دو خاتون جو فوت ہوچکی ہیں مگر خطوط میں زندہ ہیں۔
EPAPER
Updated: February 20, 2025, 2:14 PM IST | Khansa Zaheer Bolinjkar | Bhiwandi
دو خاتون جو فوت ہوچکی ہیں مگر خطوط میں زندہ ہیں۔
نانی کے گھر کی صفائی تقریباً مکمل ہوچکی تھی۔ امی کل دوپہر سے صفائی میں لگی ہوئی تھیں۔ اور آج سہ پہر تک صفائی مکمل ہونے کو تھی۔ ہم ہر سال موسم ِ سرما کی تعطیلات میں نانی کے گھر، پورے دو مہینے رہنے کے لئے ضرور جاتے تھے۔ اس کی خاص وجہ شہری ہنگاموں سے چھٹکارا پانا اور سکون تھا۔ گاؤں کی زندگی میں تھوڑا ٹھہراؤ ہوتا ہے۔
یہاں نانی کا لکڑی سے بنا ایک منزلہ گھر اپنے آب و تاب کے ساتھ کھڑا تھا۔ اگلے پورشن میں ماموں اور ان کی فیملی ہوتی تھی اور پچھلا پورشن انہوں نے خاص کر امی کے لئے تیار کروایا تھا۔ ہم جب بھی نانی کے گھر آتے پچھلے پورشن میں ٹھہرتے اور امی آتے ہی گھر اور کمرے کو اپنی پسند کے مطابق ترتیب دیتیں۔ اور خاص کر نانی کے صندوق کی صفائی وہ ضرور کرتیں۔ اس میں بہت سی ایسی چیزیں تھیں جو نانی نے سنبھال کر رکھی تھیں۔
میں نے آنگن سے تازہ گلاب توڑے تھے اور انہیں گلدان میں سجانے لگی۔ اتنے میں داخلی دروازے کی گھنٹی بجی، امی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ میں باہر کی جانب دوڑی، دروازہ کھولا اور سامنے وہی تھا جس کا ہر موسم ِ سرما سارے گھر والوں کو انتظار ہوتا تھا۔
یہ بھی پڑھئے:افسانہ : صوفی.... میری جان!
ڈاکیہ ہاتھ میں خاکی لفافہ لئے کھڑا تھا۔ مَیں نے وہ لفافہ وصول کیا اور اندر کی جانب رخ کیا۔ امی بھی ہاتھ ڈوپٹے سے صاف کرتی ہوئی پیچھے آہی گئی تھیں۔ ماموں، ممانی اور ان کے بچے ہم سب لاؤنج میں جمع اس بار بھی خاکی لفافے کے کھلنے کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ امی ہر سال یہ لفافہ کھولتے ہوئے ہم سب کو ماضی میں ضرور لے جاتی تھیں۔ اس بار بھی لفافہ کھولتے ہوئے وہ آبدیدہ ہوگئیں۔ ساتھ میں خط بھی موصول ہوا تھا۔ ماموں کی چھوٹی بیٹی، ننھی ماہم جو ابھی پانچ سال کی تھی وہ سب کچھ حیرت سے دیکھ رہی تھی اس کے چہرے پر ناسمجھی کے تاثرات صاف تھے۔
امی کے چہرے پر آنسوؤں کی جگہ اب مسکراہٹ نے لے لی تھی۔ ڈوپٹے سے آنکھیں پوچھتے ہوئے انہوں نے کہا گزرتے دنوں، سالوں پہلے نانی فعال اور چاق و چوبند ہوا کرتی تھیں ہر کام وہ خود انجام دیتی تھیں، اپنے اصولوں کی پابند تھیں۔ گاؤں میں جہاں اب مدرسہ اور لائبریری ہے پہلے وہاں چھوٹا اسکول ہوا کرتا تھا۔ اور نانی وہاں ماسٹرنی تھیں۔ نانی اونچے قد کی تھیں زیادہ تر سفید یا پھر کوئی ہلکے رنگوں کی ساڑی زیب تن کرتیں، بالوں کا جوڑا بنایا کرتی تھیں اور ایک مخصوص انداز میں شال اوڑھا کرتی تھیں۔ انہیں ’چنار کے پتوں‘ کی پرنٹ والی شالیں بہت پسند تھیں۔ اور ان میں سے کچھ آج بھی صندوق میں پڑی ہیں۔ نانی نے گاؤں کے ہر گھر کے بچوں کو اسکول میں تعلیم سے آراستہ کیا تھا۔ کچھ لوگ تھے ہی اسکول میں فیس جمع کر پاتے تھے۔ باقی اکثریت فیس بھرنے سے محروم تھی۔ لیکن نانی نے ان بچوں کو بھی تعلیم دیں جو فیس بھرنے کے قابل نہ تھے۔ ان بچوں کے والدین بھی غیرت مند تھے، بدلے میں اسکول کی تعلیم گاہ کی صفائی کر دیا کرتے، کوئی کنویں سے پانی لاتا، کوئی آنگن میں پودے اگاتا، میدان کی صفائی کر دیا کرتے تو کوئی اپنے ہاتھوں سے کڑاھی کیا ہوا کوئی سوٹ، سوئٹر، موزہ وغیرہ، نانی کو بطور تحفہ دے دیتا۔ اور کہتے یہ بچوں کی تعلیم میں ہمارا حصہ ہے۔ غرض کہ ہر کوئی مل جل کر اسکول چلاتا تھا۔
اُن دنوں گاؤں میں ایک مٹی کے برتن فروخت کرنے والی اماں آیا کرتی تھیں، ساتھ میں ان کا بیٹا بھی ہوتا جو تقریباً ماہم کی عمر کا تھا۔ سب انہیں اماں کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ ہر وقت سفید لباس میں ملبوس ہوتی تھیں، سفید قمیص، شلوار اور ڈوپٹہ سر پر اوڑھے رہتیں اور دونوں کانوں کے پیچھے اڑستیں۔ کانوں میں گول بالیاں ہوتیں جو چاندی کی تھیں جن کا رنگ اڑ چکا تھا۔ چہرے پر صدیوں کی تھکان اور بیٹے کی آنکھوں میں بہت سی امیدیں!
اماں ملتان شہر کی رہنے والی تھی اور کچھ دنوں کے لئے گاؤں میں قیام کرتی تھیں۔ پھر واپس لوٹ جاتیں۔ وہ مٹی کے برتنوں پر مخصوص رنگوں سے ڈیزائن بنا کر لاتی تھیں جو یہاں کہیں دستیاب نہیں تھے۔ غریب تھیں گاؤں گاؤں پھر کر بیچا کرتی تھیں۔ اماں کا بہت دل چاہتا تھا کہ ان کا بیٹا بھی پڑھے لکھے۔ جب نانی کو اماں کے ان خیالات کا پتہ چلا تو نانی نے ان کے بیٹے کو اسکول میں داخل کروا دیا وہ بھی بلا معاوضہ، ’’جہاں اتنے بچے پڑھتے ہیں وہاں ایک بچہ اور سہی۔‘‘ نانی نے اماں سے کہا۔
جب تک اماں گاؤں گاؤں برتن بیچتی، نانی ان کے بیٹے کو پڑھاتی، ساتھ ہوم ورک کراتی اور کھانا بھی کھلاتی اور اسے ہنر بھی سکھائیں۔
دن مہینے سال گزرتے گئے۔ نانی نے اماں کی اسی طرح بہت دعائیں لیں۔ جب اماں ملتان واپس جاتیں وہاں سے واپسی پر خاص طور پر نانی کے لئے اپنے ہاتھوں سے بنی چنار کے پتوں کی پرنٹ والی شال اور چوڑیاں ضرور لاتیں۔ چنار کے پتوں والی شال نانی کو پسند تھیں اور چوڑیاں اماں کو، نانی کیلئے پسند تھیں۔ اماں ہر موسم ِ سرما کی تعطیلات میں یہ تحفہ ضرور لاتیں۔ بیٹے کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد اماں نے گاؤں آنا چھوڑ دیا۔ اور پھر نانی بھی ریٹائرڈ ہوچکی تھیں۔ وہ کمزور ہونے لگی تھیں۔ لیکن ہر موسم ِ سرما ملتان سے یہ خاکی لفافہ ضرور آتا ہے۔ خط میں اماں، نانی کی خیر خیریت ضرور معلوم کرتیں اور نانی انہیں ضرور جوابی خط لکھا کرتی تھیں اور ساتھ میں موسم ِ سرما کی سوغات یعنی خشک میوہ جات ملتان سے بھیجا کرتی تھیں۔
یہ سلسلہ آج بھی قائم ہے۔ نانی کی طرف سے سوغات اور خط اب میں بھیجا کرتی ہوں ملتان۔ لیکن خط میں آج تک یہ بتانے کی ہمت نہ کر پائی کہ نانی تو کب کی گزر چکی ہیں۔ ماہم کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں۔ امی کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ امی خط پڑھ رہی تھیں۔
دوسری طرف ملتان سے لکھے جانے والے خط میں ان کے بیٹے نے بھی کبھی نہیں بتایا کہ اماں بھی کب کی گزر چکی تھیں۔
خط و کتابت کا یہ سلسلہ قائم تھا اور ان خطوط میں نانی اور اماں ہمیشہ زندہ تھے۔