• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ : خوشبو کا کرب

Updated: August 28, 2024, 1:03 PM IST | Nasreen Bano | Mumbai

پلاؤ کی خوشبو سے اسے سخت نفرت تھی۔ جبکہ یہی پلاؤ ساری دنیا کے انسانوں کے لئے ایک مرغوب ڈش ہے۔ پلاؤ کی یہ خوشبو اس معصوم بچی منو کے دل و دماغ کو مکدر کر دیتی ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

پلاؤ کی خوشبو سے اسے سخت نفرت تھی۔ جبکہ یہی پلاؤ ساری دنیا کے انسانوں کے لئے ایک مرغوب ڈش ہے۔ پلاؤ کی یہ خوشبو اس معصوم بچی منو کے دل و دماغ کو مکدر کر دیتی ہے۔
 ہر دو چار دن پر اور کبھی تو روز بہ روز ہی پلیٹ سے ڈھکے ہوئے پرات میں خوشبو بکھیرتا ہوا پلاؤ اپنی موجودگی کا احساس کرا جاتا۔ تب منو کا من بلبلا اٹھتا۔ اور وہ گھر سے باہر نکل جاتی۔
 جب گلیوں میں دوسرے گھروں کے چولہے کے دھوئیں کے ساتھ ہی سبزی کے چھونکنے کی گندھ اس کے ذہن میں اٹھ رہی پلاؤ کی خوشبو پر ایک دبیز چادر ڈال دیتی تب کہیں جا کر اس کی سانسیں استوار ہوپاتیں۔ ورنہ اسے گھٹن محسوس ہوتی۔
 یہ کیسی بے بسی تھی جو سات آٹھ برس کی منو کو یہ بات اپنی ماں سے کہنے میں ہچکچاہٹ ہورہی تھی۔
 جب تک اس کا ابودھ ذہن اس بات سے بے خبر تھا کہ یہ پلاؤ کہاں سے آتا ہے تب تک اسے بڑی بے صبری سے انتظار رہتا تھا کہ کب پلاؤ آئے اور وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ بانٹ کر کھائے۔
 ڈھلتی شام کے ساتھ اندھیرا لپکنے کو تھا۔ اماں جلدی جلدی تیار ہوئیں۔ چادر لپیٹا، پان کا ڈبہ ہاتھ میں لیا اور دروازے کی طرف تیزی سے بڑھ گئیں۔
 ’’کہاں جائے رہیو اماں۔ ہم کا بھی لے چلو۔‘‘ منو نے آواز دی۔
 ’’تو کہاں جیہو۔ ابا آتے ہوئی ہیں، دکان سے۔‘‘ ماں نے کہا۔
 ’’نہیں اماں سنو ہم کا مارے گی۔ ہم کا اپنے ساتھے لے چلو۔‘‘
 اماں کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ اسے سمجھاتیں۔ ججمان کے یہاں سے دو آدمی آکر دروازے پر کھڑے تھے۔ اماں نے منو کے کان میں اوڑھنی باندھی اور ساتھ لے کر چل پڑی۔
 منو خوش تھی۔ اماں آج اسے پہلی بار اپنے ساتھ لے کر جارہی تھی۔ گلیاں، نالے اور سڑکیں پار کرکے وہ رکشے پر سوار ہوئی اور تقریباً آدھ گھنٹے بعد اس نامعلوم جگہ پر پہنچی، جہاں پہلے ہی سے بہت سارے لوگوں کی بھیڑ جمع تھی۔ عورتیں اور لڑکیاں آہ و بکا کر رہی تھیں۔ اماں نے اسے ایک خاص جگہ پر کچھ بچوں کے ساتھ کھیلنے کو چھوڑ دیا۔ جہاں وہ کھیلتے کھیلتے جانے کب سوگئی۔
 جب نیند کھلی تو اماں کو کام میں مصروف پایا۔ وہ مردے کو غسل کرا رہی تھی۔ ماں نے سب سے پہلے مردے کو چادر سے الگ کیا۔ مردے کی ناک کو کپڑے سے صاف کیا۔ اسے پلنگ سے اتار کر تختے پر لٹا دیا۔ جسم کے کپڑے کو بیچ سے چاک کیا۔ اسے جسم سے الگ کرکے سفید چادر اوڑھا کر نہلانے لگی۔ بالوں میں صابن کی جگہ مٹی کا لیپ لگایا۔ کئی عورتوں نے باری باری سے مردے پر پانی ڈالا۔ نہلانے کے بعد ناک اور کان میں روئی لگائی۔ دونوں پیروں کو دھاگے سے باندھ دیا۔ اسی کے ساتھ اس کا کام ختم ہوا۔ وہ مردے کے جسم سے اترے کپڑے اور کچھ دوسرے خشک کپڑوں کی گٹھری لے کر گھر لوٹ آئی۔ راستے میں منو خود کو ماں سے الگ کئے رہی۔
 منو غسل کے سارے عمل کو کراہیت کے باوجود بت بنی ایک ٹک دیکھتی رہی تھی۔ گھر لوٹ کر ماں نے پہلے کپڑوں کی گٹھری کھول کر انہیں دھویا پھر الگنی پر پھیلا دیا۔ بعد میں خود غسل کیا۔

یہ بھی پڑھئے: افسانہ : مختصر یہ کہ....

منو کو الگنی پر پھیلے ہوئے کپڑوں سے وہی مردہ نظر آیا۔ اب تک کے اس عمل نے ذہن پر ایسا گہرا اثر ڈالا کہ وہ بیمار ہوگئی۔
 ماں مردہ نہلانے والے اسی گھر سے تیسرے دن ڈھیر سارا کھانا لائی۔ وہی خوشبو دار پلاؤ.... جو نہ معلوم کب سے اسکے دل و دماغ کو ایک غیر محسوس گرفت میں لئے اپنی خوشبوؤں کی ضرب کاری لگا رہا تھا۔ ساتھ میں میٹھا پلاؤ، سالن اور روٹیاں بھی۔
 ’’اماں یہ کام تم چھوڑ دو۔ ورنہ ہم مر جائیں گے۔‘‘ ایک دن ہمت جٹا کر منو نے اپنے دل کی بات کہہ دی۔
 ’’بڑی آئی مرنے والی۔ مر جا۔ تجھے بھی نہلا کے دفن کر دیں گے۔‘‘ ماں کا جواب ممتا بھرے دل سے خالی تھا۔
 اب اکثر وہ اپنی ہم عمر سہیلی صائمہ کے گھر چلی جاتی۔ اس کے گھر کی پکی ہوئی دال اور چاول مانگ کر کھا لیتی۔ اور کہتی اگر تو کہے تو بدلے میں سالن اور پلاؤ لا دوں۔
 ’’نہیں ہم لوگ تمہارے گھر کا نہیں کھاتے۔‘‘ صائمہ نے جب ایسا کہا تو اس کے ذہن کو ایک نیا سوال پریشان کر گیا۔
 اسی ذہنی اور قلبی اضطراب کے طوفان میں اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ کٹ رہا تھا۔ دیکھتے دیکھتے زندگی کا وہ پڑاؤ بھی آگیا۔ جہاں پہنچ کر ہر لڑکی سماجی تقاضوں کے تحت اپنی نئی زندگی کا آغاز کرتی ہے۔ ماں نے اس کے لئے رشتہ تلاش کرنا شروع کر دیا تھا۔
 اپنی شادی کی خبر سن کر اسے بے حد مسرت ہوئی۔ مسرت کی نئی لہروں کے اس احساس سے چند لمحوں کیلئے وہ اپنی حالیہ زندگی کے تلخ تجربات کو فراموش کرگئی۔ اسے محسوس ہوا کہ شاید اذیت ناک زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنے کا موقع قدرت نے فراہم کر دیا ہے۔
 یوں تو اس کی سسرال والے بھی ذات کے نائی تھے۔ لیکن لڑکا چوڑی کا کام کرتا تھا۔ وہ خوش تھی کہ شاید وہ اس کربناک زندگی سے رہائی پا لے گی۔
 دلہن کے جوڑے میں منو کا نسوانی حسن نکھر آیا تھا۔ گھونگھٹ میں نیم پوشیدہ اس کا حسین چہرہ ایسا لگ رہا تھا جیسے بادلوں کی اوٹ میں نور افشاں چاند کا ٹکڑا چھپا ہو۔
 سرخ دوپٹے میں اس کا چہرہ اتنا دلکش لگ رہا تھا کہ اسے دیکھ کر کسی اجنبی کو یہ احساس بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ ایک غریب کی بیٹی ہو۔ شب رفاق میں سجی سنوری منو اپنی آئندہ زندگی کے حسین خوابوں کی ترتیب میں مشغول تھی۔ تبھی منو کے دل کی کشتی اس وقت غم میں ڈوب گئی جب اس نے پہلی بار اپنے شوہر کو شراب کے نشے میں چور پایا۔ چاند شرمندہ ہو کر بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا۔ اس نے ڈگمگاتے قدم اور لرزتے جسم سے منو کو اس طرح اپنے حصار میں قید کر لیا جیسے کوئی شکاری پھڑپھڑاتے پرندے کو پنجرے میں قید کر لیتا ہے۔ اس کی تمنائیں پھڑپھڑا کر دم توڑ گئیں۔
 جلد ہی منو کی زندگی بھکمری کی دہلیز پر آگئی۔ اس کا شوہر اپنی کمائی جوئے، شراب اور پوری کچوڑی میں اڑا رہا تھا۔ گھر میں اتنا ہی دیتا جس سے روٹی دال چل پاتی۔ یا کبھی کبھی وہ بھی دینا بھول جاتا تھا۔ ان نامواقف حالات اور کشمش کے بیچ اس نے ایک بچے کو جنم دیا۔ اور اس کی پرورش کرنے لگی لیکن اس کی پرورش بھی اس فاقہ کشی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔ میکے میں اس کی ماں بھلے ہی مردہ نہلاتی تھی اور اپنے بچوں کی پرورش کرتی تھی لیکن وہاں بنیادی ضرورتوں کی کبھی کمی نہیں ہوتی تھی۔ یہاں تو بچے کی مالش کیلئے تیل بھی میسر نہیں۔
 ماں کے تئیں دل میں حقارت کی جڑ مضبوط ہوتی گئی مگر نفرت کے سبب وہ کھل کر کبھی کچھ کہہ نہیں پاتی تھی۔
 ایک دن اس کی ساس نے کہا کہ مَیں بچوا دیکھ لوں گی تو کیوں نہیں دو چار گھروں میں جھاڑو برتن کے کام سنبھال لیتی۔ کھرچا بھی نکل آئے گا اور بچوا کی پرورش بھی آسان ہوجائے گی۔ اس نے ویسا ہی کیا۔

یہ بھی پڑھئے:افسانہ: سفرِ زندگی

ابھی ایک ہی گھر میں کام مل پایا تھا جسے وہ کرنے لگی دوسرے گھروں میں بھی کام کی بات کرنے گئی اور کام مل بھی گیا۔ اسی دوران بری نظر کا سایہ اس کی جواں عمر کو اثر انداز کرنے لگا۔ کسی طرح وہ عزت کا بوجھ اٹھائے لوٹ آئی۔ ماں نے کام چھوڑ دینے کی صلاح دے کر اس کو راحت بخشی۔
 جلدی ہی محلے کی ایک عورت کے ساتھ وہ مزدوری کا کام کرنے لگی کیونکہ بغیر کام کئے دو وقت کی روٹی کا گزارا ناممکن تھا۔ مزدوری کا بوجھ اٹھانے کی اسے قطعی عادت نہیں تھی، اس نئے تجربے سے وہ تھک کر چور ہوجاتی۔ وہ دن بہ دن کمزور ہوتی چلی گئی۔ ایک دن اس نے سوچا کیوں نہ کچھ دن ماں کے پاس چل کر رہا جائے۔ جسم کو آرام بھی مل جائے گا اور دل بھی بہل جائے گا۔ اب وہ میکے جانے کیلئے بے چین ہو اٹھی۔ لہٰذا ساس ماں سے اجازت لے کر وہ میکے آگئی۔
 ماں اپنی بیٹی کی آمد پر بہت خوش تھی۔ جب بھی باہر سے آتی۔ اس کے جھولے اور آنچل میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا۔ منہ میں پان چباتی ہوئی سامان سے لدی پھندی وہ خوشی خوشی گھر میں داخل ہوتی تھی۔
 ایک دن اماں پھر وہی خوشبو دار پلاؤ لے کر آئی۔ منو بے چین ہو اٹھی۔ اس نے پلیٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن ہاتھ رک گئے.... وہی مردہ.... وہی وحشت....
 منو کا چہرہ تمتما گیا اور ہونٹ بھینچ گئے۔ مٹھیاں تن گئیں۔ ماں اس کی یہ حالت دیکھ کر گھبرا گئی: ’’کیا ہوا منو....؟‘‘
 منو ایک ٹک پلیٹ کو گھور رہی تھی اور پھر اس کی آنکھیں چھلک آئیں۔ آنسو کی ایک بوند پلیٹ پر ٹپک پڑی۔
 ’’ماں! کیا ہمارے نصیب میں مردے کا ہی کھانا لکھا ہے؟‘‘
 ’’ہاں کیونکہ ہماری ذات ہی یہی ہے....‘‘ ماں نے آہ بھری۔
 منو نے آنسو پونچھے اور تن کر کھڑی ہوگئی۔ اس نے ماں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، ’’نہیں ماں.... یہ ہماری ذات نہیں ہے.... مَیں محنت کروں گی ماں.... مَیں مزدوری کروں گی....‘‘
 منو گھر سے باہر نکل گئی۔ پاس کے گھر سے دھواں اٹھا۔ سبزی چھونکنے کی خوشبو پھیل گئی۔ منو کے قدم رک گئے۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں اور گہری سانس لی.... مانو چھونک کی خوشبو کو روح میں بسا لینا چاہتی ہو۔
 اس کے ہونٹوں پر دھوپ جیسی مسکراہٹ تھی۔ اور چہرہ ایک نئے عزم سے دمک رہا تھا۔
(ماخوذ: بند مٹھی)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK