• Thu, 06 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : سائبان

Updated: February 06, 2025, 2:23 PM IST | Mumbai

شریکِ حیات کی اہمیت کو بیان کرتا افسانہ۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

کہیں دور سے آتی ہوئی شہنائی کی آواز نے آج پھر اس کے ان خوابیدہ جذبات میں ہلچل مچا دی تھی جنہیں ان دس برسوں میں اس نے بڑی مشکلوں سے تھپک تھپک کر سلایا تھا۔ اس نے پلٹ کر اپنے بغل والے بستر کی جانب دیکھا جو خالی پڑا تھا۔ دل میں درد کی ایک خفیف سی لہر اٹھی جسے دبا کر اس نے سوچا، کیا فرق پڑتا ہے۔ تو پھر یہ طلب، یہ تڑپ، یہ خلش، یہ اضطراب کیوں؟ کچھ پانے کی آرزو کیوں، کچھ کھونے کا دکھ کیوں؟
 اس کے سارے خواب تو ردّی کاغذ کے ٹکروں کی طرح بکھر چکے تھے۔ اس نے بھی ہر لڑکی کی طرح بہت سارے سہانے سپنے سجائے تھے۔ اپنے صنم کا ایک حسین خاکہ ذہن میں مرتب کیا تھا جو جاگتے میں اس کے خیالوں میں آتا اور سوتے میں اسے خوابوں سے جگاتا۔ کہتے ہیں جہاں بیری کے پیڑ ہوتے ہیں وہاں ڈھیلے آتے ہی ہیں۔ لیکن اپنی زندگی کی بائیس بہاریں دیکھنے کے بعد بھی اب تک اس کے آنگن میں ایک کنکری تک نہ آئی تھی کیونکہ جہیز کے لئے اس کے والد کے پاس بھاری رقم نہ تھی۔ سفید پوشی کا صرف بھرم تھا جو کسی سے بھی پوشیدہ نہ تھا۔ افلاس کی چکی میں پسا ہوا انسان اپنی اولاد کو اچھے طور طریقے، اچھی تربیت تو دے سکتا ہے لیکن ان لالچی اور ہوس پرست لوگوں کے خندق جیسے پیٹ کو بھرنا اس کے لئے نا ممکن ہوتا ہے۔
 وقت دبے قدموں گزرتا جا رہا تھا۔ عمر بڑھتی جا رہی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ مایوسیاں بھی بڑھتی جا رہی تھیں۔ لیکن بالآخر ایک دن ایک رشتہ آہی گیا ایک بڑی خامی کے ساتھ۔ چیچک کے ایک شدید حملے نے اس لڑکے کو ایک بڑی نعمت سے محروم کر دیا تھا۔ اس کی دونوں آنکھیں بے نور ہو چکی تھیں۔ جب اس نے سنا تو جیسے اس پر بجلی سی گر پڑی جس نے اس کے سارے خواب، سارے ارمان جلا کر خاک کر دیئے۔ لیکن وہ انکار نہ کرسکی کیونکہ وہ اپنے والدین کی پریشانیوں میں اضافہ کرنا نہیں چاہتی تھی۔ ان کی الجھنیں بڑھانا اسے گوارا نہ تھا۔ اس لئے اس نے اس رشتے کو منظور کر لیا۔ لیکن اس کی ہنستی کھیلتی زندگی مٹی کی مورت بن گئی۔ جب سہیلیاں سہاگ کے گیت گاتیں تو اسے ایسا محسوس ہوتا جیسے کوئی مرثیہ پڑھا جا رہا ہو۔

یہ بھی پڑھئے:افسانچہ: حق کی راہ کے غیور محافظ

وہ حجلۂ عروسی میں بیٹھی مایوسیوں کے بھنور میں ڈوب اور ابھر رہی تھی۔ جذبات کی دنیا میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ دل کی ڈھرکنیں بے ترتیب تھیں۔ کاش کوئی ایسا حادثہ ہو جائے کہ نہ مَیں رہوں نہ میرے خواب اور نہ میرے ارمان۔ رہ رہ کر یہ خواہش اس کے اندر بیدار ہو رہی تھی۔
 دلہے کو اس کے دوستوں نے حجلۂ عروسی کے دروازے تک پہنچا دیا۔ اندر وہ ایک چھڑی کے سہارے داخل ہوا۔ بار بار وہ چھڑی کو لہرا کر کمرے کی پوزیشن کا اندازہ لگا رہا تھا۔ کسی طرح وہ اس جگہ پہنچ گیا جہاں دلہن بیٹھی تھی۔ دلہن نے نظریں اٹھا کر دیکھا اور غش کھاتے کھاتے بچی۔ آنکھوں کی خامی کو تو اس نے سیاہ چشمے سے چھپا لیا تھا لیکن چیچک کے بے شمار داغوں نے اس کے چہرے کے خد و خال کو بالکل مسخ کر دیا تھا۔ جلد کھردری اور شکن آلود ہوگئی تھی۔ چہرہ شادابی اور کشش سے محروم تھا۔
 کیا یہی ہے اس کے سپنوں کا شہزادہ؟ دل میں نفرت کی ایک شدید لہر اٹھی اور آنسوؤں کی لڑیاں اس کے دامن میں جذب ہوتی چلی گئیں۔ کچھ دیر ان دونوں کے درمیان خاموشی چھائی رہی۔ پھر اس نے ٹٹول کر اپنی منکوحہ کی موجودگی کو محسوس کیا۔
 ”یقیناً تم بہت خوبصورت ہو گی لیکن میرا یہ المیہ ہے کہ مَیں تم کو دیکھ نہیں سکتا۔ آج میں بے حد خوش ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں اتنی خوشیاں دوں گا کہ تم اپنی ساری محرومیوں کو بھول جاؤگی۔“
 ”ہونہہ! یہ مجھے کیا خوشیاں دے گا۔ اس کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھ کر لوگ مجھ پر ترس کھائیں گے۔ میری قسمت پر افسوس کریں گے۔ ہر محفل، ہر تقریب میں مَیں احساس کمتری میں مبتلا رہوں گی۔ اس سے بہتر ہے کہ میں ساری دلچسپیوں سے منہ موڑ کر گوشہ نشینی اختیار کر لوں۔“ اس نے دل ہی دل میں سوچا۔
 ”تم خاموش کیوں ہو؟ کچھ بولتی کیوں نہیں؟ کیا اس شادی سے تم خوش نہیں ہو؟“
 اس کا دل چاہ رہا تھا کہ قہقہے لگا کر کہے کہ بھلا اندھیرے کنویں میں گر کر بھی کوئی خوش رہ سکتا ہے؟
 ”یقین مانو، مَیں پھول کی طرح تمہیں اپنے بیڈ روم میں سجا کر رکھوں گا۔“
 ”جیسے میں کوئی شو پیس یا گلدستہ ہوں۔“ اس نے نا گواری کے ساتھ سوچا۔ اب نہ کوئی امنگ تھی، نہ جوش، نہ ولولہ۔ ایک لاش کی طرح اس نے خود کو شوہر کے سپرد کر دیا۔
 دوسرے دن اس نے اپنا سارا سنگار اتار دیا۔ کس کے لئے سجوں؟ کون ہے دیکھنے والا؟
 ”تم نے چوڑیاں کیوں اتار دیں؟“ شوہر نے سونی کلائی کا اندازہ لگا کر پوچھا۔ وہ خاموش رہی۔ مگر بار بار ایک ہی سوال سن کر جھنجھلا اٹھی۔
 ”کیوں پہنوں چوڑیاں؟ ہے کوئی آنکھوں والا جو انہیں دیکھے؟“ اور چوڑی کی کرچیوں نے اس شخص کے احساس کو لہولہان کر دیا۔
 جب وہ اسے تفریح کے لئے کہیں لے جانا چاہتا تو وہ انکار کر دیتی۔ اسے خود کو تماشا بنانا گوارا نہ تھا۔ جب کبھی وہ اسے آواز دیتا تو سنی اَن سنی کر دیتی۔ شوہر کی پکار پر اسے بے طرح غصہ آجاتا۔ کبھی وہ لڑکھڑا کر گر جاتا تو اس کا دل قہقہے لگانے لگتا۔ نہ جانے اس کے دل کو ایسا کرنے سے کون سا سکون حاصل ہوتا تھا۔
 خدا جب کسی سے بصارت، سماعت یا قوتِ گویائی چھین لیتا ہے تو اسے آگہی کی غیر معمولی طاقت عطا کر دیتا ہے۔ وہ اسی طاقت کے سہارے بیوی کے چہرے پر چھائی ناگواری، بیزاری اور الجھنیں دیکھتا رہتا۔ اس کا دل چاہتا کہ وہ اپنی شریک زندگی سے بہت ساری باتیں کرے اور وہ سب پوچھے جو اسکے دل میں سوال بن کر بار بار اکسا رہا تھا۔
 ”کیوں آئی تم میری زندگی میں؟ کیوں میرے خوابیدہ ارمانوں کو جگا دیا؟ کیوں ازدواجی لذتوں سے آشنا کرکے پل پل مجھے موت کی طرف گھسیٹ رہی ہو؟ کیوں میرا چین سکون چھین لیا؟ کیوں، آخر کیوں؟“
 لیکن اس نے اپنے ہونٹوں پر قفل ڈال لیا تھا کہ وہ اپنی طبیعت کو مزید مکدر کرنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ کھویا کھویا اور خاموش سا رہنے لگا۔ اس کی یہ کیفیت دیکھ کر کبھی کبھی وہ اپنے روئیے پر شرمسار سی ہو جاتی۔ اسے لگتا جیسے اس کے اندر سے بار بار یہ آواز آرہی ہے: ”آخر تم اس کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کیوں کرتی ہو؟ وہ تمہارا مجازی خدا ہے۔ تمہارا سائبان، تمھارا محافظ۔“
 لیکن فوراً ہی ایک دوسری آواز اس کے کانوں سے ٹکراتی: ”ہونہہ! سائبان، محافظ؟جو اپنی حفاظت نہیں کر سکتا وہ بھلا دوسروں کا محافظ کیسے بن سکتا ہے؟“
 پھر پہلی آواز آتی: ”مت سوچو ایسا۔ ظاہری حسن پر مت جاؤ۔ دیکھو تو سہی اس کا دل کتنا خوبصورت ہے۔ چھوڑ دو نفرت....“
 ”کیسے چھوڑ دوں؟ وہ شہزادہ جو ہر وقت میری نظروں کے آگے رہتا تھا وہ آج بھی میرے دل کے سنگھاسن پر براجمان ہے۔“
 ہمہ وقت اس دل کے اندر یہ تکرار ہوتی رہتی۔
 اب وہ دیر تک گھر سے باہر رہتا۔ کبھی کبھی گھنٹوں اپنی بے نور آنکھوں سے چھت کو گھورتا رہتا۔ وہ چھت جو اس کے والدین نے اپنے اپاہج بیٹے پر ترس کھا کر اس کے نام کر دی تھی۔ اسے سر چھپانے کا آسرا دے دیا تھا۔ وہ اندھوں کے اسکول میں پڑھاتا تھا جس سے دو وقت کی روٹی تو مہیا ہو جاتی تھی لیکن وہ پیار جو انسان کی زندگی اور صحت کے لئے ٹانک کا کام کرتا ہے، اسے وہ کس دکان سے خریدے؟ وہ ہر وقت یہی سوچتا رہتا۔
 ایک دن اس نے اپنی بیوی کو بتایا کہ وہ ایک ضروری کام کے سلسلے میں ایک ہفتے کے لیے باہر جا رہا ہے۔
 پھر ایک ہفتہ بعد اس کا مختصر ساخط ملا۔ اس نے لکھا تھا:
 ”یقیناً یہ خبر تمہارے لئے خوشی اور طمانیت کا باعث ہوگی کہ تمہیں زندگی کے اس عذاب اور ہیجانی کیفیت سے چھٹکارا دلانے کے لئے میں تمہاری زندگی سے بہت دور آگیا ہوں کبھی نہ واپس جانے کے لئے۔“
 خط پڑھتے ہی اسے ایسا لگا کہ اس کے سر سے چھت سرک گئی ہو اور کڑی دھوپ میں اس کا بدن جھلسا جا رہا ہو۔
 پھر برسوں بیت گئے۔
 اس وقت سے لے کر آج تک وہ اس تپش میں جھلستی آرہی تھی۔ کبھی پلٹ کر جب وہ اپنے پاس والے بستر کی جانب دیکھتی تو خالی پن کا احساس اسے بے چین کر دیتا۔ ایسا لگتا جیسا وہ ایک خالی گھڑا ہے جو کسی بھی وقت لڑھک کر نشیب میں گر سکتا ہے۔ جب کبھی شہنائی کی آواز آتی تو اس کے جذبات میں طلاطم سا برپا ہو جاتا۔ وہ اس کیفیت سے نکلنا چاہتی تھی مگر ہزار کوششوں کے باوجود نکل نہیں پا رہی تھی۔
 کئی بہاریں آئیں اور گئیں مگر اس کی زندگی کی بہار؟
 پھر اچانک پورے دس برسوں کے بعد وہ آن موجود ہوا۔ شاید زندگی کی کٹھن راہوں پر تنہا چلتے چلتے وہ بھی اوب چکا تھا۔ مگر ان دس برسوں نے اس کے چہرے پر کوئی منفی اثر نہیں ڈالا تھا بلکہ وہ پہلے سے زیادہ تندرست اور توانا ہو گیا تھا۔ شکن آلود چہرہ شادابی کی طرف مائل تھا۔ پُر وقار شخصیت اور خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ وہ سامنے کھڑا تھا۔ اب کسی بھی زاویئے سے وہ بد صورت کہلانے کے لائق نہ تھا بلکہ اس کی نظروں میں اس وقت وہ دنیا کا حسین ترین مرد لگ رہا تھا۔ وہ اس کے استقبال کے لئے بے اختیارآگے بڑھی لیکن کسی احساس کے تحت ٹھٹھک کر رک گئی۔ پھر پل بھر میں برسوں کا فاصلہ عبور کرکے اس نے بے ساختہ اس کا ہاتھ تھام لیا، جیسے کہہ رہی ہو۔
 ”اب چھوڑ کر کبھی نہ جانا۔“ مرد نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ دیا۔ اور تب اسے ایسا لگا کہ زندگی کی تپتی دھوپ میں ابر کا ایک مہربان ٹکرا اس کے سر پر آگیا ہو۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK