صبر اور حوصلہ کے ساتھ ہاری ہوئی بازی بھی جیتی جاسکتی ہے اور یہ بات ٹیم انڈیا کی فتح پر بالکل صادق آتی ہے، ٹیم کے کوچ راہل دراوڑ کو اس فتح کا پورا کریڈٹ ملنا چاہئے۔
EPAPER
Updated: July 10, 2024, 4:44 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai
صبر اور حوصلہ کے ساتھ ہاری ہوئی بازی بھی جیتی جاسکتی ہے اور یہ بات ٹیم انڈیا کی فتح پر بالکل صادق آتی ہے، ٹیم کے کوچ راہل دراوڑ کو اس فتح کا پورا کریڈٹ ملنا چاہئے۔
کہتے ہیں کہ صبر اور حوصلہ ہو تو ہاری ہوئی بازی بھی جیتی جاسکتی ہے اور یہ بات ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں ٹیم انڈیا کی فتح پر بالکل صادق آتی ہے کیوں کہ جس وقت کلاسین اور پھر ڈیوڈ ملر کریز پر موجود تھے، ہندوستانی ٹیم کے جیتنے کے امکانات ۱۰۰؍ میں سے صرف ۲۰؍ فیصد تھے لیکن جب ٹیم انڈیا کے گیند بازوں اور فیلڈروں نےکمر کس لی اور جنوبی افریقہ کوایک مرتبہ پھر آئی سی سی ٹرافی سے دور کرنے کی ٹھان لی تو پھر انہیں روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ ٹیم انڈیا کے لئے یہ بہت بڑی فتح ہے کیوں کہ یہ تقریباً ۱۱؍ سال کے انتظار کے بعد آئی ہے۔ آخری مرتبہ ہندوستانی ٹیم نے کوئی آئی سی سی ٹرافی ۲۰۱۳ء میں چمپئنز ٹرافی کی صورت میں جیتی تھی جبکہ ورلڈ کپ اس سے ۲؍ سال قبل ۲۰۱۱ء میں حاصل کیاتھالیکن یہ جیت اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کیوں کہ ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ میں ٹیم نے آخری ٹرافی ۲۰۰۷ء میں جیتی تھی۔ جس طرح سے وہ ورلڈ کپ فائنل یادگارتھا اسی طرح سے یہ بھی یادگار رہا۔ حالانکہ ۲۰۰۷ء میں ٹیم انڈیا کا مقابلہ اپنے روایتی حریف پاکستان سے تھا اور پاکستان کے کھلاڑی مصباح الحق نے ٹیم کو جیت کے دہانے پر پہنچادیا تھا۔ آخری اووَرمیں انہوں نے چھکے لگاکر اسکوربورڈ کو پاکستان کے حق میں کردیا تھا۔ اس وقت بھی کروڑوں مداحوں نے امید چھوڑ دی تھی کہ اب یہاں سے ٹیم انڈیا کی جیت ممکن نہیں لیکن مصباح الحق نے خودغلطی کردی اور میچ پاکستان کی جھولی سے نکال کر ٹیم انڈیا کی جھولی میں ڈال دیا۔ ۲۰۲۴ء کے ورلڈ کپ فائنل میں بھی کم و بیش وہی نظارے تھے۔ ٹیم انڈیا نے سنجیدہ بلے بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ۱۷۶؍ رنوں کا قابل دفاع اسکور بنایا تھا لیکن جیسی بلے بازی لائن اَپ جنوبی افریقہ کے پاس ہے اسے دیکھتے ہوئے ملک کے لاکھوں مداحوں کی دھڑکنیں مسلسل بے ترتیب ہو رہی تھیں کہ کہیں ڈی کاک، مارکرم، کلاسین اور ڈیوڈ ملر اس اسکور کو بَونا نہ ثابت کردیں لیکن ٹیم انڈیا نے جسپریت بمراہ کی قیادت میں نہ صرف بہترین گیند بازی کی بلکہ فیلڈنگ میں بھی مہارت کامظاہرہ کیا جس کی وجہ سے ورلڈ کپ ٹیم انڈیا کے حصے میں آیا۔
آخری اووَر میں جب ڈیوڈ ملر نے ہاردک پانڈیا کی گیند کو بائونڈری کی طرف اچھالا تو پوری دنیا میں موجود کروڑوں ہندوستانی شائقین کا دل حلق میں آگیا ہو گا اور ہمارے ساتھ ساتھ انہیں بھی محسوس ہوا ہوگا کہ اب میچ گیا ہاتھ سے لیکن بائونڈری لائن پر موجود سوریہ کمار یادو نے جس سوجھ بوجھ اور برق رفتاری کا مظاہرہ کیا اور جس انداز میں انہوں نے کیچ لیا وہ اب برسوں تک یاد کیا جائے گا بالکل اسی طرح جیسے کپل دیو نے ۱۹۸۳ء کے ورلڈ کپ فائنل میں اپنے عقب میں دوڑتے ہوئے ووین رچرڈس کا کیچ لے کر پانسہ پلٹ دیا تھا۔ سوریہ کمار یادو نے جب بائونڈری لائن پر کیچ پکڑا اور پھر اسے اچھالا تو کئی لوگوں کو’’ دل بَلّیوں اچھلنے‘‘ کا محاورہ سمجھ میں آگیا ہو گا۔ تعاقب کا پیچھا کرنے میں جنوبی افریقہ نے بہترین بلے بازی کی اور ۱۵؍ اوورس تک ٹیم انڈیا کو حاوی ہونے کا موقع ہی نہیں دیا لیکن آخری ۵؍اوورس میں میچ کا اصل رومان اورٹی ٹوینٹی کرکٹ کی غیر متوقع تیز رفتاری سامنے آئی۔ حالانکہ پورے میچ میں جنوبی افریقہ اور ہندوستان دونوں نے بلے بازی، گیند بازی اور فیلڈنگ کا بہترین مظاہرہ کیا لیکن آخری ۵؍ اوورس میں ٹیم انڈیا کا جوش اور جذبہ لائق تحسین تھا کیوں کہ ٹیم انڈیا نے ان ۵؍ اوورس میں پوری جان لگادی تھی۔ نہ صرف گیند بازی بلکہ فیلڈنگ میں بھی ٹیم نے قابل ستائش مظاہرہ کیا۔
یہ بھی پڑھئے: مہاراشٹر کے نتائج اسمبلی الیکشن میں کیا گل کھلائیں گے؟
اس فتح نے ٹیم انڈیا کے ماضی کے تمام بہترین مظاہروں کی ایک طرح سے تصدیق کی کیوں کہ ہندوستانی ٹیم نے محض ۷؍ ماہ کے عرصے میں دوسرا ورلڈ کپ فائنل کھیلا ہے جبکہ ٹیسٹ چمپئن شپ کی بات کی جائے تو یہ بھی ۲۰۲۳ء میں ہو چکی ہے۔ اس کے فائنل میں بھی ٹیم انڈیا ہی موجود تھی۔ حالانکہ بدقسمتی سے ٹیم انڈیا ٹیسٹ چمپئن شپ اور ونڈے ورلڈ کپ فائنل دونوں میں آسٹریلیا سے شکست کھاگئی لیکن اس مرتبہ ٹیم انڈیا نے ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ جیسی مضبوط ٹیم کو شکست دی۔ اس فتح سے عالمی کرکٹ میں ٹیم انڈیا کا دبدبہ بھی بڑھ گیا ہے اور اس کی ساکھ میں بھی اضافہ ہوا ہے کیوں کہ ۲۰۱۳ء کے بعد سے اگر ۲۰۲۱ء کے ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ کو چھوڑ دیا جائے تو ٹیم انڈیا ہر آئی سی سی ٹورنامنٹ میں بہترین مظاہرہ کرتے ہوئے ناک آئوٹ مرحلے تک پہنچ رہی تھی جس میں ۲۰۱۵ء کے ورلڈ کپ کا سیمی فائنل، ۲۰۱۷ء کی چمپئنز ٹرافی کا فائنل، ۲۰۱۹ء ورلڈ کپ کا سیمی فائنل، آئی سی سی کی ٹیسٹ چمپئن شپ کے دونوں فائنل، ۲۰۲۲ء کے ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ کا سیمی فائنل اور پھر ۲۰۲۳ء کےونڈے ورلڈ کپ کا فائنل شامل ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ٹیم انڈیا نے گزشتہ ۱۰؍ سال میں کرکٹ کے ہربڑے ٹورنامنٹ میں بہترین کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹاپ ۲؍ یا ۴؍ ٹیموں میں جگہ بنائی ہے لیکن وہ بدقسمتی سےہر ٹورنامنٹ کے آخری مرحلے میں شکست سے دوچار ہو رہی تھی لیکن اس مرتبہ یہ طلسم بھی ٹوٹا ہے اور اب امید کی جاسکتی ہے کہ ٹیم انڈیا یہاں سے ہر بڑے ٹورنامنٹ میں بہترین مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف مزید ٹرافیاں جیتے گی بلکہ ملک کے کروڑوں مداحوں کو بار بار جشن منانے کا موقع بھی دیتی رہے گی۔
ٹیم انڈیا کی فتح کی کہانی کے کئی ہیرو رہپے جن میں روہت شرما، وراٹ کوہلی، جسپریت بمراہ، ارشدیپ سنگھ، اکشر پٹیل اور سوریہ کمار یادو قابل ذکر ہیں ۔ ان میں سے روہت شرما اور وراٹ کوہلی نے فتح کے فوراً بعد بین الاقوامی ٹی ٹوینٹی کرکٹ سے سبکدوشی کا اعلان کردیا۔ یہ دونوں عظیم کھلاڑی اب ہر چند کہ ٹی ٹوینٹی کرکٹ نہیں کھیلیں گے لیکن دونوں ہی وَن ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ میں فی الحال نظر آئیں گے۔ اب ٹی ٹوینٹی کرکٹ میں بہترین مظاہرہ کی ذمہ داری نوجوان کھلاڑیوں پر آگئی ہے جو روہت اور وراٹ سے تحریک لیتے ہوئے ٹیم انڈیا کے دبدبے کو ایسے ہی برقرار رکھ سکتے ہیں۔
لیکن ان کھلاڑیوں کی جے جے کار میں وہ شخصیت پیچھے چھوٹ رہی ہے جس کی تربیت اور کوچنگ میں ٹیم انڈیا نے گزشتہ کچھ برسوں میں بہترین مظاہرہ کیا ہے۔ وہ ہیں راہل دراوڑ ۔ ان کے تعلق سے گفتگو ہو تو رہی ہے لیکن بہت کم، جبکہ پردہ کے پیچھے رہ کر دراوڑ نے ہی ٹیم انڈیا کی کامیابی کی پوری کہانی لکھی۔ کچھ موقعوں پر ٹیم ناکام ضرور ہوئی ہے لیکن ٹیم کے مظاہرہ کی بھرپور تعریف ہوئی۔ خاص طور پر وَن ڈے ورلڈکپ میں ٹیم انڈیا کی مہم اور اس کے مظاہرے کی پوری دنیا میں تعریفیں ہوئیں لیکن بدقسمتی سے ٹیم فائنل میں ہار گئی۔ اس کے بعد راہل نے بھی کوچنگ کا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن روہت شرما کے فون کال نے راہل دراوڑ کو دوبارہ جوش اور جذبہ دیا کہ وہ ٹیم کی کوچنگ کریں۔ ویسے یہ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ راہل دراوڑ کا کریئر ویسٹ انڈیا میں ۲۰۰۷ء کے ورلڈ کپ میں بدترین مظاہرہ کے بعدڈھلان کی جانب گامزن ہو گیا تھا اور اس کے بعد انہیں یکروزہ ٹیم سے ہٹادیا گیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے چند برس میں ریٹائرمنٹ لے لیا لیکن اب اسی ویسٹ انڈیز میں انہوں نے بطور کوچ ٹیم کو نہ صرف ورلڈ کپ دلادیا بلکہ ۲۰۰۷ء کی ناکامی کا داغ بھی دھودیا۔ ویسے سوشل میڈیا پر راہل کے اس مظاہرہ کا موازنہ شاہ رخ خان کی بلاک بسٹر فلم ’چک دے انڈیا ‘ سے بھی کیا جارہا ہے کیوں کہ اس میں بھی ایسے ہی ایک کوچ کی کہانی فلمائی گئی ہے جس کی کپتانی میں ہاکی ٹیم فائنل ہار جاتی ہے لیکن وہ کئی برسوں بعد گمنامی کے اندھیرے سے نکل کر بہت کمزور خواتین ہاکی ٹیم کو ورلڈ کپ جتانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ویسے یہ محض اتفاق ہو سکتا ہے لیکن اتنا حسین اتفاق کم کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