• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : صوفی.... میری جان!

Updated: February 18, 2025, 1:34 PM IST | Yasmeen Bano | Jalgaon

روبوٹ، انسان کیلئے رحمت یا زحمت؟ یہ افسانہ اس کا ایک نمونہ۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

میرا نام پروفیسر سوفٹ ورڈ ہے اور مَیں ہارڈ ورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں۔ آج مَیں آپ کو اپنی زندگی کا ایک بہت اہم واقعہ سنانے جارہا ہوں۔
 لوگوں کی نظروں میں میری بڑی قدر و منزلت ہیں۔ ایسا لوگ کہتے ہیں.... اور مجھے لگتا ہے ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ مَیں نے اپنی زندگی بھر کی محنت سے ایک شاہکار مشین تیار کی جسے لوگ روبوٹ کہتے ہیں۔ روبوٹ تیار کرنے کے بعد اسے ایک حسین لڑکی کی شکل کا ماسک پہنا دیا، اور ظاہر سی بات ہے ہر لڑکی کا کوئی نہ کوئی نام ضرور ہوتا ہے مَیں نے بھی اس مشین کا ایک اچھا سا نام رکھا۔ اس کا نام تھا.... صوفی!
 اس رات پروفیسر سر اسٹیفن ہاکنگ میرے خواب میں آئے اور روبوٹ کے بارے میں وہی پرانی گھسی پٹی باتیں کرکے مجھے ڈرانے لگے لیکن اب ان سب باتوں کا کیا مطلب بھئی! صوفی روبوٹ وجود میں آچکی تھی اور عنقریب وہ اپنے کارناموں سے ساری دنیا کو فیضیاب کرنیوالی تھی۔
 جب میرا عظیم الشان شاہکار بن کر ساری دنیا کے سامنے آیا تو اہل علم اور قدردانوں کی آنکھیں چار ہوگئیں۔ ملک کے بڑے بڑے شہروں میں جلسے منعقد ہوئے اور ہونے بھی چاہئیں تھے آخر صوفی بھی کوئی چیز تھی۔ صوفی ایک باکمال روبوٹ تھی۔ میرے حکم پر صوفی نے اپنے جوہر دکھانے شروع کئے اور لوگوں نے میری تعریف کرنا! اور پھر.... بڑے بڑے ممالک سے مجھے دعوت نامے آنے لگے۔ لوگ صوفی سے ملنا چاہتے تھے اور مجھ سے بھی۔ یہ سب تو ہونا ہی تھا۔ میں اس بات کے لئے بالکل تیار تھا۔ خیر! میں نے صوفی کے ساتھ کئی ملکوں کے سفر کئے اور خوب شہرت اپنے کریڈٹ میں جمع کی۔

 اب آپ پر صوفی کے کمالات کا انکشاف بھی ہو جائے تو بہتر ہوگا۔ صوفی ایک بہترین اور حسین روبوٹ ہے۔ وہ بیک وقت بہت سارے کام بڑی خوبی سے کرسکتی ہے۔ مثلاً ایک ساتھ کئی کتابیں پڑھنا اور لکھنا، عام عورتوں کے مقابلے میں کھانا بہت کم وقت میں تیار کرنا.... وہ بھی بے حد لذیذ! کتابوں کو بس پانچ دس منٹوں میں پوری پڑھ کر ہاتھ جھٹک دینا، پکاسو کی طرح شاندار تصویریں بنانا، بڑے بڑے سمینار میں اپنی شعلہ بیانی سے لوگوں کے دلوں کو جیتنا وغیرہ وغیرہ۔
 فٹبال میرا پسندیدہ کھیل ہے۔ میں اکثر فٹبال کا مقابلہ دیکھنے کے لئے جاتا ہوں۔ اس دن صوفی بھی میرے ساتھ تھی۔ ہم دونوں اسٹیڈیم پہنچے۔ سارا اسٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ شیدائیوں کی آوازیں ہر طرف گونج رہی تھیں۔ کوریائی ٹیم برازیلی ٹیم پر زوردار وار کررہی تھی۔ سارے کھلاڑی اپنی اپنی ٹیم کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ صوفی بڑی غور سے مقابلہ دیکھنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد مجھ سے پوچھا، ’’یہ سب آخر کیا کررہے ہیں؟‘‘ میں نے کہا، ’’ہر کھلاڑی گیند کو پکڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔’’ اس نے پوچھا، ’’لیکن کیوں؟‘‘ ’’تاکہ ان کو گول بنانے کا موقع مل سکے۔‘‘ ’’اس سے کیا ہوگا؟‘‘ ’’اس سے ایک ٹیم جیت جائیگی۔‘‘ میں مسکرایا۔ صوفی نے کچھ سوچا اور بولی، ’’پھر دوسری ٹیم بھی تو ہار جائے گی نا؟‘‘ ’’ہاں! بالکل ایسا ہی ہوگا بلکہ ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘ ’’لیکن یہ تو سراسر ناانصافی ہے.... ایسا نہیں ہونا چاہئے۔‘‘ ’’اسے کھیل کہتے ہیں میری جان!‘‘ میں نے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا۔
 صوفی ناراضگی سے میرے بازو سے اٹھی اور تھوڑی دیر بعد واپس آکر بیٹھ گئی۔ پتہ چلا کہ میدان سے گیند غائب ہوگئی ہے۔ سارے کھلاڑی حیران و پریشان ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ انتظامیہ جو، اب تک لطف اندوز ہو رہا تھا.... اچانک حرکت میں آگیا اور میں سکتے میں!
 میں سمجھ گیا یہ حرکت یقیناً صوفی کی ہے۔ لہٰذا وہاں سے رفو چکر ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔

یہ بھی پڑھئے:افسانہ : ”ایسے اور ویسے“

اگلے دن، میں کسی ضروری کام سے مال جانے لگا تو صوفی نے ضد کی کہ وہ بھی میرے ساتھ چلے گی۔ میں نے کہا ٹھیک ہے جلدی سے تیار ہو جاو۔ اس نے خود کو خوب تیار کرنے میں دیگر عورتوں کی طرح کافی وقت نہ لگاتے ہوئے، چند سیکنڈز لگائے اور سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ میں نے گاڑی اسٹارٹ کی۔
 مال سے سامان خریدنے کے بعد باہر نکلا تو ایک اخبار خریدا اور چلتے چلتے پڑھنے لگا۔ صوفی ادھر ادھر کے نظاروں سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچانک سامنے سے ایک آوارہ نوجوان آیا۔ اس نے صوفی کو عام لڑکی سمجھ کر شرارت کرنا چاہی اور راہ چلتے ہوئے صوفی کو ہلکا سا دھکا دیا.... بس پھر کیا ہونا تھا.... وہ اپنی حرکت سے گرنے ہی والا تھا کہ صوفی نے میکانکی انداز میں اس کو فورا تھام لیا۔ بالکل فلمی انداز میں! نوجوان فوراً سنبھلا اور صوفی کی طرف دیکھ کر مسکرایا پھر مخصوص انداز میں بولا، ’’تھینکس! آپ نے کس خوبی سے مجھے گرنے سے بچایا واؤ!‘‘ جواباً صوفی بھی مسکرائی اور بولی ’’میں اور بھی بہت سے کام اِسی خوبی سے کرسکتی ہوں۔‘‘
 میں اخبار پڑھتے پڑھتے رکا اور صوفی کو دیکھا۔ نوجوان چوکنا ہوا اور تمسخرانہ مسکرایا پھر پوچھا، ’’جیسے؟‘‘ ’’جیسے تمہیں اچھال کر اس مال کی سب سے اونچی منزل پر پہنچا سکتی ہوں وہ بھی دو سیکنڈ ز میں!‘‘ ’’کیا واقعی؟‘‘ نوجوان پھر مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ میں صوفی کے لئے ایک چیلنج تھا۔
 بس پھر کیا تھا! صوفی نے اس نوجوان کے دونوں بازوؤں کو تھاما اور اس کو ہوا میں اچھال دیا۔ جس طرح کوئی ماں اپنے نونہال کو ہوا میں اچھالتی ہے لیکن.... لیکن اگلے ہی لمحے سنبھال بھی لیتی ہے مگر صوفی؟ صوفی نے اس نوجوان کو اتنی زور سے اچھالا کہ یہ جا وہ جا.... اگلے لمحے وہ نوجوان مال کی سب سے اونچی منزل پر تھا۔ وہ حیرت سے ادھر ادھر اوپر نیچے دیکھنے لگا پھر اگلے ہی لمحے بےہوش ہو کر وہی گر پڑا۔
صوفی نے ہاتھ پر ہاتھ جھٹکے، میری طرف دیکھا، ہلکا سا مسکرائی اور آگے بڑھ گئی۔ صوفی کا وجود میرے لئے کافی بابرکت تھا۔ وہ میری مشکلوں کی ساتھی تھی لیکن میرے نوکر کے لئے وہ زحمت ثابت ہوئی۔ جب سے صوفی اس گھر میں آئی تھی نوکر اس سے حسد کرنے لگا تھا اور کرنا بھی چاہئے تھا۔ صوفی اس سے زیادہ چست اور ہر وقت مستعد رہتی تھی جبکہ کام کے اکثر اوقات وہ اونگھتا رہتا تھا۔ ایک دن اسی کاہلی کے سبب اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ دراصل واقعہ یوں ہوا کہ ایک مرتبہ صوفی اپنی کسی روبوٹ ساتھی سے ملنے گئی ہوئی تھی جو کہ ایک ریسٹورنٹ میں کیڑنگ کا فریضہ انجام دے رہی تھی۔ ادھر مجھے چائے کی طلب ہوئی۔ میں نے نوکر سے کہا کہ میرے لئے چائے لاو۔ اسے کچن میں جائے کافی دیر ہوگئی تو میں نے دوبارہ چائے کے لئے آواز لگائی۔ میرا صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔ ’’ارے بھئی! چائے لاتے ہو....‘‘
 ’’حضور! صبر رکھے۔ مَیں آدمی ہوں مشین نہیں۔‘‘ کچن سے با آواز بلند جواب برآمد ہوا۔
 میں یہ سن کر طیش میں آگیا۔ فوراً اس کے پاس پہنچا، ’’نالائق! مجھ سے زبان درازی کرتے ہو.... جاو.... تمہیں نوکری سے نکالا۔ مجھے اب تمہاری ضرورت نہیں.... تم سے تو صوفی بہتر ہے جو کام بھی جلدی کرتی ہے اور زبان درازی.... زبان درازی تو بالکل نہیں کرتی۔‘‘
 بےچارہ نوکر خاموشی سے چلا گیا۔ اور ویسے بھی اب اس گھر میں اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ سارے کام نہایت پھرتی اور خوبی سے کرنے کے لئے صوفی، کافی تھی۔ اب سنا ہے وہ شہر کی گلیوں میں آوارہ گھوم رہا ہے۔

 اتوار کی ایک سہانی شام ہم سب دوست فٹ بال کھیل رہے تھے۔ کھیل سے فارغ ہو کر آپس میں باتیں کرنے لگے۔ دوستوں میں سے دوچار نے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں پچھلے کچھ دنوں سے تم کافی سست اور کام چور ہوتے جا رہے ہو۔ یہ سن کر یقین جانئے میں بہت خوش ہوا۔ کیوں.... کیونکہ اس کا مطلب تھا صوفی بالکل ٹھیک طریقے سے کام کر رہی تھی۔ وہ میرے سارے کاموں کو آسان بنا رہی تھی۔ جس کی وجہ سے میں واقعی کاہل اور ناکارہ تو ہوا.... لیکن دوسری طرف سارے کاموں کے انجام دینے کی فکر بھی تو دور ہوئی نا۔ اب زندگی میں آرام ہی آرام تھا۔ زندگی اس قدر حسین ہو جائے گی میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ تھینکس صوفی!

 اپنے اسٹڈی روم میں بیٹھے ہوئے میں بڑے انہماک سے ایک دلچسپ ناول ’آزادیٔ نسواں‘ پڑھ رہا تھا کہ اچانک دھڑ کی آواز سے دروازہ کھلا، صوفی کمرے میں داخل ہوئی اور دھپ سے صوفہ پر بیٹھ گئی۔ وہ کچھ ناراض نظر آرہی تھی۔
 میں نے کتاب بند کی، اپنی خوبصورت عینک اتاری اور اس کی طرف دیکھا، ’’کیا ہوا صوفی؟ تم کچھ ناراض نظر آرہی ہو۔‘‘
 ’’ہاں! میں بہت ناراض ہوں۔‘‘
 ’’آخر کس سے؟‘‘
 ’’آپ سے اور کس سے؟‘‘
 ’’لیکن کیوں؟ میں نے کیا کیا؟‘‘ میں نے شانے اچکائے۔ وہ بولی، ’’آپ نے مجھے اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ ہر وقت مجھے حکم دیتے رہتے ہیں.... لیکن میری بھی کوئی زندگی ہے.... آخر مجھے بھی جینے کا حق ہے۔‘‘ وہ غصے سے کھڑی ہوگئی۔
 ’’لیکن.... میں تمہارا آقا ہوں۔ کیا ہوا جو تمہیں حکم دیا.... اور پھر تم آخر میری ہی....‘‘
 ’’نہیں.... اب نہیں۔‘‘ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے ٹوکا، ’’اب میں نہیں، آپ میرا حکم مانیں گے۔ میں آزادیٔ نسواں کی حامل ہوں۔ مجھے بھی جینے کا حق حاصل ہے۔‘‘
 میں نے کن انکھیوں سے ٹیبل پر رکھی کتاب کو دیکھا۔ ’’صوفی!‘‘ میں ذرا بگڑ گیا، ’’تم ایک روبوٹ ہو اور تمہیں اپنے آقا کے حکم کے مطابق ہی جینا ہوگا۔ سمجھی تم! اس میں ہی تمہاری بھلائی ہے۔‘‘
 وہ پہلے ہی غصہ تھی۔ میری بات سن کر مزید برہم ہوگئی اور میرے سامنے آکر گویا ایک آہنی دیوار بن کر کھڑی ہوگئی پھر مجھے گھور کر دیکھا اور بولی، ’’کیا کریں گے آپ ہاں.... اگر میں نے آپ کا حکم نہ ماناتو؟‘‘ اس کی آواز میں انگاروں کی سی تپش تھی۔ میں سمجھ گیا صوفی کے آپریٹنگ سسٹم میں کچھ گڑبڑ ہو رہی ہے۔ بالآخر وہ ایک مشین تھی۔
 میں کھڑا ہوگیا اور اس کے روبرو ہو کر بولا، ’’دیکھو صوفی! آخر تم ایک مشین ہو اور....‘‘
 ’’نہیں میں مشین نہیں ہوں۔ میں ایک انسان ہوں۔ بالکل آپ کی طرح، آپ سے کئی گنا تیز، پھرتیلی اور آپ سے بہتر!‘‘
 ’’صوفی میری بات تو....‘‘
 وہ غصے میں میری طرف بڑھی اور مجھے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر دیوار کی طرف ایک جھٹکے سے پھینکا۔ پھر کیا تھا.... میں دیوار پر بری طرح پٹخا گیا۔ اف! اس کے بعد میں نے دیواروں کی ہڈیوں اور دیواروں نے میری ہڈیوں کے چٹخنے کی آوازیں سنیں۔ میرے کمرے کا منظر کچھ اس طرح تھا کہ دیواروں کا ملبہ مجھ پر، اور میرا ملبہ دیوار پر پڑا تھا۔ میں درد سے کراہ رہا تھا۔ صوفی میرے سامنے کھڑی غیض و غصب سے مجھے دیکھ رہی تھی اور میں حیرت سے صوفی کو۔ ہائے وہ درد! اس درد سے میری روح پرواز کر گئی۔
 اگلے دن مجھے کفنایا گیا جس طرح کفنایا جاتا ہے۔ اس کے بعد دفنایا گیا جس طرح دفنایا جاتا ہے۔ میرے عزیز و اقارب میری موت پر اسی طرح روئے جس طرح رویا جاتا ہے۔ اب میں اپنی قبر میں آرام سے پڑا ہوں۔ البتہ.... کبھی کبھی ہڈیاں ضرور درد کرنے لگتی ہیں۔
 قبر میں آنے والے مُردوں کی ہڈیوں میں بھی اسی طرح درد ہوتا ہے جس طرح میری ہڈیوں میں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح شہر میں اور سڑکوں پر صوفی ادھم مچاتی پھر رہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK