• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ: نورِ ہدایت

Updated: October 09, 2024, 2:31 PM IST | Qudsiya Binte Rafeeq Shaikh | Mumbai

الہام متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک خوبصورت، قابل اور باصلاحیت آرکیٹیکٹ تھی جو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شہر کی ایک نامور تعمیراتی کمپنی میں ملازمت کر رہی تھی۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

الہام متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک خوبصورت، قابل اور باصلاحیت آرکیٹیکٹ تھی جو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شہر کی ایک نامور تعمیراتی کمپنی میں ملازمت کر رہی تھی۔ اس کا ہمیشہ سے خواب تھا کہ وہ اپنی فیملی کے دیگر افراد کی طرح نت نئی عمارتیں ڈیزائن کرے۔ اس کے تینوں بھائی اور والد بھی اسی پیشے سے وابستہ تھے۔ البتہ وہ اپنے بھائی بہنوں میں زیادہ قابل تھی۔ 
والدین کے لاکھ منع کرنے کے باوجود اس نے ضد کرکے ملازمت سے وابستہ ہونے کا فیصلہ کیا اور کالج کی فضا سے نکلتے ہی، فوراً مختلف اداروں میں جاب کیلئے درخواستیں دیں اور اپنی خداداد صلاحیت اور قابلیت کے باعث فوراً ہی ایک معروف کنسٹرکشن کمپنی میں تقرری کیلئے منتخب کرلی گئی۔ 
الہام اپنے کام میں مکمل دیانتداری اور شفافیت کو ملحوظ رکھتی تھی جس کے سبب وہ کمپنی میں جلد ہی مشہور ہو گئی تھی اور اپنے ساتھیوں میں ہر دل عزیز بن گئی۔ وہ ہر کام لگن اور محنت کے ساتھ انجام دیتی۔ دیکھنے والی ہر آنکھ اس کی ایمانداری کی گواہ تھی۔ جلد ہی کمپنی میں وہ نمایاں مقام حاصل کر گئی اور اس کا نام عزت اور قدرشناسی کے جذبے سے لیا جانے لگا۔ بہت کم وقت میں اسے اعلیٰ عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ وہ مزید جوش و خروش کے ساتھ کام کرتی رہی۔ خاندان کے لوگ اسے اور اس کی فیملی کو مبارکباد دیتے۔ الہام ہمیشہ اپنی تعلیم اور فن کے جوہر دکھانے میں کوشاں رہتی اور اس کی نگاہ ہمیشہ انہی عمارتوں کے نقشوں پر ہوتی جو مستقبل میں تعمیرات اور فنون لطیفہ کا نیا باب لکھ سکیں۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ اپنے فن کو بلند و بالا اخلاقی معیاروں کے مطابق ڈھالے اور انسانی خدمت کیلئے اپنی توانائی صرف کرے۔ اس کی محنت کا پہلا پھل تب ملا جب اس کی جاب کے مختصر عرصے میں کمپنی نے اسے ایک عظیم الشان تجارتی مرکز کے منصوبے کی ذمہ داری سونپی۔ یہ پروجیکٹ اس کیلئے نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ ایک ایسا موقع جو اسے تعمیراتی دنیا میں نمایاں کر سکتا تھا۔ اس پروجیکٹ کی کامیابی کے ذریعہ وہ دُنیا سے اپنی صلاحیت کا لوہا منوا سکتی تھی اور ملکی سطح پر اس کے نام کی شہرت ہوسکتی تھی۔ یہ اس کیلئےسنہرا موقع تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے:افسانہ: اغوا

الہام نے پوری لگن اور دلجمعی سے کام کرنا شروع کیا۔ اس کے ڈیزائن ماحول دوست، جدیدیت اور معاشرتی اصولوں کا حسین امتزاج ہوتے تھے۔ ہر شخص اس کے کام کو سراہتا تھا۔ اور وہ کامیابی کے مدارج طے کرتی جارہی تھی۔ اس کی کامیابی اس کے والدین کا سر فخر سے بلند کردیتی۔ یوں لگتا تھا کہ اس کی کامیابی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ 
ایک دن وہ اپنی دوست ردا کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ ردا گریجویشن تک اس کے ساتھ تھی۔ پھر اس نے پڑھائی ترک کرکے مختلف فرموں میں جاب کرنے کے بعد اسی کمپنی میں ملازمت شروع کردی تھی جہاں الہام جاب کررہی تھی۔ الہام ماسٹرز کے بعد وہاں آئی تھی۔ ریستوراں میں ردا کافی پیتی اور اسنیکس کی پلیٹ سے انصاف کرتی جا رہی تھی۔ الہام نے صرف کافی پر اکتفا کیا۔ ’’فرائیڈ چیزیں ذرا کم کھایا کرو۔ ‘‘ الہام نے اسے تنبیہی انداز میں مشورہ دیا۔ ’’فکر نہ کرو، تمہاری دولت میں کمی نہیں آنے والی۔ تمہاری سیلری میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے اور عین ممکن ہے کہ باس پھر سے تمہاری پروموشن کریں۔ پوری کمپنی تم پر مہربان ہے۔ ‘‘ یہ کہتے کہتے وہ تیزی سے کچھ چبا بھی رہی تھی۔ 
’’نہیں یار اللہ تعالیٰ مجھ پر مہربان ہے۔ یہ اس کا فضل و کرم ہے، و ہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ ‘‘ الہام نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ 
’’تم پر وہ کچھ زیادہ ہی مہربان ہے۔ مجھے دیکھو، میں کتنے سالوں سے جہاں کی تہاں ہوں۔ نہ میری سیلری بڑھتی ہے نہ میرا پروموشن ہوتا ہے۔ ‘‘ردا نے برا سا منہ بنایا۔ 
’’ہر کوئی محنتوں اور کوششوں کا پھل پاتا ہے ردا۔ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرو تو وہ زیادہ نوازتا ہے۔ میں تو اس کی بہت ممنون ہوں۔ عمر کے اس اسٹیج پر میں نے کریئر کی اتنی بلندی خواب میں بھی نہیں سوچی تھی۔ ‘‘ وہ شکر ادا کررہی تھی۔ 
’’تم ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہو بھئی، میری پروموشن کے لئے بھی کوشش کیا کرو۔ ‘‘
’’تم خود بھی کوئی کوشش کرلو۔ جانتی ہو نا ہمیں کیا سکھایا گیا ہے؟ کہ ’’ انسان کے لئے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہے۔ یہی بات اقبال کے شعر میں ملتی ہے کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی=نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا۔ تو ردا تم ایسی ہی قوم ہو۔ ‘‘
کیسی دوست ہو یار! کالج لائف میں بھی تم اتنی ہی روکھی پھیکی ہوا کرتی تھیں۔ مجھے یاد ہے کئی لڑکے تم سے دوستی کے خواہاں تھےلیکن تم نے کبھی کسی کو گھاس نہیں ڈالی۔ دوستی تو دور تم لڑکوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتی تھیں۔ اور اب جاب کے دوران بھی تمہارا رویہ یہی ہے۔ ‘‘
الہام کو اس کمپنی میں جاب کرتے ہوئے دو سال گزر چکے تھے۔ وہ اپنے پروجیکٹ میں کامیاب ہو چکی تھی اور اب مینجمنٹ کے فرائض انجام دے رہی تھی۔ 
لیکن ایک `دن، اپنے ساتھ ہواؤں اور طوفان کے کئی جھونکے سمیٹ لایا۔ ان جھونکوں میں نرم اور خوش کن فضا کی خوشبوئیں رچی بسی تھیں یا سخت کانٹوں کی چبھن تھی، یہ وقت جانتا تھا۔ وقت نے کبھی اپنی منصوبہ بندی کسی کو نہیں بتائی۔ وہ رازوں کو پوشیدہ رکھنا جانتا ہے۔ اسے رازوں کو افشاء کرنا کبھی آیا ہی نہیں۔ وقت سا مہربان بھی کوئی نہیں اور وقت سا بے رحم بھی کوئی نہیں۔ 
ایک دن وہ اپنے آفس میں بیٹھی کام میں مصروف تھی۔ تب اسے کمپنی کے سی ای او کی طرف سے اُن کے کیبن میں آنے کی دعوت دی گئی۔ کچھ دیر بعد وہ کیبن میں تھی۔ 
’’گڈ مارننگ سر!‘‘
’’گڈ مارننگ مس الہام! کیسی ہیں آپ؟‘‘
’’فائن! تھینک یو سر!‘‘
’’کیسا چل رہا ہے آپ کا کام؟‘‘
’’بہت اچھا۔ خدا کا شکر ہے!‘‘
’’آپ جتنی قابل اور ہونہار اِمپلائی کے ہوتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ ہماری کمپنی اس کے بعد کے بھی تمام پروجیکٹ کامیابی سے مکمل کرے گی۔ ‘‘
’’مائی پلیزر تھینکس اگین سر۔ ‘‘
"اچھا مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ دراصل ایک بڑے تجارتی مرکز کے پروجیکٹ کی ڈیل ہمارے سامنے ہے۔ جلد ہی ہم اس بین الاقوامی پروجیکٹ کی نیلامی میں حصہ لیتے اور بولی لگانے والے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ اس پروجیکٹ کی قیادت کی ذمہ داری آپ کے سپرد کی جائے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے:افسانہ : وجود

الہام کے دل کو خوشی کا احساس ہوا لیکن اس نے چہرے سے ظاہر نہیں ہونے دیا۔ سی ای او نے بات جاری رکھی…یہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔ اگر ہماری کمپنی نے اس پروجیکٹ کو کامیابی سے مکمل کرلیا تو آپ کو زائد انکریمنٹ تو یقیناً ملے گا مگر اس کے ساتھ ہی قومی اور بین الاقوامی سطح پر آپ کا نام دور تک مشہور ہو گا۔ ‘‘
 الہام کا دل اس پیشکش پر شادماں تھا۔ وہ اندر سے پرجوش ہو رہی تھی۔ یہ بہت فطری جذبہ تھا۔ اُس نے پہلے ایک خواب سجایا تھا ترقی کرنے کا، خود کو منوانے کا، اپنی صلاحیتوں کو کارآمد بنانے کا، اس کیلئے کریئر سازی کا، پھر اُس نے محنت کی اور اپنی صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کیا۔ بظاہر یہ پیشکش اُس کیلئے سنہری موقع تھی جس سے اس کا نام بین الاقوامی سطح پر ممتاز ہوتا لیکن اس کے پیچھے کوئی شرط بھی ہوگی اُسے، اس کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا۔ 
 گفتگو جاری رہی اور کمپنی کا سی ای او نہایت نرمی سے اپنی بات کہتا رہا۔ اس نے جیسے ہی مزید تفصیلات بتانا شروع کیں، الہام ششدر رہ گئی۔ 

’’آپ مجھے ہراساں کررہے ہیں ؟‘‘
’’یہ پروجیکٹ آپ کے لئے ایک بڑا موقع ہے۔ یہ آپ کو آرکیٹیکچرل ورلڈ میں ایک مقام دلا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے....‘‘ الہام انکھیں پھاڑے حیرت سے اسے دیکھ اور سن رہی تھی۔ وہ الہام سے غیر اخلاقی مطالبہ کر رہا تھا۔ اس کا اشارہ واضح تھا کہ اسے پیشہ وارانہ تعلقات کی حدود سے تجاوز کرنا ہوگا۔ الہام یہ سن کر حیران و پریشان رہ گئی۔ 
  اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کے اتنے ماہ کی محنت و وقار کی پامالی کا مطالبہ کیا جا رہا ہو۔ اس کے سامنے ایک مشکل فیصلہ تھا۔ ایک جانب وہ کامیابی، شہرت و عزت تھی جو اس کی محنت کا ثمرہ بن سکتی تھی۔ اور دوسری جانب اس کی عزت نفس، خودداری اور ایمان۔ لیکن اسے اس دشوار گزار راستے سے گزرنا تھا۔ اس مرحلے کو عبور کرنا تھا۔ انتخاب اس کے ہاتھ میں تھا۔ الہام نے اپنے ضمیر کی گہرائیوں میں جھانکا، دل کی لہر کو تھام کر سوچا کیا کہ وہ اپنے کردار کے لیے دولت و شہرت کو قربان کرے گی یا نام و شہرت کیلئے کردار کو کچل کر آگے بڑھ جائے گی۔ 
(کیا وہ اس کی آفر کو مان لے؟) اس کے دماغ نے ضمیر سے پوچھا۔ (نہیں .... یہ غلط ہے۔ اور گناہ کبیرہ ہے۔ ) 
’’ہاں ! میں یہ نہیں کر سکتی۔ ‘‘ اس نے دل میں سوچا۔ 
(کیا کررہی ہو بے وقوف! ایسا موقع پھر نہیں آئے گا۔ سوچو، تمہارا نام مشہور ہو جائے گا۔ دولت کی ریل پیل ہوگی۔ )
 اس کے ضمیر نے لتاڑا:ارے نہیں رکو... یہ غلطی نہ کرنا۔ ورنہ خاندان بھر میں بدنام ہوجاؤگی۔ تمہارے والدین کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ 
