Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ: گناہ کا داغ

Updated: April 08, 2025, 11:26 AM IST | Sabahat Firdous | Mumbai

ایکدم ان کی نگاہوں میں نادیہ کا چہرہ سمٹ آیا۔ کیسے بن ٹھن کر نکلی تھی وہ آج گھر سے! نجانے کہاں گئی ہوگی!کیا مجھے اسے روک لینا چاہئے تھا؟ متعدد فکریں تھیں جو انہیں کھائے جا رہی تھی۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

حنانہ آپی بیٹھک میں رکھے صوفے پر براجمان تھی۔ سامنے رکھے قرآن پاک پر ان کی نگاہیں برابر جمی تھی۔ وہ ہنوز ایک ہی آیت کو ٹکٹکی باندھے تک رہی تھی۔ بارہا اس کا ورد کرتے رہنے سے دھڑکنیں تھیں کہ عجیب اضطرابی کیفیت سے دوچار ہو کر دھڑکتی جا رہی تھیں۔
یا اللہ خیر!
انہوں نے یک لخت ہی تلاوت روک دی۔
(ترجمہ) اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔ (۳۳)
ایکدم ان کی نگاہوں میں نادیہ کا چہرہ سمٹ آیا۔ کیسے بن ٹھن کر نکلی تھی وہ آج گھر سے! نجانے کہاں گئی ہوگی!
کیا مجھے اسے روک لینا چاہئے تھا؟ متعدد فکریں تھیں جو انہیں کھائے جا رہی تھی۔
نادیہ کے جانے کے بعد بھی اس کے برقع سے اٹھتی پرفیوم کی دھیمی دھیمی مہک وہ محسوس کرسکتی تھی۔ خوشبو کا استعمال وہ لڑکی اس قدر بے دریغ کرتی تھی کہ جہاں سے گزرتی بس خوشبو ہی خوشبو بکھیر جاتی۔ چنچل پن اور شوخ مزاجی یوں لگتا تھا جیسے کوٹ کوٹ کر کسی نے اس کی شخصیت میں بھر دیا ہو۔ آہستہ آہستہ وہ حد درجے بے خوف اور ڈھیٹ بنتی جا رہی تھی۔ سوائے ابا کے اس کے دل میں کسی کا خوف باقی نہ رہا تھا۔
آئے دن اس کے بدلتے رنگوں کو دیکھ کر حنانہ آپی کا دل بیٹھا جاتا تھا۔ وہ معصوم ہونے کے ساتھ ساتھ کم عمر بھی تھی۔ پھر تعلیم بھی مختلف مزاج والی لڑکیوں کے ہمراہ حاصل کر رہی تھی۔
ایک دن سوتے وقت اچانک وہ حنانہ آپی سے گویا ہوئی۔
زمانہ بدل گیا ہے آپی!
آپ کیوں بدل نہیں جاتی؟ آخر کب تک معلمہ بنی پھرتی رہے گی؟
جدیدیت نہ اپنائی تو ملّانی جیسے القابات سے نوازیں گے آپ کو لوگ....
مَیں کہتی ہوں ماڈرن بنیں!
’’یہ کیسی ذہانت بنا لی ہے تم نے اپنی نادیہ!‘‘ حنانہ آپی کی آواز میں دکھ اور تاسف بیک وقت در آیا۔ ’’حدیث سنا کر سمجھائے گی نہیں آپ مجھے؟‘‘ اس کا جواب بھی تمسخرانہ تھا۔
’’تم سمجھنا نہیں چاہتی، مذاق بنانا چاہتی ہو.... سمجھایا اسے جاتا ہے جو واقعی سمجھنا چاہے۔ تمہاری ذات میں فقدان ہوچکا ہے اس وصف کا نادیہ!‘‘ انہوں نے کروٹ بدل کر بس اتنا کہا تھا۔
اس واقعے کے بعد سے ان دونوں بہنوں میں کم ہی گفتگو ہونے لگی تھی۔
کچھ دنوں بعد حنانہ آپی کے ایگزامز ہونے تھے لہٰذا وہ پڑھائی میں مصروف ہوگئیں اور نادیہ.... وہ اپنی دُنیا میں! ویسے بھی میٹرک کے بعد اس پر زیادہ بوجھ نہ تھا اسٹڈیز کا!
ابھی دو روز قبل ہی کی تو بات ہے جب حنانہ آپی اماں کے کہنے پر کپڑے تہہ کرنے میں مشغول تھیں۔ انہوں نے دیکھا کہ بے توجہی میں شیشہ کے قریب کھڑے ہو کر اللہ جانے نادیہ کیا سوچ رہی تھی۔
وہ اپنے وجود کا مسلسل آئینہ میں جائزہ لے رہی تھی۔ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں پہنی انگوٹھی بھی مسلسل گھماتی جا رہی تھی۔
’’یہ.... یہ گولڈ رنگ؟ کس نے دی ہے تمہیں؟‘‘ انہوں نے تہہ شدہ کپڑوں کو ہاتھوں میں اٹھا کر پوچھا۔ ان کے چہرے پر واضح حیرت نادیہ کو ہڑبڑانے پر مجبور کر گئی۔
’’یہ.... آں.... وہ دوست نے.... دوست نے گفٹ کی ہے ایک!‘‘ وہ بمشکل گھبراہٹ چھپاتے ہوئے بولی۔
’’جہاں تک میرا علم ہے تمہاری تو کوئی ایسی دوست نہیں جو گولڈ رنگ گفٹ کرنا افورڈ کرسکتی ہو؟‘‘ ’’آپی! اب ہر کوئی ہماری طرح مڈل کلاس تو نہیں ہوتا! آپ جانتی ہے کہ میں ایک گرلز کالج میں زیر تعلیم ہوں.... بلاوجہ شک نہ کرے مجھ پر! وہ پرنسپل صاحبہ کی بیٹی ہے نا شہزین! بس اسی نے ہدیہ دیا تھا.... نیا نیا داخلہ ہوا ہے اس کا کالج میں!‘‘ کچھ دیر بعد وہ ذرا سنبھل کر بولی۔
’’ہممم!‘‘ حنانہ آپی چپ چاپ کپڑے ہاتھوں میں تھام کر اس کے قریب سے گزر گئی مگر جو کھٹکا ان کے دل پر لگا تھا وہ از خود ہی ان کے قدم سست کر رہا تھا۔
آج بھی وہ گھر سے کہہ کر نکلی تھی کہ ٹیوشن سے واپسی میں تاخیر ہوجائے گی۔ اماں اور ابا بےجا پابندیاں عائد کرنے کے قائل نہیں تھے۔ اسی لئے بغیر کسی سوال جواب کے انہوں نے اسے اجازت دے دی مگر حنانہ آپی کا دل کسی انجانے خدشے سے دھڑک رہا تھا۔
حنانہ آپی نے ابھی اماں کو کچھ بتانا مناسب نہ سمجھا اور بیٹھک سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی آئی۔ جانے کیوں آج وقفے وقفے سے ان کا دل ہول رہا تھا۔ وہ اپنی بہن کے لئے تہہ دل سے دعاگو تھی۔
’’اللہ تعالیٰ پلیز! نادیہ کو ہدایت دے اور میرے دل کو اطمینان! پلیز اللہ تعالیٰ پلیز!‘‘ وہ دعا کر رہی تھی اور بے چینی سے نادیہ کی منتظر بھی تھی۔
بالآخر شام کے غالباً ۶؍ بجے نادیہ گھر واپس لوٹی۔ اور حنانہ آپی تو بیٹھی ہی اس کے تاک میں تھی کہ کب اس سے دو ٹوک بات کریں۔ مگر یہ کیا! نادیہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی، اپنا بیگ پھینک کر وہ سیدھا حنانہ آپی کے گلے جا لگی۔
’’آئی.... ایم.... سوری آپی! آپی میں نے دھوکہ! آپ سب کو دھوکہ دیا ہے! وہ.... وہ ارمان! وہ انتہائی گھٹیا لڑکا نکلا.... اس نے بلایا تھا مجھے آپی ویلنٹائن ڈے سیلبریٹ کرنے مگر....‘‘ وہ ہچکیوں کے درمیان کچھ بول بھی نہ پا رہی تھی۔
آپی ششدر رہ گئی۔
’’میری سہیلیوں نے کہا تھا آپی! سب ہی تو مناتے ہیں ویلنٹائن ڈے! وہ سب بھی گئی تھیں۔‘‘ وہ بے تحاشہ روئے جا رہی تھی۔ آنکھوں کا کاجل بہہ کر گالوں سے چپک چکا تھا۔ حنانہ آپی نے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے بیڈ پر بٹھایا اور جلدی سے کمرے کا دروازہ بند کردیا مبادا والدین تک یہ بات نہ پہنچے۔ شاید ہی وہ اس صدمے کو جھیل پائیں۔ آپی نے خود ہی اس مسئلے کو سلجھانے کا سوچا اور نادیہ کے پہلو میں جا بیٹھی۔
’’ویلنٹائن ڈے ہمارے لئے نہیں ہے نادیہ! اسلام نے ہر اس عمل سے روک جانے کا حکم دیا ہے جو بے حیائی کو فروغ دیتا ہو! تمہیں اندازہ بھی ہے کہ کسی نامحرم سے تحائف اور پھول وصول کرنا کس قدر بے ہودہ اور گھناؤنا فعل ہے؟ حیا انسانی سرشت میں پنہاں ایک ایسا پاکیزہ جذبہ ہے نادیہ جسے اس کے خمیر کے ساتھ گوندھا گیا ہے۔ جب انسان اپنی فطرت کے برخلاف کسی کام کو سرانجام دیتا ہے تو اسے اس کے منفی نتائج سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے! مغربی دنیا کا جائزہ لےکر دیکھ لو۔ جب وہاں بے حیائی کو وسعت حاصل ہوئی تو ان لوگوں کا خاندانی نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا۔ جانتی ہو تم! ان ساری برائیوں کو وہاں اسی ویلنٹائن ڈے کے نام سے تحریک مل رہی ہیں۔ وہ قومیں خود تو بربادیوں کے دہانوں پر پہنچ گئی مگر ہمارے نوجوان بھی عقل کے بغیر انہیں نقل کرنے لگ گئے۔ حیا ایک انمول جذبہ ہے.... جب یہ انسان کی ذات سے نکل جاتا ہے تو وہ ہر بھلائی سے محروم رہتا ہے.... حتیٰ کہ ایمان بھی اس کے دل سے جاتا رہتا ہے کیونکہ حیا اور ایمان ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہے۔ جہاں حیا نہیں وہاں ایمان بھی نہیں....

یہ بھی پڑھئے: افسانہ: وسیع دسترخوان

نبی کریمؐ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ ’’حیا اور ایمان دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیئے گئے ہیں۔‘‘ اس لئے جہاں ان دونوں میں سے ایک نہیں رہتا وہاں دوسرا بھی نہیں رہنے دیا جاتا۔
تمہیں اپنے والدین کو دھوکہ دے کر شرم نہیں آئی یہ دن مناتے وقت؟
کبھی جھانک کر دیکھا ہے ان کی آنکھوں میں؟ تم نے اعتبار کھو دیا ہے نادیہ! مجھے تم سے یہ امید ہرگز نہیں تھی۔
آپی کی باتوں میں بے تحاشہ تاسف تھا۔ ان کی آخری بات پر نادیہ کے بہتے آنسوؤں میں روانی آگئی۔
’’آپی پلیز میری بات سنئے آپی! پلیز آپی!‘‘ وہ ان کا ہاتھ تھام لی۔
’’مَیں سچ کہہ رہی ہوں.... یقین کریں! میرا اور اس لڑکے کا کوئی افیئر نہیں تھا۔ انکیتا نے مجھے بتایا تھا کہ ارمان اس کا بھائی ہے۔‘‘
’’کون انکیتا؟‘‘
کلاس فیلو ہے میری.... وہ کہتی ہے تمہارا مذہب بہت تنگ نظر ہے.... یہ قید رکھتا ہے خواتین کو.... اس نے مجھے ایک نئی دنیا سے متعارف کروایا آپی....
اس نے مجھے اپنی خوبصورتی کا احساس دلایا.... یہ گولڈ رنگ! یہ بھی اپنے بھائی کا نام بتا کر اس نے مجھے دی تھی....
وہ اپنے بھائی کی پیغام رساں تھی آپی! آج بھی اس نے اپنے بھائی سے ملوانے مجھے ایک ہوٹل میں بلوایا تھا۔
سب سے بڑی بے وقوفی یہ سرزد ہوئی کہ جذبات میں آکر میں وہاں جا پہنچی۔ انکیتا تو وہاں نہیں تھی البتہ اس کے بھائی نے مجھے تحائف اور پھول سونپ دیئے....
وہ عجیب لڑکا تھا آپی! جب وہ غیر مہذب حرکتیں کرنے کی کوشش کرنے لگا تو اس کے تحائف اور پھول مَیں اس کے منہ پر پھینک آئی۔ آئی.... ایم سوری!
مجھے معاف کردیں!
بہت.... بہت غلط کیا تم نے نادیہ! ایک نان مسلم! اللہ اکبر!‘‘
حنانہ آپی غم و غصے کے عالم میں تھی۔
انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا اپنا غصہ نادیہ پر نکالے یا اس کی دوست پر!
اسلام ایک تنگ نظر مذہب نہیں ہے نادیہ! یہ اپنے اصول و ضوابط عائد کرکے ہمیں عیاشیوں سے روکتا ہے! تمہاری سہیلی جسے زادی کہہ رہی ہے وہ دراصل بے حیائی ہے....
اور بے حیا ہونا انسان کو گناہ کبیرہ میں ملوث کر دیتا ہے۔ کیا دین میں کبھی لڑکیوں کی تعلیم کی ممانعت آئی ہے؟
کیا اس نے تمہیں پڑھنے لکھنے سے روکا ہے؟ بتاؤ؟
کیا یہ تمہارے خوابوں کے درمیان آڑ بنا ہے؟
نہیں نا! یہ دین کبھی اچھی باتوں سے نہیں روکتا۔ جو دین حق کے راستے پر چلتے ہیں وہ ہمیشہ فلاح پاتے ہیں۔ یہ دین شر پھیلانے والے اعمال سے روکتا ہے۔
 ویلنٹائن ڈے خرافات ہے....
اسے منانے والے وہی بے حیا کام کرتے ہیں جو بقول تمہارے غیر مہذب حرکتیں ہیں۔ پہلا ویلنٹائن ڈے ہوسکتا ہے صرف پھولوں تک محدود ہو مگر آگے جو ہوتا ہے اسے تم بھی اچھی طرح سمجھتی ہو۔
ہمیں ان برائیوں کا خاتمہ کرنا تھا نادیہ! مگر تم خود! تم خود اس کی مرتکب بن بیٹھی! کتنی ہی ایسی لڑکیاں ہیں اس معاشرے میں جو اپنے مستقبل کے ہزاروں خواب سجا کر رکھتی ہیں۔ ان کے پاس وہ آزادی نہیں ہوتی جو ہمارے پاس ہیں....
اگر والدین آگے بڑھنے کی آزادی دیں تو تم پر بھی فرض ہے کہ اس آزادی کا صحیح استعمال کرو۔
خدارا! معاشرے میں تعلیم نسواں سے متعلق جو تھوڑی روشن خیالی آئی ہیں، جو چند دیئے جلے ہیں انہیں اپنی کرتوت کی بھینٹ نہ چڑھنے دو۔
ان چند دیوں کو نہ بجھنے دو نادیہ! کیا تم نہیں چاہتی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے منتخب بندوں میں شامل کریں؟
ان میں جنہیں وہ ہدایت یافتہ کہتا ہے؟
جو فلاح یافتہ قرار پائے ہیں؟ جن سے اللہ اپنے دین کی سرفرازی کا کام لیتا ہیں؟ جو پرفارمنس فرشتے تمہارا اللہ تعالیٰ کے پاس لے جا رہے ہیں کیا وہ تمہیں ان سب کا مستحق بنادے گا؟
ہمیں اپنے معاشرے کے لئے مثال بننا ہے عبرت نہیں نادیہ!
’’مجھے معاف کردیں! جذبات مجھ پر حاوی ہوچکے تھے آپی! انکیتا نے مجھے اپنے دین سے بدظن کر دیا تھا۔ پلیز مجھے معاف کردیں!‘‘ وہ ہچکیوں کے درمیان گویا ہوئی۔
’’معافی اپنے رب سے مانگو! تم نے صرف ماں باپ کی نافرمانی نہیں کی ہے۔ صرف ہمیں ٹھیس نہیں پہنچائی بلکہ اصل نافرمانی اپنے رب کی ہے۔‘‘ حنانہ آپی کہہ کر اس کے پاس سے اٹھ آئی تھی۔
ادھر پورا دن گزر گیا نادیہ اپنی جگہ سے نہ ہلی۔ وہ آنسو بہاتے بیڈ پر جم کر ایسے بیٹھی کہ دن ڈھل گیا رات آگئی، ابا آئے رونے کی وجہ پوچھی مگر جواب ندارد!
اماں الگ پریشان تھی۔
وہ اسے کھانا کھانے کے لئے جتنی مجبور کر رہی تھی وہ اتنا ہی روتی جا رہی تھی۔ آخرکار حنانہ آپی کو خود اپنی بہن کے پاس جانا پڑا۔
’’میری گڑیا! اب یہ واویلا کس لئے؟ دیکھو پریشان نہ کرو ہمیں! اماں ابا پہلے ہی فکرمند ہے تمہارے لئے!‘‘
’’مَیں بری ہوں! بہت بری ہوں آپی! اب اللہ تعالیٰ مجھ سے ہمیشہ ناراض رہیں گے۔ میری امیج پر دھبہ لگ چکا ہے!‘‘
’’تو دھو لو نا اس دھبہ کو!‘‘
’’دھو لوں مگر کیسے آپی؟‘‘
’’توبہ و استغفار کے آنسوؤں سے! دیکھو انسان خطاؤں کا پتلا کہلاتا ہے۔ ہر کوئی تقویٰ کے اعلیٰ مقام تک نہیں پہنچ سکتا! غلطیاں ہوسکتی ہیں!
تمہیں پتا ہے رسولﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔‘‘
’’اور آپ! آپ معاف کر دیں گی؟‘‘ وہ آنسوں صاف کرتی ہوئی بولی۔
’’ہاں لیکن ایک تنبیہ ہے۔ آںٔندہ کوئی ایسی حرکت دوبارہ کی تو میں نہ صرف اماں ابا کو بتاؤں گی بلکہ تم سے بھی بہت بری طرح پیش آؤں گی! کبھی معاف نہیں کروں گی!‘‘ حنانہ آپی انگلی اٹھا کر اسے تنبیہ کرتے ہوئے کہنے لگی۔
’’میرا دل اس گناہ کے بار تلے پہلے ہی دب گیا ہے آپی! جو ’گلٹ‘ (قصور) میرا دل محسوس کر رہا ہے آپ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی! مجھ میں ہمت نہیں رہی کہ دوبارہ اس کو تار تار کردوں!‘‘ وہ کہتے ہوئے اٹھ گئی۔ اور اب اس کا رخ باتھ روم کی طرف تھا۔ یقیناً وہ وضو کرنے گئی تھی۔ حنانہ آپی کی آنکھیں بے اختیار اشکبار ہوگئی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK