میرے ساتھ بہت بار ایسا ہوا ہے کہ مَیں اپنے ہی دھیان یا کام میں مگن اور سامنے والا کیا کہہ رہا ہے، سے بے نیاز رہتی ہوں جو کئی مرتبہ دوسروں کو غلط فہمی میں مبتلا کر دیتی ہے۔
EPAPER
Updated: December 04, 2024, 1:04 PM IST | Maryam Bint Mujahid Nadwi | Mumbai
میرے ساتھ بہت بار ایسا ہوا ہے کہ مَیں اپنے ہی دھیان یا کام میں مگن اور سامنے والا کیا کہہ رہا ہے، سے بے نیاز رہتی ہوں جو کئی مرتبہ دوسروں کو غلط فہمی میں مبتلا کر دیتی ہے۔
وہ ایک خوبصورت شام تھی اور بارش کے چھینٹوں نے ماحول میں ایک خوشی کا احساس پیدا کردیا تھا۔ چائے کے برتن سمیٹ کر مَیں نے صحن کی صفائی کی۔ دن میں دس بار مجھے یہ کام کرنا ہوتا ہے جس سے کبھی کبھی مَیں چِڑ جاتی ہوں۔ خیر مَیں گھر کے بازو والے حصہ میں چاچی کو اطلاع دینے چل دی کہ آج امی، یعنی میری ساس کی دور کی بہن ملنے آنے والی ہیں۔
عشاء کی نماز کے بعد سب انتظار میں بیٹھے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی اور عمار، چاچی کا پوتا، دوڑتا اور چلّاتا ہوا آیا اور خالہ جمیلہ کے آنے کی خبر سنائی۔
کھانے میں مَیں نے بہت اہتمام کیا تھا کیونکہ امی نے خاص تاکید کی تھی کہ کسی چیز کی کمی نہیں ہونی چاہئے۔ کھانے میں چکن کا قورمہ، دو قسم کے اچار، تین قسم کی سبزیاں اور میٹھا شامل تھا۔ خالہ کو اچار بہت پسند ہے، اس لئے خاص طور پر دو قسم کے اچار رکھے گئے تھے۔ یہ سب بناتے ہوئے میری حالت خراب ہوگئی تھی۔ کھانے کی میز پر تعریفی کلمات سن کر میری ساری محنت وصول ہوگئی۔ کھانے کے بعد چائے کا دور چلا۔ مَیں چائے کے کپ رکھنے کچن میں گئی تو چاچی بھی میرے پیچھے آگئیں، ’’انجم، خالہ جمیلہ کچھ زیادہ ہی لیکچر نہیں دیتیں؟‘‘ یہ بات انہوں نے کس لہجہ میں کہی یہ تو میں سمجھ نہ پائی کیونکہ میں کل کے کھانے کی تیاری کررہی تھی لیکن شاید میری ہنسی، جو کھانے کی تعریف سن کر کب سے میرے چہرے کا احاطہ کر رہی تھی بے خیالی میں قہقہہ میں بدل گئی اور اس کو خالہ جمیلہ نے جو شاید ہاتھ دھونے کچن میں آئی تھیں، کچھ اور ہی سمجھ لیا تھا۔ وہ تو واپس پلٹ گئیں اور چاچی بھی برا سا منہ بنا کر ا ن کے پیچھے ہی نکل گئیں اور پیچھے میں اپنی غائب دماغی والی عادت کو کوسنے لگی۔
یہ بھی پڑھئے:افسانہ: لو اسٹوری
میرے ساتھ بہت بار ایسا ہوا ہے کہ مَیں اپنے ہی دھیان یا کام میں مگن اور سامنے والا کیا کہہ رہا ہے، سے بے نیاز رہتی ہوں جو کئی مرتبہ دوسروں کو غلط فہمی میں مبتلا کر دیتی ہے۔ مَیں نے خود سے عہد کیا کہ اب ایسا نہیں ہوگا، ایسا مَیں پہلے بھی کرچکی تھی مگر ناکام۔
اگلی صبح ناشتہ کے بعد امی نے بازار جانے کا پلان بنایا اور مَیں نہ چاہنے کے باوجود منع نہیں کرپائی۔ مجھے اپنی کہانی کیلئے کوئی پلاٹ نہیں مل رہا تھا، اس پر کام کرنا تھا مگر شاید آج نہیں۔ مَیں کوئی مشہور مصنفہ نہیں ہوں مگر مجھے لکھنے کا اتنا شوق ہے کہ مَیں لکھنا نہیں چھوڑ سکتی اور کئی بار کہانی ریجیکٹ ہونے کے بعد بھی کچھ دن کی اداسی کے بعد کاغذ قلم لے کر بیٹھ جاتی ہوں۔ بازار میں قدم رکھتے ہی کل شام والی بارش کی وجہ سے ہونے والی ٹھنڈ کہیں گم ہوگئی اور پسینے میں شرابور ہم مناسب دکان کیلئے گھومتے رہے۔
ایک دکان میں ڈیڑھ گھنٹہ سر کھپانے کے بعد خالہ جمیلہ کو ایک جوڑا پسند آیا جس کی قیمت انہیں مناسب نہیں لگ رہی تھی۔ چاچی جو کب سے ان کے نخرے دیکھ رہی تھیں، میری طرف دیکھ کر اشارے کرنے لگیں اور مَیں اس گلابی چکن کے کام والے، نازک فراک کو دیکھنے میں اتنی مگن تھی کہ مَیں نے پھر مسکرانے کی غلطی کردی۔ پتہ نہیں کیوں مجھے کیا محسوس ہوا میں نے ترچھی نظروں سے خالہ جمیلہ کو دیکھا جو بدقسمتی سے مجھے گھورے جا رہی تھیں۔ میرا ہاتھ اپنے ماتھے تک جاتے جاتے رک گیا اور پھر سے غلطی ہونے کے احساس نے مجھے گھیر لیا۔ کوئی اتنا بھی بے حس کیسے ہوسکتا ہے کہ اپنے آس پاس سے ہی بے نیاز ہوجائے اور خیالوں کی دنیا میں اتنا کھو جائے کہ اس کو اپنے آس پاس کی دنیا سے کوئی سروکار ہی نہ رہے۔
اسکول اور کالج کے زمانے میں میری کسی بھی مضمون میں گم ہوجانے والی یہ عادت نے جتنی مدد کی تھی اتنی ہی اب تکلیف دے رہی ہے۔ میری ساری سہیلیاں دعا کرتی تھیں کہ کاش ان کے پاس بھی میری یہ غیر معمولی عادت ہوتی۔ کیونکہ پڑھائی کرتے وقت وہ کسی بچہ کے رونے سے ہی ڈسٹرب ہوجاتی تھیں جبکہ گھر کے قریب تعمیراتی کام کی آوازیں بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ پاتیں۔
خیر گھر آکر شاید خالہ وہ واقعہ بھول گئی تھیں جو انہوں نے مجھے کھیر بنانے کا طریقہ سکھانے کی فرمائش کردی۔ مَیں بھی سب بھول کر انہیں سامان دینے لگی۔ جب سب ہوگیا تو انہوں نے مجھ سے کہا، ’’جاؤ تم جاکر سب کو بلا لو، مَیں اس میں چمچہ ہلاتی ہوں۔‘‘ مسکرا کر کہتی وہ مجھے بہت پیاری لگیں۔
مَیں اسی سوچ میں گم کچن سے باہر آئی تو شبنم، امی کی بھانجی، جو خالہ سے ملنے آئی تھی، نے ہنس کر کہا ’’یار بھابھی یہ خالہ کھیر ہی بنارہی ہیں نا؟ کتنی دیر سے کچن میں ہیں۔‘‘ میرے دماغ میں ایک تیز حرکت ہوئی اور ہونٹوں پر آتی تبسم کو سیکنڈ میں بکھرنے سے روک کر مَیں نے اسے جواب دیا، ’’خالہ نے اتنی اچھی کھیر بنائی ہے اور اتنی زیادہ مقدار میں بنائی ہے وقت تو لگے گا۔‘‘ خالہ وہاں تھیں یا نہیں لیکن دل کی تسلی کے لئے مَیں یہ کہہ کر وہاں سے نکل گئی۔
’’کھیر کی خوشبو سونگھ کر مجھے تو انتظار نہیں ہو رہا بھئی، تم چاچی کے پورشن سے سب کو بلا لو، مَیں صحن صاف کرلوں پھر وہیں بیٹھیں گے۔‘‘ آخر تک آتے ہوئے میرا چہرہ پھر مسکراہٹ سے کھل گیا تھا۔ مجھے اپنی کہانی کے لئے نیا پلاٹ مل گیا تھا بھلے ہی مجھے خالہ سے دوبارہ اس کھیر بنانے کی ترکیب طعام لینی پڑی!