(بیٹا! اس جاب کے دوران ہمیشہ ہر کام اللہ کو یاد کرتے ہوئے کرنا۔ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تمھیں بہکائے گا، وہ طرح طرح کی دل لبھاتی، مادہ پرست چیزوں کا جال بچھائے گا۔ لیکن تم ہر وقت اپنے ایمان کو مضبوطی سے تھامے رہنا۔ اخلاق و کردار اور عزت نفس پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرنا بیٹا۔ چاہے تمہارے سامنے قارون کا خزانہ کیوں نہ ہو۔ ) جاب کیلئے اپلائی کرتے وقت اپنے بابا کی کہی بات اس کی سماعتوں کو مفلوج کررہی تھی۔ (اس دنیا میں پیسہ کمانے کے لیے ہر کوئی مرا جارہا ہے۔ لیکن تم بہت خوش نصیب ہو۔ آگے بھی کسی موقع پر تمہیں بھاری رقم یا بڑے پروجیکٹ کی آفر ہو تو تم انکار مت کرنا۔ کسی قیمت پر بھی نہیں۔ ) ماضی میں کسی کی کہی گئی بات اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ 
 (دولت... ہر چیز مٹھی میں ہوگی...)، (عزت... ہر چیز سے بڑھ کر...)، (پیسہ.....)، (ایمان ....)، (پیسہ....)، (پیسہ... دنیا کی ہر چیز خرید سکوگی۔ دنیا تمہارے قدموں میں ہوگی۔ ) اس کے ضمیر کی لڑائی میں اس کا دماغ سن ہوا جارہا تھا۔ وہ یہ جنگ روکنے سے خود کو قاصر سمجھ رہی تھی۔ 
 اس نے تعوذ پڑھا اور زور سے سر جھٹکا۔ 
الہام ایک دیانت دار، خوددار لڑکی تھی۔ اس نے ہمیشہ اپنے کردار اور اصولوں کو ترجیح دی تھی۔ چند لمحے اس نے گہرے سانس لے کر خود کو پر سکون کیا۔ پھر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا۔ 
’’میں اپنی محنت، علم اور کردار کے بل بوتے پر ترقی کی منازل طے کرنے کی خواہاں ہوں۔ اگر آپ کی شرط ہی اس پروجیکٹ کی بنیاد ہے تو میں معذرت خواہ ہوں۔ ‘‘
اس کے جواب پر مقابل کا چہرہ غصے سے تمتمانے لگا۔ وہ اپنی جگہ پر اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’میں تمہیں طشت میں رکھ کر دولت کی پیشکش کر رہا ہوں اور تم انکار کر رہی ہو؟‘‘ اس کی آواز غصے سے بلند ہوئی۔ 
’’میں اس راہ پر نہیں چل سکتی جہاں میرا ضمیر مطمئن نہ ہو۔ میں چند روپوں اور نام کیلئے اپنے ایمان کا سودا نہیں کر سکتی۔ ‘‘
’’تم انکار ہی کرنا چاہتی ہو تو سوچ لو، اس بڑے پروجیکٹ سے ہاتھ دھو بیٹھو گی۔ ساتھ ہی تمہارا کیریئر بھی مشکل میں پڑ جائے گا۔ ‘‘ اس کی آواز بلند ہو گئی۔ 
’’ایسےکریئر کی مجھے پرواہ نہیں جس کےلئے مجھے اپنی حدود سے تجاوز کرنا پڑے۔ اور اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کرنا پڑے۔ ‘‘اس کی آواز بھی بلند ہو گئی۔ 
’’اس کا مطلب تم اپنی اور اپنے کریئر کی بربادی چاہتی ہو؟‘‘
’’تم جیسے گھٹیا اور نیچ لوگ ہر ادارے میں ہوتے ہیں۔ اور تم جیسوں لوگوں سے ڈِیل کرنا میں بہتر طور پر جانتی ہوں۔ اس آفر کو رد کرنے سے اگر میرا کریئر برباد ہو جاتا ہے تو ہوجائے، مجھے پرواہ نہیں۔ ‘‘
الہام کا فیصلہ اٹل تھا وہ جان گئی تھی کہ اگر آج اس نے اخلاق و کردار کے معاملے میں سمجھوتہ کیا تو کل اسے اپنی عزت نفس کا سودا کرنا پڑے گا۔ 
(مفہوم :اے لوگو جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ تو اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا۔ مگر اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے، اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ النور۲۱:۲۴)
قرآن کی یہ آیت اس کے کانوں میں گونج گونج رہی تھی۔ 
اس کے انکار پر سی ای او نے اپنے اختیارات اور عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے الہام کے خلاف ایک محاذ کھڑا کر دیا۔ اس نے الہام کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے اپنائے۔ الہام کے ساتھ یہ سلوک دیکھ کر اس کے ساتھ ہی دیگر خواتین نے بھی سی ای او کے خلاف اپنی شکایتیں بیان کرنا شروع کر دیں۔ 
 قبل اس کے کہ وہ اسے ذلیل کر کے نچلے درجے پر لا کھڑا کرتا، الہام نے اس کمپنی سے استعفیٰ دے دیا۔ ریزائن کر کے وہ گھر آئی تو خوب روئی۔ گھر والوں کو ساری بات سے آگاہ کیا۔ 
اس نے اپنے ایمان کو بچایا تھا۔ اللہ کی عائد کردہ حدود کی پاسداری کی تھی۔ وہ ایک معمار تھی۔ اور ایک معمار نسلوں کا معمار ہوتا ہے۔ نسلیں وہی کامیاب رہتی ہیں، جن کی تربیت میں کردار کی پاکیزگی اور ایمان باللہ کو پرویا گیا ہو۔ اس نے دنیاوی فائدے کے لئے آخرت کا سودا نہیں کیا۔ اسے یقین تھا کہ اس کا رب اسے کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ 
 یہ معاملہ جلد ہی عوامی سطح پر آگیا اور کمپنی کو تحقیقات کا آغاز کرنا پڑا۔ اس کیس کو عدالت میں اچھالا گیا۔ نتیجتاً سی ای او کے خلاف کئی سنگین الزامات ثابت ہوئے اور اسے عہدے سے معزول کر دیا گیا۔ 
 اس موڑ پر اس نے ایک اور فیصلہ کرلیا تھا کہ اسے کہیں پر جاب نہیں کرنی۔ اس نے کہیں جاب کر بھی لی تو ہمیشہ ایک خوف طاری رہے گا۔ اور وہ پھر سے اس جوش کے ساتھ کام نہیں کر پائے گی، جیسا پہلے کرتی تھی۔ 
 اس نے اپنا بزنس شروع کیا۔ ایک نئی کنسٹرکشن کمپنی بنائی۔ اور اس کو بام عروج تک پہنچانے کی حتی المقدور کوشش میں جٹ گئی۔ اور اب وہ بزنس میں عزت و وقار کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی کامیابی کے زینے عبور کررہی تھی۔ کچھ عرصے بعد ہی الہام کی کمپنی کا نام بین الاقوامی سطح پر معروف کمپنیوں میں لیا جانے لگا۔ 
(مفہوم :جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کیلئے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا۔ الطلاق ۲:۶۵)
  ایمانداری، کردار، پیشہ جاتی صلاحیتوں کی بدولت وہ ترقی کی منازل طے کررہی تھی۔ الہام کی کامیابیاں اسکے دل کی گہرائیوں سے پھوٹنے والے خلوص، اور ایمان کی پختگی کی مرہون منت تھیں۔ الہام نے ٹھان لیا تھا کہ وہ کسی صورت میں اپنی عزت، وقار اور اخلاق و کردار پر سمجھوتہ نہیں کرے گی، چاہے اسکے سامنے کتنی ہی بڑی آزمائش کیوں نہ ہو۔ وہ اپنے ایمان اور اصولوں پر قائم رہی، کیونکہ اسے یقین تھا کہ ہر آزمائش اللہ کی جانب سے ہوتی ہے اور وہی نجات کا راستہ دکھاتا ہے۔ اس نے اللہ کی عائد کردہ حدود سے تجاوزنہ کیا اور دیگر خواتین کیلئے بھی ایک مثال بن گئی۔ 
(مفہوم :اور اسے ایسے راستے سے رزق دکھا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو. جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کیلئے وہ کافی ہے۔ اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کیلئے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔ الطلاق:۳)
 الہام نے ثابت کر دیا کہ کامیابی صرف محنت، ایمان و کردار کے بل پر حاصل کی جا سکتی ہے۔ وہ اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے کامیاب ہوئی جس میں اس کی عزت نفس کا نور شامل ہے۔ وہ نور جو اسے اللہ رب العالمین نےعطا کیا، جواسے اخلاق و کردار کی سطح پر بلند کرتا ہے۔ رب کی رضا اور خوشنودی کے حصول کیلئے تڑپتے دل کو منور کرتا ہے۔ کردار کی پاکیزگی اور ایمان کے لئے دولت و شہرت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے منزل کی طرف بڑھنے کا راستہ دکھاتا نور۔ نور علیٰ نور۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK