرا ارادہ میٹرک کرنے کا تھا لیکن ابا نے مجھے سختی سے پڑھائی جاری رکھنے سے روک دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ منے کو پرائیویٹ انگلش اسکول میں ڈالا گیا تھا، اس مدرسے کی فیس زیادہ تھی جس کی وجہ سے میری پڑھائی کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے اس لئے دونوں سر جوڑ کر میری شادی کے بارے میں مشورے کرنے لگے۔

یہ بھی پڑھئے:افسانہ : ہمت کی داستان

مَیں نے بڑی بہنوں کا حشر دیکھ لیا تھا اس لئے مجھے شادی کے نام سے نفرت تھی۔ میں نے ابا کے سامنے پہلی بار زبان کھولی کہ ’’مَیں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی مجھے آگے پڑھنے دیں۔ میں ٹیوشن پڑھا کر اپنی اسکول کی فیس اور کتابوں کا خرچ نکال لو ں گی۔‘‘ ابا یہ سن کر بہت لال پیلے ہوگئے لیکن پتا نہیں اماں کو مجھ پر کیسے رحم آگیا اس نے میری آگے پڑھائی کا فیصلہ دے دیا اور ابا خاموش ہوگئے۔ دو سال کسی نہ کسی طرح گھسیٹ کر میں نے میٹرک کا امتحان پاس کرلیا اور اب منّا بھی بڑھا ہوگیا تھا۔ بہت زیادہ لاڈ پیار کی وجہ سے بہت ضدی ہوگیا تھا اس کی فرمائشوں کی لسٹ روزبروز طویل ہوتی جارہی تھیں۔ اگر کوئی اس کی فرمائش پوری نہ ہوتی تو وہ غصے سے گھر کی چیزیں پٹخنے لگتا میں نے کالج میں داخلہ لینے کیلئے اماں سے اصرار کیا تو وہ ایک دم بھڑک اٹھی ’’تم سے نوکری نہیں کروانی ہے۔ تمہاری ضد کی وجہ سے میں نے تمہیں میٹرک کرنے کی اجازت دیدی ورنہ آٹھویں کے بعد تمہاری شادی کردیتی۔ اگر تمہاری شادی نہ ہوئی تو کل کلاں تم میرے منّے کیلئے عذاب بن جاؤ گی۔ خوامخواہ اسے تمہارا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔‘‘ وہ غصے اور تشویش بڑے لہجے میں بولی۔ ’’اماں آپ کیوں بار بار بوجھ جیسے الفاظ سے نواز رہی ہیں۔ کیا بوجھ ہوں؟ آٹھویں کے بعد مَیں نے خود ٹیوشن پڑھا پڑھا کر میٹرک کیا۔ آپ نے ایک دھیلہ بھی نہیں دیا پھر پتہ نہیں آپ کون سے ناکردہ گناہوں کی سزا ہمیں دے رہی ہو؟‘‘ مَیں پھٹ پڑی برسوں کا لاوا جو میرے دل میں ابل رہا تھا نکل آیا الفاظ کی صورت میں۔ کمرے میں جاکر بستر پر گر کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اس کے بعد جیسے مجھے سکون آگیا لیکن اماں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ ابارات کو آئے تو اماں نے بتایا کہ لڑکی کیلئے لڑکا تلاش کرو اب زبان درازی پہ اتر آئی ہے۔ ابا کی کوششوں سے ایک ان پڑھ لڑکے کا رشتہ آیا تو اس کے ساتھ میری منگنی کردی گئی۔ منگنی کے دو برس کے بعد میری شادی کردی گئی جس دن میری شادی تھی اُس دن منّے کا رزلٹ آیا تھا جس میں وہ بُری طرح فیل ہوگیا تھا۔ ماں اس غم سے زاروقطار رونے لگی کیونکہ اس کو اپنے خواب مٹی میں ملتے نظر آرہے تھے۔
 مَیں خاموشی سے دلہن بنی فاروق کے گھر آگئی اور حالات سے سمجھوتہ کرلیا، فاروق کا دل بہت اچھا نکلا مجھ سے بہت محبت کرتا تھا۔ فاروق کی محدود آمدنی کی وجہ سے میں نے ایک پرائیویٹ اسکول میں ملازمت کرلی۔ ایک سال بعد اللہ نے مجھے پھول جیسی بچی سے نوازا تو خوشی سے میری آنکھوں میں آنسو نکل آئے۔ میں نے اس معصوم کو اپنی گود میں پیار سے بٹھایا تو میں بے اختیار ہو کر بولی ’’بیٹی میں نے ماں کی گود کے ہوتے ہوئے اس کی گرمی محسوس نہیں کی تھی لیکن میں ایسا نہیں کروں گی۔ تجھ پر اپنی ممتا اتنی نچھاور کروں گی کہ تو نہال ہوجائے گی۔ آہٹ ہونے پہ میں نے سامنے دیکھا تو اماں کھڑی رورہی تھی۔ ’’اماں تم؟‘‘ بے اختیار میرے منہ سے نکلا اس لئے کہ میری شادی کے بعد پہلی مرتبہ اماں نے میرے گھر قدم رکھا تھا اسلئے مجھے حیرت ہورہی تھی۔ ’’بیٹی مجھے معاف کردو۔ میں نے بیٹیوں کے حصے کا پیار بھی بیٹے پر نچھاور کردیا اور مجھے کچھ بھی نہیں ملا۔ اتنے زیادہ لاڈ پیار کی وجہ سے اسے میں نے بگاڑ دیا جو بڑھاپے میں میرا آسرا بنتا وہی خود ہی بے سہارا نکلا۔ اس نے نشے میں اپنے آپ کو گم کردیا، دیکھو آج اس نے مجھ پہ ہاتھ اٹھایا صرف اس وجہ سے کہ اسے نشے کیلئے رقم درکار تھی اور میں نے نہیں دی۔‘‘ اماں نے اپنابازو دکھایا جہاں بہت بڑا نیل کا نشان تھا، ’’بیٹی آج تم مجھے بہت یاد آئی، تمہاری باتیں، تمہاری خدمتیں، تمہیں جس کے پلے باندھ دیا تم نے اُف نہیں کی، آج یہ سب کچھ یاد آیا تو میں بے قرار ہوگئی اپنے آپ کو گنہگار سمجھنے لگی۔ کاش بیٹیوں کو بھی ان کے حصے کا پیار دیتی انہیں بوجھ نا سمجھتی اور ناانصافی نہ کرتی، شاید خدا نے مجھے سزا دی ہے۔ اب بیٹی مجھے معاف کردو!‘‘ اماں روتے ہوئے بولی۔ میں اٹھ کر اماں کے سینے سے لگ کے رونے لگی، ’’اماں یہی بہت ہے تمہیں احساس ہوگیا کہ ہم بوجھ نہیں ہیں۔ کاش ہر اس ماں کو اس کا احساس ہوجائے۔‘‘n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK