• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

راہل گاندھی کو ملنے والی دھمکیوں پرحکومت کی خاموشی کا مطلب اور مقصد کیاہے؟

Updated: September 23, 2024, 5:10 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

وزیراعظم مودی کے امریکی دورے سے قبل اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی امریکہ گئے تھے۔ وہاں پر انہوں نے میڈیا کے ساتھ ہی کئی مختصر عوامی جلسوں سے خطاب کیا تھا اور کئی اہم میٹنگوں میں بھی شرکت کی تھی۔

Rahul Gandhi. Photo: INN
راہل گاندھی ۔ تصویر : آئی این این

وزیراعظم مودی کے امریکی دورے سے قبل اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی امریکہ گئے تھے۔ وہاں پر انہوں نے میڈیا کے ساتھ ہی کئی مختصر عوامی جلسوں سے خطاب کیا تھا اور کئی اہم میٹنگوں میں بھی شرکت کی تھی۔ ان میٹنگوں اور جلسوں میں امریکی قانون سازوں، صنعتکاروں، دانشوروں اور طلبہ کے ساتھ ہی این آر آئیزکی بڑی تعداد شریک ہوئی تھی۔ راہل اوران کی پارٹی کیلئے یہ دورہ نہایت کامیاب رہا۔ وزیراعظم کے دور ے سے قبل اپوزیشن لیڈر کے اس دورے کو ایک ’بنچ مارک‘ کے طور پر دیکھا گیا اور خیال کیا گیا کہ مودی کی واپسی پر راہل سے ان کا موازنہ ہوگا۔ ہندوستان میں یہی بات حکمراں محاذ کو راس نہیں آئی، جس کے نتائج ہم مختلف صورتوں میں دیکھ رہے ہیں۔ 
 امریکہ میں راہل گاندھی کی باتوں، بالخصوص اقلیتوں اور ریزرویشن کے حوالے سے دیئے گئے اُن کے بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور ملک میں ان کے تئیں عوامی سطح پر نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن کیا واقعتاً راہل گاندھی نے ایسا ہی کچھ کہا ہے جیسا کہ بی جے پی اور اس کے لیڈران باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں یا اس ہنگامہ آرائی کے پس پشت کوئی اور بات ہے؟ ٹیکنا لوجی کے اس دور میں جبکہ دنیا ایک ’گلوبل ولیج‘ بن چکی ہے، کسی جھوٹ کو پَر نہیں لگایا جاسکتا لیکن یہ بھی ایک بڑی سچائی ہے کہ ’’کسی جھوٹ کو اگر ۱۰۰؍ بار بولاجائے تو اس پر سچ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ ‘‘ بی جے پی اور اس کے نظریات سے اتفاق کرنے والے لیڈران آج یہی کر رہے ہیں۔ امریکہ میں راہل گاندھی کے بیان سے یہاں اقلیتوں میں کوئی اشتعال پیدا ہوا، نہ ہی ریزرویشن پانے والے دلتوں اور پسماندہ طبقوں میں کوئی بے چینی ہے لیکن بی جے پی کے لیڈران اپنے بیانات سے مسلسل یہی باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے بیان سے عوامی سطح پر ناراضگی اور بے چینی ہے اور اس کا ناراضگی کا نتیجہ ’کچھ بھی ‘ ہوسکتا ہے۔ 
  یہی وہ چیز ہے جسے ’پروپیگنڈہ‘ کہتے ہیں۔ اس سے قبل کہ ہم راہل کے خلاف بی جے پی کے بیانات پر گفتگو کریں، ایک نظر جرمن کے بدنام زمانہ حکمراں ہٹلر کے دست راست گوئبلز پر بھی ڈالتے چلیں جو ہٹلر کی کابینہ کا ’وزیر برائے تشہیر‘ تھا۔ اس کے تعلق سے کہا جاتا تھا کہ وہ ’لگاتار جھوٹ بول کرکسی جھوٹ کو سچ بنادینے‘ میں مہارت رکھتا تھا۔ اس نے نازی دور میں ‌ جرمنی کے عوام کو ہٹلر کی حکومت اور اس پالیسیوں کی حمایت پر قائل کرنے کیلئے کئی بے بنیاد جھوٹ گھڑے تھے اور کچھ ایسی باتیں بھی مشہور کردی تھیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بہرحال آگے چل کر وہ دن بھی آیا جب اپنے ہی ’جھوٹوں ‘ کے جال میں وہ پھنس گیا اور یکم مئی۱۹۴۵ء کو اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا۔ گوئبلز کے ذریعہ پھیلائے جانے والے جھوٹ کے ۲؍ مقاصد تھے۔ اول یہ کہ جرمن کے عوام پر ہٹلر کی عظمت قائم ہو اور یہ عظمت اس حد تک ہوجائے کہ ہٹلر کی پرستش ہونے لگے۔ دوم یہ کہ ہٹلر کے مخالفین کے تئیں عوام میں نفرت کا جذبہ پیدا ہو اور یہ نفرت اس حد تک بڑھ جائے کہ لوگ ان کی جان کے دشمن بن جائیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہندوستانی سیاست بھی بڑی حد تک نازی سیاست سے متاثر ہونے لگی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:’بلڈوزر راج‘ میں کوئی عمارت بعد میں گرتی ہے،قانون اورعدالت کا بھرم پہلے ٹوٹتا ہے

راہل گاندھی نےامریکی شہر ورجینیا میں ہندوستان میں اقلیتوں کے حالات اور مذہبی آزادی پرگفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’پہلے تو آپ کو سمجھنا ہوگا کہ لڑائی کس لئے ہے؟یہ لڑائی سیاست سےمتعلق نہیں ہے؟‘‘ اس کے بعد انہوں نے وہاں جلسے میں موجود ایک سکھ نوجوان کو مخاطب کرتے ہوئےاس کا نام پوچھا اور پھر اسی کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’لڑائی اس بات کی ہے کہ ہندوستان میں سکھوں کو پگڑی باندھنے اور کڑا پہننے کی اجازت ہوگی یا نہیں ؟ وہ گردوارہ جاسکیں گے یا نہیں ؟ یہ لڑائی صرف ان کیلئے نہیں بلکہ تمام مذاہب کیلئے ہے۔ ‘‘ یہ بات سکھوں کیلئے نہیں بلکہ ملک کی تمام اقلیتوں کیلئے تھی لیکن اس بیان کے ایک حصے کو بی جے پی نے اُچک لیا اوراسے سیاق و سباق سے ہٹاکر ’سکھ مخالف‘ بیان کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ یکے بعد دیگرے کئی بیانات کے بعد بی جے پی کے ایک لیڈر ترویندرسنگھ مرواہ نےاس کی انتہا کردی۔ راہل گاندھی کو دھمکی دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’تمہارا حشر بھی تمہاری دادی (سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی) جیسا ہو گا۔ ‘‘
 راہل گاندھی کا دوسرا بیان ریزرویشن سے متعلق تھا۔ ایک طالب علم نے سوال کیا تھاکہ ہندوستان میں ریزرویشن کب تک جاری رہے گا اور کیا کانگریس اسے ختم کرنے کے بارے میں کبھی غور کرے گی؟ راہل گاندھی نے اس کے جواب میں کہا کہ ابھی ملک کے حالات ایسے نہیں ہیں، لیکن جب بھی ریزرویشن کے معاملے میں امتیاز ختم ہو جائےگا اور مساوات قائم ہوجائے گی، پارٹی اس کے بارے میں سوچے گی۔ ‘‘ انہوں نے زور دے کر یہ بات کہی تھی کہ’’ فی الحال ملک میں صورتحال منصفانہ نہیں ہے۔ ‘‘ بی جے پی نے اس بیان کو ریزرویشن مخالف قرار دیتے ہوئے راہل گاندھی کے خلاف ایک طومار باند ھ دیا۔ اگر ان بیانات کو ایک ترتیب سے دیکھیں تو اس میں گوئبلز کی تکنیک دکھائی دے گی۔ 
 پھر تو بیانات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا جن میں سے بعض گوئبلز سے بھی آگے نکل گئے۔ ملاحظہ کریں :
 کانگریس کا شاہی خاندان ایک بار پھر ریزرویشن ختم کرنے کیلئے زور دے رہا ہے، لیکن کانگریس کو کھلے کانوں سے میری یہ بات سن لینی چاہئے۔ جب تک مودی ہے، تب تک بابا صاحب امبیڈکر کے دیئے گئے ریزرویشن کا ایک ذرہ بھی کسی کو لوٹنے نہیں دوں گا۔ 
 نریندر مودی (وزیراعظم)
 ریزرویشن ختم کرنے کی بات کرکے راہل گاندھی نے ایک بار پھر کانگریس کا ریزرویشن مخالف چہرہ ملک کے سامنے لادیا ہے۔ ذہن میں موجود خیالات کسی نہ کسی موقع پر باہر آہی جاتے ہیں لیکن میں راہل گاندھی کو بتادینا چاہتا ہوں کہ جب تک بی جے پی ہے، کوئی بھی ریزرویشن کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ 
 امیت شاہ (مرکزی وزیرداخلہ)
 راہل گاندھی سب سے بڑے دہشت گرد ہیں۔ سرکاری ایجنسیوں کو چاہئے کہ انہیں پکڑنے کیلئےانعام مقرر کریں کیونکہ وہ ملک کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ 
رونیت سنگھ بٹو (وزیر مملکت برائے ریلویز)
 راہل گاندھی کی زبان داغ دی جانی چاہئے۔ ریزرویشن کے بارے میں انہوں نے جو کچھ کہا ہے، وہ کافی خطرناک ہے۔ 
– انیل بوڑے( بی جے پی کے راجیہ سبھا رکن اور سابق وزیر)
ملک سے ریزرویشن ختم کرنے کی بات کرکے انہوں نے کانگریس کا اصلی چہرہ دکھا دیا ہے۔ جو بھی راہل گاندھی کی زبان کاٹے گا، میں اسے۱۱؍ لاکھ روپے انعام دوں گا۔ ‘‘ سنجے گائیکواڑ( رکن اسمبلی، شیوسینا، شندے )
 ان بیانات کا تسلسل گوئبلز کی پالیسی کے تناظر میں دیکھئے۔ اسی وجہ سے کانگریس نے تشویش کااظہار کیا ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر جے رام رمیش نےبی جے پی کے صدر اور مرکزی وزیر جے پی نڈا کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’مہاتما گاندھی کے المناک قتل سے پہلے آپ کے نظریاتی اجداد نے مہاتما گاندھی کے خلاف اسی طرح تشدد اور نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ ‘‘
 ملک میں نفرت کا یہ ماحول آج سے نہیں، برسوں سے جاری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کل تک نفرت کا یہ ماحول مسلمانوں اور بسا اوقات دلتوں کے خلاف تھا، لیکن آج اس کا دائرہ بڑھ گیا ہے۔ اب اس کی زد پر مسلمانوں اور دلتوں کے ساتھ ہی سیاسی مخالفین بھی آگئے ہوں، خواہ وہ لیڈر ہوں یا انہیں ووٹ دینے والے رائے دہندگان۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK