• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کردار کی بلندی کامیابی کا بہترین راستہ ہے

Updated: August 02, 2024, 4:54 PM IST | Maulana Abdul Salam Qadwai | Mumbai

 الله تعالیٰ مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ تم سب سے اچھی قوم ہو لیکن خیر الامم ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اغراض و خواہشات سے بلند ہو کر تمہارے اندر خدمت ِ خلق کا جذبہ اور خدا کے بندوں کو برائیوں سے بچا کر صحیح راستہ دکھانے کا ولولہ ہو اور اس خدمت کا خدا کے سوا اور کسی سے کوئی صلہ مطلوب نہ ہو۔

The best attribute of a human being is to be useful to others. Photo: INN
انسان کا بہترین وصف یہ ہے کہ وہ دوسروں کے کام آئے۔ تصویر : آئی این این

قرآن حکیم میں ہے: ’’اب دُنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ ‘‘ (آل عمران:۱۱۰)
 الله تعالیٰ مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ تم سب سے اچھی قوم ہو لیکن خیر الامم ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اغراض و خواہشات سے بلند ہو کر تمہارے اندر خدمت ِ خلق کا جذبہ اور خدا کے بندوں کو برائیوں سے بچا کر صحیح راستہ دکھانے کا ولولہ ہو اور اس خدمت کا خدا کے سوا اور کسی سے کوئی صلہ مطلوب نہ ہو۔ بندگان خدا کی بے غرض خدمت ایک مومن کا مقصد زندگی ہے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے الخلق عیال الله کہہ کر ساری خلقت کو خدا کا کنبہ قرار دیا اور اس کی خدمت کرنے کوحسن کردار کا معیار قرار دیا۔ سردار کے لئے قوم کا خادم ہونا ضروری ہے (سید القوم وخادمہم)․ اسی تعلیم کا اثر تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھیوں نے شروع ہی سے اس کی جانب توجہ کی۔ صحابہ کرامؓ اور بزرگان دین کی زندگی میں خدمت ِ خلق کے واقعات بہ کثرت ملتے ہیں۔ 
 حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ ایک بوڑھی عورت کی بکریاں دوہ دیا کرتے تھے۔ جب وہ خلیفہ ہوئے تو اس عورت کی چھوٹی بچی نے کہا اب یہ خلیفہ ہو گئے ہیں، ہماری بکریاں نہیں دو ہیں گے۔ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ میں اب بھی یہ خدمت انجام دیتا رہوں گا۔ چنانچہ وہ برابر اس پر عمل کرتے رہے۔ تجارت ذریعہ ٔمعاش تھا، خلافت کے بعد لوگوں نے کہا آپ تجارت میں لگے رہیں گے تو ملک کا نظام اور رعایا کی خبر گیری کون کرے گا؟! اس سوال کے پیش نظر اور لوگوں کے اصرار پر بیت المال سے معمولی تنخواہ لینے پر راضی ہو گئے مگر دل اس سے مطمئن نہ ہوا۔ 
انتقال کے وقت وصیت کی کہ میری جائیداد فروخت کرکے یہ ساری رقم بیت المال کو واپس کر دی جائے۔ وفات کے بعد حضرت عمر رضی الله عنہ کے سامنے جب معاملہ آیا تو بہت متاثر ہوئے۔ دیر تک روتے رہے اور فرمایا ابوبکر رضی الله تعالیٰ عنہ اپنے بعد والوں کیلئے بہت مشکل کر گئے۔ یہ مثال ہمیشہ ان کے سامنے رہی۔ مرتے وقت اپنے غلام کو ہدایت کی کہ یہ مکان اور املاک فروخت کرکے وہ رقم جو تنخواہ کے طور پر مجھے ملتی رہی ہے بیت المال میں داخل کر دی جائے۔ خلافت کا سارا زمانہ روکھا پھیکا اورموٹا جھوٹا پہن کر گزار دیا، غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرتے رہے۔ 
 حضرت عثمان رضی الله عنہ کی خوش حالی بہت مشہور ہے جس کے باعث غنی ان کے نام کا جز بن گیا، خلافت ملی تو اپنے عیش وآرام کو چھوڑ کر دوسروں کی راحت کی فکر میں لگ گئے۔ مؤرخین نے تصریح کی ہے کہ دوسرے لوگوں کو امیرانہ کھانا کھلاتے لیکن خود سرکہ اور روغن ِ زیتون سے روٹی کھاتے تھے، ایک پیسہ بیت المال سے نہیں لیا، اپنا تجارتی سرمایہ او رجائیداد سب خدمت ِ خلق میں صرف کر دی۔ 

یہ بھی پڑھئے:کسی پر احسان یا نیکی کرکے اسے جتانا، خود کو ثواب سے محروم کرنا ہے

حضرت علی رضی الله عنہ کا زہد وتقویٰ ضرب المثل ہے۔ رات دن خلافت کے کاموں میں لگے رہتے تھے، ان کے دور میں کیسے کیسے فتنوں کے دروازے کھل رہے تھے، لیکن علی مرتضیٰ ؓنے آخری لمحات ِحیات تک حق وصداقت کا علم بلند رکھا او رخدا کے بندوں کو راہ نجات دکھاتے رہے اور ان کی راحت رسانی میں لگے رہے۔ 
 صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہم اور بزرگان دین کی اسی بے لوث زندگی اور بے غرض خدمت کا نتیجہ تھا کہ الله تعالیٰ نے انہیں مخلوق کا محبوب بنا دیا تھا۔ جدھر وہ نکل جاتے تھے لوگ ان کے نقوش ِ قدم کو دلیل ِ راہ اور ان کی خاک ِ پا کو سرمہٴ چشم بناتے تھے۔ آج بھی اس نورِ زندگی میں یہی تاثیر ہے۔ صدیاں گزر گئیں لیکن خواجہ نظام الدین اب بھی محبوب الٰہی ہیں اور ان کا آستانہ بندگان خدا کا مرکز عقیدت ہے۔ 
  علی گڑھ کے قریب ایک صاحب مولوی رحمت الله رہتے تھے، بڑے مخلص اور درد مند تھے۔ جامعہ کے سنسکرت اور ہندی تھیالوجی کے استاد پنڈت حکم چند نے مجھے ان کا ایک عجیب واقعہ سنایا۔ مولوی صاحب کا تمام گھر گرستیوں کی طرح قاعدہ تھا کہ فصل کے زمانہ میں سال بھر کی ضرورت کا سامان خرید لیا کرتے تھے۔ جس سال دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو وہ حسب معمول اناج خریدچکے تھے۔ جنگ کے بعد قیمتیں بڑھنے لگیں اور چند ماہ میں ایک روپے کے بیس سیر والے گیہوں چار سیر کے بکنے لگے۔ ایک دن خبر ملی کہ مولوی صاحب اپنا اناج فروخت کررہے ہیں۔ خیال ہوا کہ بڑھی ہوئی قیمت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، لیکن جب لوگوں نے گیہوں کے دام پوچھے تو کہا کہ ایک روپے کے بیس سیر۔ لوگ حیرت سے مولوی صاحب کو دیکھنے لگے۔ سمجھے مذاق کر رہے ہیں۔ لیکن جب مولوی صاحب نے سنجیدگی کے ساتھ بار بار یہی کہا تو ان کے ایک بے تکلف دوست نے کہا مولوی صاحب! کیا غضب کرتے ہو؟ کیا گھر لٹانے کا ارادہ ہے؟ کہنے لگے پنڈت جی! اب مجھ سے یہ گیہوں کھائے نہیں جاتے، نوالے حلق میں پھنستے ہیں، مَیں بیس سیر فی روپے کے بھاؤ کے کھا رہا ہوں اور میرے غریب بھائی چار سیر کے حساب سے خرید رہے ہیں، یہ فرق طبیعت کو گوارہ انہیں ہوتا، اس لئے جس طرح بیس سیر کے خریدے تھے، اسی طرح بیس سیر فی روپے کے حساب سے بیچ دیتا ہوں اور اب اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح میں بھی چار سیر فی روپے کے حساب سے کھاؤں گا۔ 

یہ بھی پڑھئے:روحانیت کے لئے اوصاف ِحمیدہ کا خوگر بننا ضروری ہے

دوستو! گنتی کے پھیر میں نہ پڑو، وزن پیدا کرو، کاغذ کے سیکڑوں پرزے ہوا کے ایک جھونکے میں تتربتر ہو جاتے ہیں، مگر پتھر کی چٹان کو بڑی سے بڑی آندھی بھی نہیں ہلا پاتی۔ شکایت کی عادت چھوڑ دو، اپنا کردار اور کیریکٹر بلند کرنے کی کوشش کرو، دوسروں کو بُرا کہنے میں اپنا بھلا نہیں ہے، طاقت باہر نہیں ہے، خود اپنے اندر ہے۔ آپ کے اخلاق بلند ہوں گے، دل میں خلوص اور طبیعت میں بے غرضی ہو گی تو دشمن بھی آپ سے محبت کرنے لگیں گے۔ لیکن کج خلقی اور نفس پروری دوستوں کو بھی متنفر کر دے گی۔ 
  ذرا پیچھے پلٹ کر اپنی تاریخ کو دیکھو! تمہارے پاس ملک، سازو سامان کیا کچھ نہیں تھا اور خود غرضی اور ہوا ہوس کے ہاتھوں دانے دانے کو محتاج ہو گئے، عروج وزوال کی اس داستان سے سبق لو، دوسروں کی طرف نہ دیکھو، اپنی طرف دیکھو، اپنے اخلاق کو سنبھالو، اپنی عادت درست کرو، اپنے ایمان و اعمال صالح سے آراستہ ہو کر زندگی کے میدان میں قدم رکھو اور دنیا کو دکھا دو کہ رحمت عالم ﷺ کے نام لیوا آج بھی بندگان خدا کیلئے باعث ِ زحمت نہیں، باعث ِ رحمت ہیں۔ اگر تم نے ایسا کر لیا تو دیکھو گے کہ وقت کا دھارا کس طرح تمہارے موافق ہو جائے گا اور عزت و سرفرازی اور عروج واقبال کی متاع ِ گم گشتہ پھر تمہارے ہاتھ میں آجائے گی۔ عہد کرو کہ آج کے بعد تمہاری زندگی کا ایک نیا دور شروع ہو گا، حرص وہوا کی تاریکیوں سے نکل کر ایمان ویقین کی روشنی میں قدم آگے بڑھاؤ گے اور بے اعتدالی اور بے راہ روی کے بجائے صراط مستقیم پر گامزن رہو گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK