• Sun, 22 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اُداس ہیں

Updated: December 17, 2024, 1:34 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

عالمی سطح پر مشہور طبلہ نواز اُستاد ذاکر حسین خاں نے دارِفانی سے منہ موڑ لیا تو تعزیتی پیغامات کا سیلاب سا اُمڈ پڑا۔ اس سے اُن کی شہرت و مقبولیت اور بحیثیت فنکار اُن کے اعتبار و احترام کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 عالمی سطح پر مشہور طبلہ نواز اُستاد ذاکر حسین خاں  نے دارِفانی سے منہ موڑ لیا تو تعزیتی پیغامات کا سیلاب سا اُمڈ پڑا۔ اس سے اُن کی شہرت و مقبولیت اور بحیثیت فنکار اُن کے اعتبار و احترام کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے جتنے تعزیتی پیغامات کا مطالعہ کیا اُن میں  سب سے زیادہ متاثر کن پنڈت ہری پرساد چورسیا کا پیغام ہے۔ اس پیغام سے مترشح ہے کہ وہ اُنہیں  کتنا چاہتے تھے۔ کہا: ’’مَیں  ہی نہیں  دُنیا کے تمام فنکار افسردہ ہیں ، اتنا نوجوان لڑکا، چمکتا تھا بجانے میں ، چہرے میں ، بات چیت میں ، پتہ نہیں  کیسے اتنی چھوٹی عمر میں  رخصت ہوگیا۔‘‘ واضح رہے کہ انتقال کے وقت استاد ذاکر حسین کی عمر ۷۳؍ سال تھی جبکہ پنڈت ہری پرساد چورسیا عمر کی ۸۶؍ ویں  بہار دیکھ رہے ہیں ۔ اُن کے پیغام کی سب سے بڑی خوبی بے ساختگی، اپناپن اور خرد نوازی ہے۔ایسے الفاظ کا استعمال وہی فنکار کرسکتا ہے جو دوسرے فنکار کے تئیں  رقابت و مخاصمت کا نہیں  بلکہ عزت و احترام کا جذبہ رکھتا ہے۔
 استاد ذاکر حسین کی طبلہ نوازی کے محاسن بیان کرنے کیلئے طبلہ نوازی کے فن سے واقفیت ضروری ہے۔ یہ نہ تو ہمارا میدان ہے نہ میلان مگر اُن کے تعلق سے جو باتیں  سن رکھی ہیں  اُن کا اعادہ قارئین کیلئے ضروری معلوم ہوتا جس سے فن کے تئیں  ایسی رغبت ظاہر ہوتی ہے جو جنون میں  تبدیل ہوکر خود کو منوالے۔ بتایا جاتا ہے کہ ابتدائی دور میں  وہ سفر کے دوران ٹرین میں  جگہ نہ ملنے کے سبب ٹرین کی فرش پر اخبار بچھا کر لیٹ جاتے اور اس طرح سفر مکمل کرتے تھے۔ اُن کی یہ خوبی بھی متاثر کرتی ہے کہ طبلہ کہلانے والے آلۂ موسیقی کو ہمیشہ اپنی گود میں  لئے رہتے تھے، کبھی اُس کی ناقدری نہیں  ہونے دی۔ اپنے والد اُستاد اللہ رکھا خان کی سرپرستی میں  اُنہوں  نے طبلہ نوازی کے گُر سیکھنے کا سلسلہ اُس وقت شروع کردیا تھا جب اُن کی عمر صرف سات سال تھی۔اتنی کم عمری میں  بھی اُن کا جوش و جذبہ بلا کا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کمسنی ہی میں  اُنہوں  نے طبلہ میں  اپنی مہارت کا مظاہرہ شروع کردیا اور عوامی شوز میں  حصہ لینے لگے تھے۔ ۱۲؍ سال کی عمر میں  اپنے ایک مظاہرۂ فن کیلئے اُنہیں  پانچ روپے معاوضہ دیا گیا تھا۔ آج سوچئے تو لوگ مذاق سمجھیں  گے مگر یہ حقیقت ہے۔ یہ ۱۹۶۳ء کی بات رہی ہوگی، اُس دور میں  نہ تو فن پیشہ بنا تھا نہ ہی فنکار پیسوں  کیلئے فن کا مظاہرہ کرتا تھا۔تب جذبہ ہی اصل شناخت نامہ ہوا کرتا تھا۔  

یہ بھی پڑھئے :آئین پر پارلیمانی اجلاس

 استاد ذاکر حسین ہندوستانی موسیقی کے رموز و نکات سے واقف اور ان کے ماہر تو تھے ہی، ان کا ایک اور کارنامہ مغربی موسیقی کو انگیز کرکے ایک نئے طرز کی فنی پیشکش کی جرأت تھی۔ اِسی رجحان کا نتیجہ تھا کہ اُنہیں  کئی غیر ملکی ماہرین ِ فن (جن کا تعلق الگ الگ شعبہ ہائے فن سے ہے) سے اشترک کا موقع ملا اور ہندوستانی طبلہ نوازی چار دانگ عالم میں  تسلیم کی گئی۔ ان میں  ایلن جنسبرگ (شاعری، امریکہ)، جارج ہیریسن (موسیقار، گلوکار اور نغمہ نگار، برطانیہ)، جان ہینڈی (موسیقار، امریکہ) اور سر جارج ایوان موریسن (گلوکار ، نغمہ نگار، آئرلینڈ) کا نام خاص طور پر لیا جاسکتا ہے۔ اس اشتراک کے ذریعہ اُنہوں  نے ہندوستانی موسیقی کو عالمی سطح پر مقبول بنانے میں  اہم کردار ادا کیا۔ انہیں  پدم شری بھی دیا گیا اور پدم بھوشن بھی۔ اس کے علاوہ کئی غیر ملکی ایوارڈ اُن کے حصے میں  آئے۔ یہ فن کی قدر دانی سے زیادہ فن کے تئیں  اُن کے خلوص و عقیدت کا صلہ تھا۔ طبلہ کو عالمی آلۂ موسیقی کا مرتبہ عطا کرنے والا یہ فنکار محض طبلہ نواز نہیں  تھا، عالمی ثقافتی سفیر بھی تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK