• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

خدا کی مدد کا مستحق بننے کی شرط کیا ہے؟

Updated: August 09, 2024, 5:07 PM IST | Maulana Wahiduddin Khan | Mumbai

اللہ کا فرمان ہے:’’جب تم مدد کروگے تو تمہاری مدد کی جائے گی۔‘‘

At the place where the Battle of Ghazwa Khandaq took place, there is a magnificent mosque called "Jami Al-Khandaq". Photo: INN
غزوۂ خندق کا معرکہ جس جگہ پیش آیا وہاں ’’جامع الخندق‘‘ کے نام سے ایک عالی شان مسجد ہے۔ تصویر : آئی این این

رسول اللہ ﷺ کے غزوات میں سے ایک غزوۂ خندق ہے جو شوال ۵ھ میں پیش آیا۔ اس کو غزوۂ احزاب بھی کہا جاتا ہے، یعنی فوجوں کا غزوہ۔ اس جنگ میں عرب کے مختلف قبیلوں نے مل کر مدینہ ٔ منورہ پر حملہ کردیا تھا۔ قبائل قریش، قبائل غطفان اور قبائل یہود کے دس ہزار سے زیادہ افراد اس میں شریک تھے۔ یہ حملہ کتنا شدید تھا، اس کا اندازہ قرآن کے ان الفاظ سے ہوتا ہے : ’’جب وہ (کافر) تمہارے اوپر (وادی کی بالائی مشرقی جانب) سے اور تمہارے نیچے (وادی کی زیریں مغربی جانب) سے چڑھ آئے تھے اور جب (ہیبت سے تمہاری) آنکھیں پھر گئی تھیں اور (دہشت سے تمہارے) دل حلقوم تک آپہنچے تھے اور تم (خوف و امید کی کیفیت میں ) اللہ کی نسبت مختلف گمان کرنے لگے تھے، اُس مقام پر مومنوں کی آزمائش کی گئی اور انہیں نہایت سخت جھٹکے دئیے گئے۔ ‘‘ (احزاب:۱۰۔ ۱۱) مخالفین اسلام کا یہ لشکر پوری طرح ہتھیار بند تھا اور اس میں ساڑھے چار ہزار اونٹ اور تین سو گھوڑے تھے۔ 
دشمنوں نے مدینہ کو اس طرح گھیرے میں لے لیا تھا کہ باہر سے ہر قسم کی امداد آنا بند ہوگئی۔ سامانِ رسد کی اتنی کمی ہوئی کہ لوگ فاقے کرنے لگے۔ اسی دوران کا واقعہ ہے کہ ایک صحابی نے بھوک کی شکایت کی اور کرتا اٹھا کر دکھایا کہ پیٹ پر ایک پتھر باندھ رکھا ہے۔ رسولؐ اللہ نے اس کے جواب میں اپنا کرتا اٹھایا تو آپؐ کے شکم مبارک پر دو پتھر بندھے ہوئےتھے۔ 
رسولؐ اللہ کو جب معلوم ہوا کہ مختلف قبائل ایک ساتھ ہوکر مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں تو آپؐ نے صحابہ ؓ سے مشورہ کیا۔ حضرت سلمان فارسیؓ کی رائے کے مطابق طے ہوا کہ مدینہ میں رہ کر مقابلہ کیا جائے۔ اس وقت مدینہ تین طرف سے پہاڑوں، گھنے درختوں اور مکانات کی دیواروں سے گھرا ہوا تھا۔ شمال مغربی حصہ خالی تھا۔ طے ہوا کہ اس کھلے حصہ میں دو پہاڑوں کے درمیان خندق کھودی جائے چنانچہ چھ دن کی لگاتار محنت سے ایک خندق کھود کر تیار کی گئی۔ یہ خندق دشمنوں کی یلغار کو روکنے کے لئے اتنی کارآمد ثابت ہوئی کہ اس غزوہ کا نام غزوۂ خندق پڑ گیا۔ 

یہ بھی پڑھئے:سیرت ِنبویؐ میں نوجوانوں کی اہمیت،تربیت اور صلاحیت کا خصوصی ذکر ملتا ہے

سیرت کی کتابوں میں خندق کی تفصیلات جب ہم پڑھتے ہیں تو ایک سوال سامنے آتا ہے : ’’ایک معمولی خندق دشمنوں کی فوج کو روکنے کا سبب کیسے بن گئی؟‘‘ مذکورہ تفصیلات کے مطابق یہ خندق تقریباً چھ کلو میٹر لمبی تھی اور اس کی گہرائی اور چوڑائی ایک معمولی نہر سے زیادہ نہ تھی۔ وہ تقریباً ڈھائی میٹر گہری اور تقریباً تین میٹر چوڑی تھی۔ اس قسم کی خندق ایک مسلح فوج کیلئے ایک نالی سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی۔ وہ لوگ بآسانی اس کو عبور کرکے مدینے میں داخل ہوسکتے تھے۔ واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ اس خندق کے باوجود مسلمان دشمن فوج کے تیروں کی زد میں تھے، جیسا کہ حضرت سعد بن معاذؓ کو تیر لگنے سے ظاہر ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ تاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگ خندق کی دوسری طرف پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ عمرو بن عبد ود اور اس کے کچھ ساتھیوں نے گھوڑے پر سوار ہوکر خندق کا جائزہ لیا اور ایک جگہ خندق کو کچھ کم چوڑی دیکھ کر وہاں ٹھہرے اور گھوڑا کدا کر خندق کے دوسری طرف پہنچ گئے۔ اس کے بعد عمرو بن عبدود کا مقابلہ حضرت علیؓ ابن ابی طالب سے ہوا جس میں عمرو مارا گیا۔ تقریباً ایک مہینہ کا یہ محاصرہ اپنے آخری دنوں میں آندھی اور طوفان کے بعد ختم ہوگیا۔ آندھی نے دشمن کے لشکر میں اتنی بدحواسی پیدا کی کہ ابوسفیان نے اونٹ کی رسی کھولے بغیر اونٹ پر بیٹھ کر اس کو ہانکنا شروع کردیا۔ پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ ۱۰؍ہزار سے زیادہ تعداد کی مسلح فوجیں خندق کو عبور کرکے مدینہ میں کیوں نہ داخل ہوئیں جہاں تین ہزار آدمیوں کا بے سروسامان قافلہ ان کی یلغار کو روکنے کے لئے بالکل ناکافی تھا؟
  اس سوال کا جواب خدا کی ایک سنت میں ملتا ہے۔ وہ سنت یہ ہے کہ اللہ اہل ایمان کی طاقت ان کے دشمنوں کو بڑھا کر دکھاتا ہے تاکہ وہ مرعوب اور ہیبت زدہ ہوجائیں۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: ’’ہم عنقریب منکروں کے دلوں میں (تمہارا) رعب ڈال دینگے اس وجہ سے کہ انہوں نے اس چیز کو اللہ کا شریک ٹھہرایا ہے جس کے لئے اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ ‘‘ (آل عمران: ۱۵۱) اللہ تعالیٰ کی یہ نصرت، بیان کردہ رعب کی شکل میں غزوۂ خندق میں اور دیگر مواقع پر ظاہر ہوئی۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کی کھودی ہوئی نالی ان کے دشمنوں کو بہت بڑی خندق معلوم ہوئی۔ تاہم مسلمانوں کا اپنے ہاتھوں کو تھکا کر ایک ’’نالی‘‘ کھودنا ضروری تھا۔ اگر وہ نالی کھودنے میں اپنے ہاتھوں کو نہ تھکاتے تو خدا ان کی نالی کو خندق بنا کر کس طرح دوسروں کو دکھاتا؟ 
  اللہ تعالیٰ کی نصرتِ رعب جو قرن اول کے مسلمانوں کو کمال درجہ میں حاصل ہوئی، وہ بعد کے مسلمانوں کو بھی مل سکتی ہے، مگر شرط یہ ہے کہ وہ اس راستہ پر چلیں جس پر صحابہؓ خدا کے رسولؐ کی رہنمائی میں چلے تھے۔ کسی اور راستہ پر چلنے والے شیطان کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ پھر ان کو خدا کی نصرت کس طرح ملے گی؟ اللہ کی نصرت کا مستحق آدمی اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے آپ کو حق کے ساتھ اس طرح شامل کرے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے اس کو وہ حق کے حوالے کردے، وہ اپنے سر کا تاج دوسرے کے سر پر رکھ دے جیسا کہ ہجرت کے بعد مدینہ کے لوگوں نے کیا۔ 

یہ بھی پڑھئے:کردار کی بلندی کامیابی کا بہترین راستہ ہے

  خدا کی نصرت کا مستحق بننے کی شرط ایک لفظ میں یہ ہے کہ ’’جب تم مدد کروگے تو تمہاری مدد کی جائے گی۔‘‘ خدا ہماری مدد پر اس وقت آتا ہے جب کہ ہم دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کریں جو ہم خدا سے اپنے لئے چاہتے ہیں۔ ہماری ذات سے اگر دوسروں کو زحمت پہنچ رہی ہو تو خدا کے فرشتے ہمارے لئے خدا کی رحمت کا تحفہ لے کر نہیں آسکتے۔ اگر ہمارا یہ حال ہو کہ جس پر ہمارا قابو چلے اس کو ہم ناحق ستانے لگیں تو ناممکن ہے کہ خدا وہاں ہماری مدد کرے جہاں کوئی دوسرا ہمارے اوپر قابو پا کر ہمیں ستانے لگتا ہے۔ ایک آدمی اپنی مصیبت میں ہم کو پکارے اور ہم استطاعت کے باوجود اس کی پکار پر دھیان نہ دیں تو کبھی یہ ممکن نہیں کہ خدا اس وقت ہماری پکار کو سنے جبکہ کوئی طاقتور ہمارے اوپر چڑھ آتا ہے اور ہم خدا کو پکارنے لگتے ہیں۔ دنیا کی زندگی میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی کے مقابلہ میں آدمی طاقتور ہوتا ہے اور کسی کے مقابلہ میں کمزور۔ یہی صورت حال نصرت ِ خداوندی کے معاملہ میں آدمی کے امتحان کا پرچہ ہے۔ کوئی شخص یا قوم اپنے طاقتوروں کے مقابلہ میں خداکی جو نصرت چاہے اس کا ثبوت اس کو اپنے کمزوروں کے معاملہ میں دینا پڑتا ہے۔ اگر آدمی اپنے کمزوروں پر ظلم کرتا ہو تو اپنے طاقتوروں کے مقابلہ میں وہ خدا کی مدد کا مستحق نہیں بن سکتا، خواہ وہ کتنا ہی خدا کو پکارے، خواہ وہ کتنا ہی یومِ دعا منائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK