Updated: March 19, 2025, 10:55 AM IST
| Banaras
مدینہ فلائٹ کا اعلان ہوا تو ہم مصلیٰ سے باہر نکلےاور دوبارہ جہاز پہ سوار ہوئے۔ جہاز کے پہیوں نے جب مدینہ کی سر زمین کو چھوا تو مانو دل کو جیسے پنکھے لگ گئے۔ جہاز کی رفتار کے ساتھ گویا دل بھی دوڑ لگا رہا تھا۔ اس وقت دل کی بے تابی کا عالم
مت پوچھئے۔ مدینہ شہر اب ہمارے سامنے ہے۔ بچپن میں اقبال عظیم کی یہ غزل جسے ہم ناسمجھی میں علامہ اقبال کی سمجھتے تھے بہت گنگناتے تھے: مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ/ جبیں افسردہ افسردہ قدم لغزیدہ لغزیدہ!
دنیا کے ہر گوشے میں بسنے والے مسلمان کو ایک خواہش ضرور بے کل کئے دیتی ہے، ارض مقدس کو آنکھوں سے دیکھنے کی چاہ، اللہ کے پہلے گھر کے انوار سے خود کو بھیگتے محسوس کرنے کی تمنا، شہر نبیؐ کی فضا میں سانس لینےکی آرزو، ہزاروں برس پہلے کے ان مقدس افراد کی جائے سکونت پر جاکر ان کی خوشبو لینے کی خواہش ہر مسلم کے دل کے نہاں خانے میں کروٹ ضرور لیتی ہے۔ کچھ دنوں پہلے تک میں بھی اسی جذبہ شوق سے تڑپتی تھی، اس مقدس سفر کے لئے منصوبے بناتی تھی مگر پھر اب دھیرے دھیرے اس خواب کی تعبیر کا وقت آن پہنچا اور ۲۳؍ جنوری کی ایک سرد رات کو ہم نے ارض حرم کے لئے اپنے سفر کا پہلا مرحلہ شروع کیا۔
۲۳؍ جنوری ۲۰۲۴ء
یہ ایک ٹھنڈی کپکپاتی رات تھی۔ ٹھنڈ اس قدر تھی کہ ہم بس یہی سوچ سوچ کر خوش ہوتے کہ بس چند دنوں میں ہمیں اس ہڈیوں کو گلادینے والی کڑاکے کی ٹھنڈ سےنجات مل جائے گی۔ رات ۱۱؍ بجے ہمارا سفر شروع ہوا۔ سفر کی ابتدا بہت ہنگامہ خیز اور کبھی نہ بھلائی جانے والی ہے۔
ہمیں جس ٹرین سے دہلی جانا تھا وہ ٹرین پہلے دہلی سے یہاں بنارس آتی ہے اور پھر وہی بنارس سے دہلی کو جاتی ہے۔ اس ٹرین کے بنارس پہنچنے کا ٹائم ریلوے کی ویب سائٹ پر ہمارے مقررہ وقت یعنی بنارس سے چھوٹنے کے ٹائم سے کافی آگے کا دکھائی دے رہا تھا جس کی وجہ سے ہم شش و پنج میں تھے کہ جب وہ ابھی دہلی سے بنارس پہنچی نہیں تو وقت مقررہ پر چھوٹے گی کیسے؟ اور ادھر بنارس سے چھوٹنے کا ٹائم وہی گیارہ بجکر ۱۰؍ منٹ ہی دے رہا تھا جسے ہم نیٹ ورک کی غلطی سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے ٹائم اپ ڈیٹ نہیں کیا مگر پھر ایک خدشے کے تحت ہم نے مقررہ وقت پر ہی اسٹیشن جانا مناسب سمجھا۔ چنانچہ ہم گیارہ بجے گھر سے نکلے، گیارہ بجکر ۵؍ منٹ پر اسٹیشن پہنچ گئے۔ ٹرین کے چلنے کا اعلان ہورہا تھا مگر اسٹیشن پر موجود کچھ افراد کا کہنا تھا کہ یہ وہ والی ٹرین نہیں، مگر پھر ہم نے دیکھا کہ یہ وہی تھی۔ ہم دوڑتے ہوئے الیکٹرک سیڑھیوں پر چڑھے، ادھر ٹرین چل دی، چل کر رکی جب تک ہم سیڑھی سے اترتے پھر چل دی۔ ہماری حالت غیر ہونے لگی، ابو سیڑھیوں سے جھانک کر زور سے بولے، ٹرین روک دو، وہاں کچھ آدمیوں نے بھی آواز بلند کی، اللہ نے گارڈ کے دل میں رحم ڈال دیا، اس نے پہلے تو انکار کیا مگر پھر کچھ ڈانٹ کر ٹرین روکی، ہم دوڑتے بھاگتے سب سے پہلا جو ڈبہ تھا اسی میں سوار ہوگئے۔
ٹرین میں پہنچ کر ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا، صرف چند لمحوں کی بات تھی، اگر ٹرین چھوٹ جاتی تو کیا ہوتا یہ سوچ کر آج بھی بدن پر جھرجھری چھا جاتی ہے، یہ بات کبھی ہماری سوچ میں بھی نہیں آسکتی تھی کہ ہمارے کہنے پر ٹرین روک دی جائے۔ اب ہم نے اندر کا جائزہ لیا، یہ جنرل ڈبہ تھا اور پوری بوگی خالی تھی، ہماری سیٹ کافی ڈبوں کے بعد تھی تو فیصلہ ہوا کہ اگلے اسٹاپ پر اتر کر اپنے مطلوبہ ڈبے تک پہنچا جائے۔ اگلا اسٹیشن گیان پور تھا جہاں ٹرین کا اسٹاپ محض ۲؍ منٹ کا تھا، ہم نے ارادہ کیا ہم وہاں اترکر گارڈ سے استدعا کریں گے کہ وہ ہمیں اپنے ویگن تک جانے کی مہلت دے دے، بہرحال گیان پور آیا، ٹرین رکی، ہمارا سامان بھی بہت تھا، ہم اترے، گارڈ نے کہا، سلیپر ڈبے میں چڑھ جاؤ وہاں سے ہوتے ہوئے چلے جانا، ہم دوڑتے ہوئے آگے بڑھے مگر غلط فہمی میں جس ڈبے میں چڑھے وہ ابھی جنرل کا ہی تھا، اندر آگے چلتے گئے مگر جنرل سے سلیپر کا راستہ بند تھا، ادھر ٹرین چل دی، چار و ناچار ہم وہیں بیٹھ گئے، پھر یہ طے ہوا کہ اگلا اسٹاپ اب الہ آباد کا ہے وہاں اتر کر ہم اپنے کوچ میں چلے جائیں گے، مگر پھر الہ آباد اسٹیشن سے پہلے ایک بجکر ۲۲؍ منٹ پر ٹرین ایک مقام پر رکی۔ گارڈ سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ کراسنگ ہے، ابھی کچھ دیر لگے گی، ہم موقع غنیمت سمجھ کر ساز و سامان کے ساتھ اترے، ایک دو ڈبے اس کے بعد اور جنرل کے تھے، پھر سلیپر کوچ شروع ہوئے تو ہم ایک ڈبے میں چڑھ گئے اور پھر اندر ایک کے بعد ایک ڈبے سے ہوتے ہوئے چلے، کئی ڈبوں کے بعد اے سی کوچ شروع ہوئے، پھر اس کے چھ ڈبوں کے بعد ہمارا مطلوبہ ڈبہ آیا۔ ہم نے بے اختیار اللہ کا شکر ادا کیا جس نے ہمیں ایسے وقت میں بچا لیا تھا کہ لگتا تھا کہ اب کوئی سبیل نہیں۔ اب ہم نے اطمینان کا سانس لیا، گھر والوں کو مطلع کیا، پھر اپنی اپنی سیٹ سنبھالی اور سونے کی کوشش کی مگر پے درپے ہنگامی حالات پیش آنے کی وجہ سے نیند جیسے روٹھ سی گئی تھی، پھر الہ آباد اسٹیشن آیا اور وہاں سے ٹرین روانہ ہوئی تو بالآخر نیند نے بھی ہمیں شرف قبولیت بخشا۔
۲۵؍ جنوری ۲۰۲۴ء
مَیں اس وقت ریاض ایئر پورٹ کے مصلیٰ (پریئر روم) میں بیٹھی آج کی روداد لکھ رہی ہوں۔ اس وقت پونے ایک بج رہے ہیں، ہم لوگ شام میں تقریباً نو بجے دہلی پہنچے اگلے روز بارہ بجے ہم ایئر پورٹ کے لئے نکلے، ہم لوگ وقت سے کافی پہلے پہنچ گئے تھے مگر ہمارا وقت اچھا گزرا، کاروائیاں مکمل کرائیں، ایئرپورٹ پہ گھومے پھرے، پھر وہ لمحہ آگیا جب ہمیں جہاز پہ سوار ہونا تھا، میںاس نئے تجربے سے پوری طرح لطف اندوز ہوئی، ہر چیز کو پرکھا، مشاہدہ کیا، جہاز میں ونڈو سیٹ طے شدہ ٹکٹ کے مطابق ملی، فلائٹ سات بجے ہمیں لے کر اڑی، لمحہ بہ لمحہ روشنیاں چھوٹی ہوتی گئیں۔ سفر بہت لمبا تھا، تقریباً ۵؍ گھنٹہ۔ امی جان تو سوگئیں مگر ایکسائٹمنٹ کے مارے میری آنکھوں میں نیند کہاں، کھڑکی سے باہر صرف تاریکی تھی جس کی وجہ سے بوریت سی ہونے لگی تو پھر موبائل کی طرف متوجہ ہوئی، کچھ مطالعہ کیا۔ بہرحال جب جہاز اترنے کو ہوا، میری دلچسپیاں پھر بڑھ گئیں، آسمان سے ریاض کی نگاہوں کو خیرہ کر دینے والی روشنیوں نے ہمیں مبہوت کردیا۔
جب ہم جہاز سے باہر آئے تو سامنے ہی عربی لباس میں موجود ایک شخص کو دیکھ کر اس احساس سے مسرور ہوگئے کہ اب ہم ایک عرب ملک میں آگئے۔ ہماری مدینہ کی فلائٹ میں ابھی پانچ گھنٹے تھے۔ یہ وقت ہم نے ایئر پورٹ کے مصلیٰ میں بیٹھ کر گزارا، مصلیٰ میں بہت سی عرب خواتین سے سابقہ پڑا، مَیں جو اس زعم میں تھی کہ مَیں نے عربی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے مَیں بآسانی ان کی باتیں سمجھ جاؤں گی میرا یہ گمان اسی لمحے ڈھیر ہوگیا۔ اور اس وقت سمجھ آیا کہ کوئی زبان صرف پڑھ لینا اور بات ہے اور اس میں گفتگو کرنا اور بات ہے۔ بہر حال مدینہ فلائٹ کا اعلان ہوا تو ہم مصلیٰ سے باہر نکلےاور دوبارہ جہاز پہ سوار ہوئے۔
جہاز کے پہیوں نے جب مدینہ کی سر زمین کو چھوا تو مانو دل کو جیسے پنکھے لگ گئے۔ جہاز کی رفتار کے ساتھ گویا دل بھی دوڑ لگا رہا تھا۔ اس وقت دل کی بے تابی کا عالم مت پوچھئے۔ مدینہ شہر اب ہمارے سامنے ہے۔ بچپن میں اقبال عظیم کی یہ غزل جسے ہم ناسمجھی میں علامہ اقبال کی سمجھتے تھے بہت گنگناتے تھے: مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ/ جبیں افسردہ افسردہ قدم لغزیدہ لغزیدہ!
بچپن میں سیرت کی کتابیں، پیغمبر عالم، الرحیق المختوم، مہر نبوت، در یتیم، سب پڑھتے ہوئے شہر رسول دیکھنے کی خواہش میں دل تڑپتا رہتا تھا آج وہ منظر نگاہوں کے سامنے ہے، پیارے رسولؐ کے شہر میں ہمارے قدم ہیں، آسمان کی طرف نگاہ اٹھاؤ، ہواؤں کی خوشبو محسوس کرو کہ اسی فضا میں میرے رسولؐ عربی مدفون ہیں، انہوں نے بھی اسی فضا میں سانس لی اور تصور میں ہم آپ کی سانسوں کی خوشبو محسوس کررہے ہیں۔ مدینے جا کے ہم سمجھے تقدس کس کو کہتے ہیں/ ہوا پاکیزہ پاکیزہ فضا سنجیدہ سنجیدہ!
بذریعہ ٹیکسی ہم فجر کے وقت بھائی کے فلیٹ پر پہنچے۔ مسلسل سفر اور نیند نے ہماری حالت خراب کر رکھی تھی۔ ۲۳؍ تاریخ کو رات میں ہم بنارس سے نکلے تھے اور آج ۲۶؍ تاریخ کو صبح کے وقت ہم منزل مقصود پر پہنچے تھے۔ ناشتہ وغیرہ سے فراغت پاکر لمبی تان کر سوگئے۔ پھر ظہر کے وقت اٹھے، نہا دھو کر اب ہمارا رخ حرم نبویؐ کی طرف تھا۔
اللہ، آج یہ الفاظ لکھتے ہوئے مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ مَیں تھی جو حرمین کے شوق میں تڑپتی تھی اور پھر قسمت نے مجھے وہ دن بھی دکھلا دیا۔ کیسا لگتا ہے یہ لکھنا کہ میرا رخ حرم کی طرف تھا، کیا واقعی میری زندگی میں یہ مبارک دن آیا تھا۔ جوں جوں ٹیکسی حرم کے قریب ہوتی گئی، دل اپنی قسمت پہ نازاں ہوئے جارہا تھا: کہاں میں کہاں یہ مدینے کی گلیاں/ یہ قسمت نہیں تو پھر اور کیا ہے!
اب مسجد نبویؐ کے جمالات نگاہوں کو خیرہ کرنے لگے تھے۔ روضۂ نبیؐ پہ نگاہ پڑی، کیا یہی وہ جگہ ہے جہاں خاتم الانبیاء مدفون ہیں، جہاں آپ کے جانثار ساتھی موت کے بعد بھی رفاقت کا حق ادا کر رہے ہیں، نبیؐ کی تعمیر کردہ مسجد کو ایسی شان و شوکت میں دیکھا تو تصورات میں ہلچل پیدا ہوگئی، سیرت کی کتابوں میں سیرت کے واقعات پڑھ کر ذہن میں حجاز کا جو خاکہ بنایا تھا وہ تو عہد نبویؐ کا تھا، اور اب تو پندرہ سو سال ہونے کو ہیں، قدیمی شکل اب کہاں مل سکتی ہے، وہ مٹی کی مسجد تھی اور یہ ہزاروں گز پہ پھیلی جس کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ عہد نبویؐ کے پورے مدینے پر مشتمل ہے، سنگ مرمر کی عمارتیں، فلک بوس چھتیں، خود کار کھلنے اور بند ہونے والی خوبصورت چھتریاں، چمکتا فرش، سب کچھ نگاہوں کو خیرہ کررہا تھا۔
مسجد نبویؐ میں پہلی نماز پڑھی، وہ نماز جس کے بارے میں پڑھتے آتے تھے کہ اس کا ثواب دیگر نمازوں سے ہزار گنا زیادہ ہے آج پڑھتے ہوئے دل جیسے لرز رہا تھا، یہ سوچ بھی دامن گیر تھی کہ کیا ہماری نمازیں اس مرتبے کو پہنچ سکتی ہیں؟
یہ بھی پڑھئے:عورت اور کار ڈرائیونگ
نماز کے وقت پوری مسجد بھر جاتی ہے مگر کہیں افراتفری کا نشان نہیں، ایک سکون کا عالم ہے، بچے کھیل رہے ہیں، مگر شور و شرابا نہیں، میں ایک ستون سے ٹیک لگائے لوگوں کی آمدورفت دیکھتی ہوں، کبھی روضہ پر نظر پڑتی ہے، یہیں حضرت عائشہؓ رہتی تھیں، کبھی یہ ان کا حجرہ ہوا کرتا تھا اور اسی کے ساتھ دیگر امہات المؤمنین کے حجرے ہوا کرتے ہوں گے، شاید جہاں میں بیٹھی ہوں وہاں آپ کے قدم مبارک پڑے ہوں۔ یہاں کا تو ہر ذرہ قیمتی ہے۔
عشاء کے بعد واپسی ہوئی اور ہم ایک بار نیند کی وادیوں میں اتر گئے۔
اگلے روز ۲۷؍ جنوری کو ہمارا پروگرام مسجد قباء کا تھا۔ حسن اتفاق سے آج سنیچر بھی تھا۔ حدیث میں آتا ہے:
اللہ کے رسولؐ کی عادت مبارکہ تھی کہ ہر ہفتہ کے روز کبھی پیدل ا ور کبھی سوار ہو کر قباء تشریف لاتے اور مسجد میں نماز ادا فرماتے تھے۔ (متفق علیہ)
حضرت ابو امامہ اپنے والد سہل بن حنیف سے روایت کرتے ہیں کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا: جو شخص مسجد قباء میں آکر نماز ادا کرتا ہے اسے ایک عمرہ کا ثواب ملتا ہے۔ (سنن نسائی، باب فضل مسجد قباء)
عصر کی نماز کے بعد ہم قباء پہنچے۔ وہاں تحیۃ المسجد پڑھی، اس کے بعد مغرب کی نماز اور پھر درس سنا، اس درس کی عربی سمجھ میں آئی اور پہلی بار اپنا احساس کمتری کچھ دور ہوا، یہ وہ زبان تھی جو ہم نے اپنی درسی کتابوں میں پڑھی تھی۔
قباء سے ہم نے دوسری تاریخی مساجد کا بھی دورہ کیا جس میں مسجد جمعہ سرفہرست ہے۔ قبا اور مدینہ منورہ کے نام راستہ میں ایک وادی ہے جس کا نام رانونا ہے۔ یہاں سالم بن عوف کا قبیلہ آباد تھا۔ آنحضرتؐ جمعہ کے روز زوال سے کچھ پہلے قباء سے مدینے کو روانہ ہوئے۔ راستہ میں جمعہ کا وقت ہوگیا اور اس وادی میں نماز جمعہ ادا کی۔ اس مقام پر ایک مسجد تعمیر کی گئی ہے جو مسجد الجمعہ کے نام سے مشہور ہے۔ مسجد جمعہ کے بعد ہم نے شاپنگ کے لئے القمہ کا رخ کیا، یہ ایک بڑا اور شاندار کامپلیکس ہے، یہاں سے ہم نے اپنے لئے کئی سامان لئے۔
۲۸؍ جنوری ۲۰۲۴ء
آج ہمارا منصوبہ اخی العزیز کی یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ دیکھنے کا تھا جامعہ اسلامیہ جو والد محترم کی بھی درسگاہ تھی، اس وجہ سے ہمارے دل میں اسے دیکھنے کا اشتیاق تھا، یونیورسٹی بھائی کے فلیٹ سے کچھ ہی فاصلے پر تھی اس لئے ہم پیدل ہی خراماں خراماں تشریف لے گئے، ایک تو یہاں جب باہر نکلو تو پہاڑ دل کو کھینچنے لگتے ہیں، یہ پہاڑ بھی قدرت کی کتنی عظیم نشانی ہیں، ان کو دیکھو تو دل رعب سے بھر جاتا ہے، اونچے، بھاری بھرکم دور دور تک پھیلے ہوئے، یہ پہاڑ ایک ایسا سحر ہیں جن میں انسان ہمہ وقت جکڑا رہتا ہے۔
بہر حال ہم نے جامعہ اسلامیہ کی لائبریری کا دورہ کیا جہاں بھائی جان کا آفس تھا، ہزاروں کتابیں جو ظاہر ہے عربی میں تھیں اور کچھ انگریزی کی، بھائیوں نے کتابوں کی نمبرنگ کی کچھ تفصیلات بتلائیں، آخری منزل پر قدیم مخطوطات تھے، قرآن مجید کے پرانے نسخے، وغیرہ ان سب کا مشاہدہ کیا، تصویریں لیں اور پھر واپس آگئے۔
آج شام میں مسجد نبویؐ کے پاس معرض (میوزیم) میں گئے جہاں گائیڈ نے ہمیں تفصیل کے ساتھ میوزیم میں رکھے گئے ماڈل کے ذریعےجدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مسجد نبویؐ کی ابتدائی تاریخ سے لے کر آج تک کی توسیع اور فن تعمیر کے مراحل کے بارے میں بتلایا، یہ میوزیم ایک تاریخی ورثہ ہے اور آنے والوں کے لئے ایک علمی اور ثقافتی افزودگی ہے۔ ہر ماڈل کو دیکھتے ہوئے ہم گویا خود کو اسی عہد میں محسوس کرتے ہیں۔ اس میں عہد رسول کے مدینہ کا ایک خیالی ماڈل بھی بنایا گیا ہے۔
۲۹؍ جنوری ۲۰۲۴ء
آج ہم جبل احد کے پاس تھے۔ جس کے بارے میں رسولؐ نے فرمایا تھا: احد جبل یحبنا ونحبہ (متفق علیہ)
ترجمہ: احد کو ہم سے محبت ہے اور ہمیں بھی اس سے محبت ہے۔
جبل رماۃ پر پہنچ کر پہلی بار ایسا لگا جیسے ہم کسی تاریخی ورثے کو اس کی اصل شکل میں دیکھ رہے ہیں، ورنہ باقی سب آثار کی تو شکلیں بدل گئی ہیں۔
بدر کی ذلت آمیز شکست کے بعد مشرکین غیظ و غضب میں کھول رہے تھے اس لئے انہوں نے متفقہ فیصلہ کیا کہ مسلمانوں سے ایک بھر پور جنگ لڑ کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کریں، اس جنگ میں مشرکین تین ہزار جبکہ مسلمان صرف سات سو تھے، اللہ کے نبیؐ نے اسلامی لشکر کے مشرق میں واقع ایک چھوٹی سی پہاڑی پر جو اب جبل رماۃ کے نام سے مشہور ہے پچاس تیر اندازوں کو تعینات فرمایا تھا اس کا مقصد آپ کے ان کلمات سے واضح ہے کہ ہماری پشت کی حفاظت کرنا، اگر دیکھو کہ ہم مارے جارہے ہیں تو ہماری مدد کو نہ آنا اور اگر دیکھو کہ ہم مال غنیمت سمیٹ رہے ہیں تو ہمارے ساتھ شریک نہ ہونا۔ صحیح بخاری کے الفاظ ہیں:
اگر تم لوگ دیکھو کہ ہمیں چڑیاں اچک رہی ہیں تو بھی اپنی جگہ نہ چھوڑنا یہاں تک کہ میں بلا بھیجوں اور اگر تم لوگ دیکھو کہ ہم نے قوم کو شکست دے دی ہے اور انہیں کچل دیا ہے تو بھی اپنی جگہ نہ چھوڑنا یہاں تک کہ میں بلا بھیجوں۔ (الرحیق المختوم)
لیکن عین اس وقت جب یہ مختصر سا اسلامی لشکر اہل مکہ کے خلاف تاریخ کے اوراق پر ایک اور شاندار فتح ثبت کررہا تھا تیر اندازوں کی اکثریت نے ایک خوفناک غلطی کا ارتکاب کیا جس سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور مسلمانوں کو مال غنیمت حاصل کرتے دیکھ کر وہ اپنی جگہ چھوڑ کر دیگر مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوگئے اس طرح سے مسلمانوں کی پشت خالی ہوگئی اور خالد بن ولید جو اس وقت اسلام کے دائرے میں نہیں آئے تھے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی لشکر کی پشت پر جا پہنچے جس کی وجہ سے مسلمان آگے اور پیچھے دونوں طرف سے گھیرے میں آگئے۔
آج جبل رماۃ پر کھڑے ہم تصور میں انہی لمحات میں تھے، یہی وہ جگہ ہے جہاں حضور اقدسؐ کا دانت شہید ہوگیا مگر نبیؐ رحمت کی زبان پر تھا: رب اغفر لقومی فانھم لا یعلمون۔ (اے اللہ میری قوم کو بخش دے۔ وہ نہیں جانتی) اس مقام پر ابو عبیدہؓ نے اپنے دانتوں سے اللہ کے رسولؐ کے چہرے سے کڑیاں کھینچ کر نکالی ہوں گی، اس مبارک جگہ پر ابوطلحہ نے اپنے آپ کو رسولؐ اللہ کے لئے سپر بنا لیا تھا، یہ سوچ دل کو کیسے تڑپاتی ہے کہ اسی جگہ پر وہ پچاس تیر انداز کھڑے تھے جن کو اللہ کے رسولؐ نے مقرر کیا تھا۔ غرضیکہ فدائیت اور جان نثاری کے واقعات قدم قدم پہ بکھرے اپنی داستان سنا رہے تھے، وہ امر قصہ جو ساڑھے چودہ سو سال بعد بھی ویسا ہی تازہ تھا۔
ہماری اگلی منزل مسجد قبلتین تھی۔ وہ مسجد کہ اسلام کے آغاز میں جب قبلہ بیت المقدس تھا اس میں لوگ نماز پڑھ رہے تھے تو باہر سے گزرتے ایک شخص نے پکار کر بتلایا کہ قبلہ کا رخ کعبہ کی طرف ہوگیا ہے تو یہ سن کر لوگوں نے نماز ہی کی حالت میں گھوم کر اپنا رخ کعبہ کی طرف کرلیا۔ اس لئے اس مسجد کو مسجد قبلتین (دو قبلے والی مسجد) کہا جاتا ہے۔ اس مسجد میں نشانی کے طور پر ایک مصلی شمال بیت المقدس کی جانب اور دوسرا جنوب کعبہ کی طرف ہے۔
۳۰؍ جنوری ۲۰۲۴ء
آج کی رات ہماری مکہ کے لئے روانگی تھی۔ آج کی رات میری زندگی کی سب سے اہم رات تھی، وہ لمحہ جس کا تصور بیتے برسوں میں بارہا کیا تھا آج حقیقت میں اس کو دیکھ رہی تھی۔ عشاء کی نماز کے بعد ہم عمرہ کے ارادے سے نکلے اور جامعہ اسلامیہ کی بس میں بیٹھے، بس میقات پہ کچھ سیکنڈ کے لئے ٹھہری جہاں سے ہم نے عمرہ کی نیت کی، زندگی میں کتنے سفر کئے مگر یہ سفر ان سب سے پیارا تھا، راستوں میں کوئی قابل دید منظر نہ ہو کر بھی نگاہیں اکتا نہیں رہی تھیں۔ مکہ سے مدینہ کے اس سفر میں مَیں کھڑکی سے چہرہ ٹکائے ہوئے ان راستوں کو دیکھ رہی تھی، ان راہوں نے کئی ادوار دیکھے، صحرائے طیبہ کی گرم فضائیں ان قافلوں کی یاد دلانے لگیں جو ان وادیوں سے گزرے تھے، کیا عجب ان ہی راستوں سے پیارے نبیؐ گزرے ہوں اور آج سیکڑوں سال گزرنے کے بعد، جانے ان راستوں پہ کتنے لوگ گزرے ہوں مگر اس ایک نبیؐ کے قدم کے نشان جیسے مجھے آج بھی دکھائی دے رہے تھے، پہاڑ، ٹیلہ، جھاڑی سب کو عبور کرتی ہوئے بالآخر بس مکہ شہر میں داخل ہورہی تھی، کلاک ٹاور پہ نگاہ پڑی تو جیسے یقین آیا کہ ہاں، میں اب نبیؐ کے جائے ولادت میں داخل ہوچکی ہوں، مکہ میں مدینے کی نسبت پہاڑ زیادہ اور آبادی کے اندر تھے بلکہ بہت سارے راستے، گھر اور ہوٹل تو جیسے پہاڑ کاٹ کر بنائے گئے تھے ایسے میں ہماری بس ایک اونچے راستے پر رکی، یوں لگتا تھا کہ ابھی کے ابھی پلٹے گی مگر وہ اپنی جگہ ثابت رہی ہم باہر نکلے تو سامنے ہمارا ہوٹل کھڑا تھا جس کی پیشانی پر زائر جرول جگمگا رہا تھا، ہم نے ہوٹل میں چیک ان کیا، اپنا سامان رکھا اور فریش ہو کر حرم کے لئے نکل پڑے، اس وقت رات کے تین بج رہے تھے، طبیعت کہتی تھی کہ سو جاؤ آرام کرکے صبح اطمینان سے عمرہ کے لئے جانا مگر دل انکاری تھا اور کیوں نہ ہوتا، یہ تو سخت خلاف ادب ہوتا۔
ہماری بس نے ہمیں چند منٹ میں ہی حرم پہنچا دیا، بس نے دوسرا راستہ اختیار کیا تھا جس سے ہمیں لمبا محسوس ہوا مگر پھر بعد میں معلوم ہوا کہ حرم ہمارے ہوٹل سےقریب ہی تھا۔
بس سے اتر کر حرم کی طرف رخ کرتے وقت پاؤں جیسے من من بھر ہو رہے تھے، دل و دماغ میں اس پاک مقام کا رعب چھائے جا رہا تھا، دل بری طرح دھڑک رہا تھا، بس کچھ منٹ اور پھر کعبہ شریف نگاہوں کے سامنے ہوگا، کعبہ، دنیا بھر کے مسلمانوں کا قبلہ، ان کے دلوں کا مرکز، لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں کھربوں مسلمانوں کے دل کی خواہش جہاں سب سے مقدم ہے۔ کعبہ پر پہلی نگاہ پڑنے کے بہت سے واقعات سنے تھے، کئی قصے پڑھے تھے، بیشتر کی روداد قلب میں پہلی نظر پر آنسوؤں کا بہنا، دل پر رقت طاری ہونا اور گریہ و زاری جیسی باتیں سنی تھیں۔ اس لمحے کو کتنی ہی بار سوچا تھا، تصور میں کتنی بار یہ خیال لاتی تھی کہ جب کعبہ کو پہلی بار دیکھوں گی تو دل کی کیا کیفیت ہوگی اور اب مجھ پر پہلا تاثر کعبے کو دیکھ کر رعب اور ہیبت کا تھا، اس کی شاندار، پروقار اور رعب و جلال سے بھرپور عمارت نگاہ و نظر کو مبہوت کئے جا رہی تھی۔ ہر چکر پر اس کے پر نور منظر پر نگاہ جمی رہی اور پھر میں نے محسوس کیا کہ یہ سیاہ غلاف والی پر شکوہ عمارت میرے دل کے ایک گوشے میں بس گئی ہے، اللہ کے گھر کو بس دیکھتے رہ جاؤ مگر نظر کی پیاس ہی نہیں بجھتی۔
حیرت سے خود کو کبھی دیکھتا ہوں
اور دیکھتا ہوں کبھی میں حرم کو
کہ لایا کہاں مجھ کو میرا مقدر
اللہ اکبر اللہ اکبر
ہم حرم پہنچے تب فجر کی اذان میں تقریباً ۲۰؍ منٹ تھے، مطاف بند ہوچکا تھا لہٰذا ہم نے مسجد میں فجر کی نماز پڑھی، پھر نماز کے بعد مطاف کا رخ کیا تھا۔
مجھے حجر اسود دیکھنے، چھونے اور چومنے کی بڑی خواہش تھی مگر وہ تو جیسے ناممکن ہے بالخصوص عورتوں کے لئے۔ تھوڑا سا اندر جانے کو سوچتے مگر بھیڑ ہمیں وہاں تک جانے ہی نہ دیتی، سانس رکنے لگتا، اس لئے بے بس ہوگئی، البتہ ہم نے مقام ابراہیمؑ دیکھا اور بہت اچھے سے غور سے دیکھا۔ دل خالق کائنات کی قدرت پہ انگشت بدنداں تھا، آج سے جانے کتنے ہزاروں سال پہلے کے ایک نبی کے قدموں کے نشانات رہتی دنیا تک کے لئے ان مٹ کردیئے گئے ہیں، طواف کے بعد بمشکل کسی طر ح ایک طرف کھڑے ہو کر ہم نے نماز پڑھی، پھر زمزم پیا، اب باری تھی سعی کی۔
یہاں بھی ہمارے تصور نے ہمیں دھوکہ دیا، حضرت ہاجرہؓ اور ابراہیمؑ کے واقعہ کے مطابق جب ابراہیمؑ ہاجرہؓ کو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ کر جارہے تھے، پڑھ کر ہم نے خاکہ بنایا تھا دو طرف اونچی اونچی پہاڑیاں ہوں گی، ریگستان ہوگا، ہمیں ایک پہاڑی سے اتر کر دوسری پہاڑی پھر پہلی والی پہاڑی پہ واپس آنا ہوگا مگر یہاں تو پہاڑ کا نام و نشان نہیں تھا، حجاج کی سہولت کے لئے پہاڑیوں کو کاٹ کر عام راستے کی شکل دے دی گئی ہے۔ نشاندہی کے لئے سبز روشنیاں لگا دی گئی ہیں۔ اگرچہ یہ ساری باتیں گھر میں پہلے بھی سنی تھیں اور تصویریں بھی دیکھی تھیں مگر آج پھر جیسے تصور کو ایک دھچکا سا لگا تھا۔
سعی سے فارغ ہوکر کلاک ٹاور کے ایک ریستوران میں ہم نے ناشتہ کیا اور پھر ہوٹل واپس آئے اور بال کاٹ کر عمرہ مکمل کیا۔ اور پھر لمبی تان کر سوگئے۔
یکم فروری ۲۰۲۴ء
صبح تقریباً نو بجے ہم زیارت کی غرض سے نکلے۔ مکہ کی خوبصورت پیچ و خم کھاتی سڑکوں سے گزرتے سب سے پہلے ہم جبل ثور گئے۔ اس پہاڑ سے ہماری انسیت کی وجہ یہ ہے کہ مکہ سے ہجرت کے وقت مکہ سے نکل کر آپؐ نے اس غار میں ۳؍ دن تک پناہ لی تھی۔ ہمارے گائیڈ نے ہمیں نیچے نیچے سے اشارہ کرکے دکھا دیا، غالباً اس وقت وہاں زائرین کو جانے کی اجازت نہ تھی۔ ہم کچھ دیر وہاں ٹھہرے، دور سے اس غار کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس قول کی گونج کو محسوس کررہے تھے جو اس مقام پر رسولؐ اللہ نے ابوبکرؓ سے فرمایا تھا: اے ابوبکر! ان دو کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے۔
حج کے شعائر منی، مزدلفہ اور عرفات کی زیارت کرتے ہوئے آخر میں جبل نور پہنچے۔ اور غار حرا جانے کے لئے پہاڑ پر چڑھے، غار بہت ہی اونچے مقام پر واقع ہے اور بتانے والے بتاتے ہیں کہ وہاں تک پہنچنے میں تقریباً پون گھنٹہ لگ جاتا ہے، ہم بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ چڑھے جارہے تھے مگر بمشکل دس منٹ ہوا تھا کہ گائیڈ کے حکم پر واپس آنا پڑا، ہم ناچار لوٹے، دل میں ارادہ کیا کہ واپسی میں پھر ادھر آنا ہوا تو بھائی کے ساتھ ضرور غار تک جاؤں گی۔
ایک دن حرم میں گئی تو مطاف بند ہوچکا تھا، وہاں ایک شیخ سے مَیں نے منھاج العربیہ کی عربی ’ھل الماء بارد‘ کی طرز پر اعراب سے آراستہ کرکے ’ھل المطاف مفتوح؟‘ (کیا مطاف کھلا ہے) پوچھا، انہوں نے جواب میں ایک لمبا چوڑا جملہ کہا جس میں سے مجھے اتنا سمجھ میں آیا: ’لا، بعد الصلاة‘ (نہیں، نماز کے بعد) بعد میں بھائی کو بتایا تو وہ خوب ہنسا اور کہنے لگا کہ یہاں اعراب لگا کر بولنے کی ضرورت نہیں، صرف مطاف مفتوح کہہ دیتیں تو کافی تھا۔
۲؍ فروری ۲۰۲۴ء
آج جمعہ کے بعد مدینہ واپسی تھی۔ قریب کے ہوٹل سے بس لینی تھی، گوگل میپ نے بتلایا کہ بس تھوڑا فاصلہ ہے، سو ہم نے ٹیکسی نہیں کی اور خراماں خراماں چل پڑے، مگر یہ کیا گوگل نے یہ تو کہہ دیا کہ بس تھوڑی دور ہے، یہ نہیں بتایا کہ یہ راستہ کیسا ہوگا، راستہ کیا تھا، بس چڑھائی ہی چڑھائی ہوتی پھر اترائی اسی طرح چڑھتے اترتے کسی طرح ہانپتے ہوئے ہم بس کے پاس پہنچے۔
اب کی بار مکہ سے مدینہ کا سفر دن میں تھا تو باہر کے مناظر دیکھنے کوملے، سرمئی خشک پہاڑ، مکہ کی پہاڑیوں سے ابھرتا سورج، اونٹوں کے قافلے، بھیڑوں کا ریوڑ، حد نگاہ صحراء اور عرب کی بدوی زندگی۔ ان سب سے گزرتے ہوئے ہم رات نو بجے واپس اپنے بھائی کے فلیٹ میں آگئے۔
۸؍ فروری ۲۰۲۴ء
میں اس وقت مسجد نبویؐ کی سیڑھیوں پر بیٹھی یہ سطور لکھ رہی ہوں۔ مغرب کی نماز کا وقت ہونے کو ہے۔ اس وقت مسجد نبویؐ کے صحن میں تیزی سے عورتیں آرہی ہیں اور مسجد میں جانے کے لئے شرطہ خواتین کی منتیں کررہی ہیں مگر چونکہ اذان سے تقریباً بیس منٹ پہلے اندرونی مسجد کے بھر جانے کی وجہ سے دروازہ بند کر دیا جاتا ہے اس لئے وہ ان کی باتوں پر کان نہیں دھر رہی ہیں، بچے ادھر ادھر بھاگتے پھر رہے ہیں، روشنیاں ہی روشنیاں ہر طرف بکھری ہوئی ہیں۔ یہ خیال ایک دم دل کو اداس کر دیتا ہے کہ ایک دن یہاں سے واپس جانا ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ زندگی میں حجاز کے تعلق سے جاگتی آنکھوں سے دیکھے گئے سارے خواب پورے ہوگئے، دل کو ایک قرار سا آگیا، پھر اب جیسے دنوں میں ٹھہراؤ آگیا، گھڑیاں رینگ رینگ کر گزرنے لگیں، وطن کی یاد ستانے لگی، بہنیں فون کرکے واپسی کا پوچھتیں مگر مدینۃ الرسول کی خوشبو دامن پکڑ لیتی تھی، بہرحال ہر آنے والے کو جانا ہے تو ہم نے بھی اب واپسی کی تیاری پکڑی۔
واپسی میں ہم نے دوبارہ عمرہ کیا اور پھر جدہ سے ہماری فلائٹ تھی، جہاز نے جب حجاز کی سرزمین کو چھوڑا تو دل بےاختیار رو پڑا، بہزاد لکھنوی کی نظم زبان پر آگئی:
ہم مدینے سے اللہ کیوں آگئے
قلب ِ حیراں کی تسکیں وہیں رہ گئی
اللہ اللہ وہاں کا درود و سلام
اللہ اللہ وہاں کا سجود و قیام
یاد آتے ہیں ہم کو وہ شام و سحر
وہ سکونِ دل و جاں وہ روح و نظر
زندگانی وہیں کاش ہوتی بسر
کاش بہزاد آتے نہ ہم لوٹ کر
اور پوری ہوئی ہر تمنا مگر
یہ تمنائے قلب ِ حزیں رہ گئی
واپسی میں ہماری فلائٹ کو صبح دس بجے پہنچنا تھا، طلوع آفتاب کا حسین منظر، دھیرے دھیرے اندھیرے کو چیرتا، بادلوں کی اوٹ سے نکلتا، جگمگاتا روشن سورج اپنی دلکشی سے مجھے مسحور کئے جا رہا تھا، سبھی مسافر سو رہے تھے، اسلئے جہاز کی بتیاں بجھی ہوئی تھیں، مگر میں اتنا حسین منظر کیسے چھوڑ کر سوجاتی، ایک ائیر ہوسٹ نے مجھ سے کھڑکی بند کرنے کو کہا میں نے بند کر دی، مگر اس کے جانے کے بعد پھر کھول کر باہر کے دلفریب منظر میں کھو گئی۔ کسی ادیب نے لکھا ہے: اڑان اتنی اونچی ہوجاتی ہے کہ چار سو ایک بے نشان خلا کے سوا کچھ نظر نہیں آتا، البتہ غور سے دیکھیں تو اس خلا میں دروازے ہی دروازے ہیں اور سیڑھیاں ہی سیڑھیاں۔ جس دروازے پر چاہیں دستک دیں اور جس دنیا میں چاہیں داخل ہوجائیں، جس سیڑھی پر چاہیں چڑھ جائیں اور جس ستارے پر چاہیں جا اتریں۔ میں بھی اس وقت فضا میں تصور کی آنکھوں سے خلا کی ان سیڑھیوں اور دروازوں کو دیکھ رہی تھی۔
لکھنؤ ایئر پورٹ سے ہم بذریعہ ٹرین بنارس آئے۔ ابو جان، بہنوں اور ننھی منی بھانجیوں کو دیکھ کر سفر کی جیسے ساری تھکان اتر گئی۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ان مقدس جگہوں کی زیارت نصیب فرمائے اور حج و عمرہ کی ادائیگی سے سرفراز کرے آمین!