• Tue, 22 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ : اسٹیٹس

Updated: October 22, 2024, 1:55 PM IST | Sahar Asaad | Banaras

آسمان پر سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے، مست کر دینے والی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں اور اس خوشگوار موسم میں وہ چاروں یعنی فریال، زارا، مہرین اور شہلا باہر نکلی ہوئی تھیں، کالونی کی لمبی ویران سڑک پر چہل قدمی کرنے کے بعد اب انہوں نے شہر کے معروف ریسٹورنٹ میں قدم رکھا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

آسمان پر سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے، مست کر دینے والی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں اور اس خوشگوار موسم میں وہ چاروں یعنی فریال، زارا، مہرین اور شہلا باہر نکلی ہوئی تھیں، کالونی کی لمبی ویران سڑک پر چہل قدمی کرنے کے بعد اب انہوں نے شہر کے معروف ریسٹورنٹ میں قدم رکھا۔ سب نے اپنی اپنی پسندیدہ ڈشز آرڈر کیں، کھانا آیا تو پہلے فوٹو شوٹ شروع ہوا، سب نے جی بھر کر اور ہر زاویے سے کھانے کی تصویریں لیں، پھر اسی کے ساتھ اسٹیٹس پر لگا دیا۔ پھر کھانے کی طرف متوجہ ہوئیں جو کب سے ان کی نگاہ التفات کا منتظر تھا۔
 فریال گھر آئی تو بھابھی کی چبھتی ہوئی نگاہوں نے اس کا استقبال کیا۔
 ’’جب خود اتنا سارا سامان آرڈر کیا تو ہمارے لئے بھی کچھ پیک کرا لیتیں۔‘‘
 ’’جی، آپ کو کیسے پتہ....‘‘ وہ کہتے کہتے رک گئی۔ (خود ہی تو.... اسے یاد آیا)
 زارا نے کمرے میں قدم رکھا تو چھوٹی بہن ماہ پارہ کی نگاہوں میں ہزار شکوے تھے۔
 ’’آج امی نے کریلے پکائے تھے میں تو جیسے تیسے کھا لیتی مگر آپ کا اسٹیٹس دیکھ کر حلق سے نہیں اتر رہا تھا۔‘‘
 مہرین چچی کے کمرے کے پاس سے گزر رہی تھی تو کزن حوریہ کو کہتے ہوئے سنا:

یہ بھی پڑھئے:افسانچہ: گڑیا

’’امی! آپی ہر دوسرے روز کہیں نہ کہیں جاتی ہیں اور طرح طرح کے زبردست پکوان کھاتی ہیں، آپ تو مجھے پیسے بھی نہیں دیتیں، میرا بھی جی چاہتا ہے۔ ابھی آج انہوں نے اسٹیٹس لگایا ہے۔‘‘ حوریہ نے موبائل آن کرکے امی کو دکھایا، مہرین کے اسٹیٹس پر چکن تکہ، بریانی اور پیسٹری دیکھ کر خود امی کے منہ میں بھی پانی آگیا۔
 وہ اداسی سے گویا ہوئیں، ’’بیٹا! شکر کرو کہ تمہارے ابو کے جانے کے بعد گھر میں کھانا بن جاتا ہے ورنہ دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو بھوکے پیٹ سوتے ہیں۔‘‘
 حوریہ نے سر ہلا دیا مگر بار بار نگاہوں کے سامنے چکن تکہ اور بریانی گھوم گھوم جاتے تھے۔
 چاروں دوستوں نے آج کے اسٹیٹس پر اپنے اپنے گھروں میں ہونے والے تبصرے اپنے وہاٹس ایپ گروپ میں شیئر کئے اور جلے دل کے پھپولے پھوڑے۔ تمنا نے ہنس ہنس کر بآواز بلند سب کے کمنٹس پڑھ کر اپنی دادی جان کو سنائے۔
 ’’دکھاوا....‘‘
 ’’جی؟‘‘ تمنا نے خفگی سے ابرو اکھٹے کئے۔
 ’’ہاں‘‘ دادی سادگی سے بولیں، ’’ہمارے زمانے میں اسے دکھاوا کہتے تھے۔ بس فرق یہ ہے پہلے باتوں باتوں میں جتلا دینا ’دکھاوا‘ کہلاتا تھا کہ ہمارے پاس فلاں فلاں چیز ہے، اور آج تو تم لوگ باقاعدہ نمائش کر دیتے ہو۔‘‘
 تمنا نے ہکا بکا ہو کر دادی کو دیکھا اور پھر ایک چور نگاہ خود پر ڈالی۔
 ’’کھانے پینے کی چیزیں ہوں، نیا موبائل، کپڑے، فرنیچر، گھومنے پھرنے کی تصاویر، تم لوگوں کا یہ سب اسٹیٹس پر ڈالنے کا یہی تو مقصد ہوتا ہے، دکھاوا....‘‘دادی جان کے آئینہ دکھانے پر تمنا کا سر شرم سے جھک گیا۔
 دادی جان اپنی بات جاری رکھی، ’’اور آج کل تو میں دیکھتی ہوں کہ لڑکیاں دھڑلے سے اپنی تصویریں اسٹیٹس پر ڈال دیتی ہیں، یعنی وہ لڑکیاں جو گھر سے باہر نکلتے وقت پورے پردے میں ہوتی ہیں وہ اپنی بے حجاب تصویریں اسٹیٹس پر لگانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتیں، بہت ہوا تو چہرے پر ایک پھول لگا لیا۔ اب بندہ پوچھے کیا تم باہر چہرے پر صرف پھول چپکا کر نکل سکتی ہو۔ اسٹیٹس لگانا ہو تو ادبی جملے، بامعنی اشعار، معنی خیز فقرے، معلوماتی چیزیں لگا کر اپنے پڑھے لکھے اور سمجھدار ہونے کا ثبوت دو۔‘‘
 تمنا نے دادی جان کی باتیں گرہ میں باندھ لیں۔ اب وہ اسے اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کرنے جارہی تھی۔ تو کیا آپ بھی تیار ہیں شیئر کرنے کے لئے....؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK