مودی خود نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور یہ ان کی ذاتی نہیں بلکہ سیاسی نفسیات کا مسئلہ ہے اور وزیر اعظم کی سیاسی نفسیات کی اصلاح اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک وہ فرقہ واریت کی سطح سے اوپرنہیں اٹھتے جو اُن کی پارٹی کا بنیادی ایجنڈا ہے۔
EPAPER
Updated: April 28, 2024, 6:28 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai
مودی خود نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور یہ ان کی ذاتی نہیں بلکہ سیاسی نفسیات کا مسئلہ ہے اور وزیر اعظم کی سیاسی نفسیات کی اصلاح اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک وہ فرقہ واریت کی سطح سے اوپرنہیں اٹھتے جو اُن کی پارٹی کا بنیادی ایجنڈا ہے۔
اگریہ درست ہے کہ عام انتخابات میں ۲؍ مرحلوں کی پولنگ کے دوران ووٹنگ کے کم فیصد کے سبب بی جے پی اور بالخصوص وزیر اعظم مودی فرقہ واریت پر اُترآئے ہیں تو اس میں گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ ایسے جتنے بھی مواقع آتے ہیں، ان میں بی جےپی لیڈروں کے چہرے سے نقاب اُترجایاکرتے ہیں۔ کئی باتیں کھل کر سامنے آجاتی ہیں اوربھی بہت کچھ واضح ہوجاتا ہے۔
وزیر اعظم مودی نے گزشتہ دنوں راجستھان کے بانسواڑہ میں ریلی کے دوران سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ۲۰۰۶ء میں دئیے گئےایک بیان کی بنیاد پرملک کی سب سے بڑی اقلیت کو جس انداز میں نشانہ بنایا اورپھر اس کے اگلے ہی دن علی گڑھ میں حج کوٹہ بڑھوانے کا سہرہ جس انداز میں اپنے سرباندھا، اس نے بہت کچھ واضح کردیا ہے۔ وزیر اعظم مودی کی حیثیت ایک انتہائی سرگرم اور فعال لیڈر کی ہے۔ خاص طورانتخابات کے ایام میں تووہ نہ ریلیوں سے تھکتے ہیں، نہ دوروں سے۔ یہ ان کا ایک مثبت پہلو توہے لیکن یہ اپنے اندر منفی نوعیت بھی رکھتا ہے۔ وزیر اعظم مودی اپنی سرگرمی اورفعالیت کے سبب ہمیشہ ہشاش بشاش نظر آتے ہیں۔ ان کا لباس، وضع قطع، ان سب سےوہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ملک کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں بلکہ یہ دعویٰ بھی کرنے لگے ہیں کہ دنیا ہندوستان کو پُرامید نظر وں سے دیکھ رہی ہے۔ یعنی ان کی قیادت نے ہندوستان کو یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ وہ پوری دنیا کا نورنظر بن گیا ہے۔ دوسری جانب اندرونی طورپر ملک جس کرب سے گزررہا ہے، اس پر وزیراعظم اور ان کی پارٹی کوئی توجہ نہیں دینا چاہتی۔
یہ وزیر اعظم مودی کی نفسیات کا حصہ ہے کہ وہ ہندوستان کو دنیا کے نورِنظر کے طورپیش کرچکے ہیں اوریہ تاثر ان کی پوری بی جے پی میں قائم ہے۔ وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کے اہداف کا دائرہ در اصل بین الاقوامی بن چکا ہے۔ ملک کے حالات جو بھی ہوں، اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ملک کے حالات کو وہ اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں اورانتخابی مہموں میں بیانات کا دائرہ بین الاقوامی سطح پر اپنی کچھ حصولیابیوں کو بناتے ہیں۔ مودی اور ان کی حکومت کیلئےپاکستان میں سرجیکل اسٹرائک اور جی ٹوینٹی کی میزبانی بہت بڑی کا میابی ہےلیکن منی پور میں نسلی تشدد اورانہیں روکنے میں حکومت کی ناکامی کوئی ناکامی نہیں ہے۔ ایودھیا اوردبئی میں مندر کی تعمیرمودی اور ان کی حکومت کیلئے اہم ترین سنگ میل ہے، لیکن ملک میں گیان واپی، کاشی اور متھرامیں تاریخی مقامات سے متعلق مسلسل بڑھنے والی عدالتی چارہ جوئی اور فرقہ وارانہ رنجش ان کیلئے سرے سے کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ مودی حکومت اپنی عا لمی سفارتکاری پر نازاں ہے، لیکن ملک میں کسانوں، مزدوروں، خواتین اوربےروزگارنوجوانوں سے جب وہ ان برسوں میں سراپا احتجاج رہے، رابطہ کرنے میں ناکامی حکومت کیلئے کوئی ناکامی ہی نہیں ہے۔ ناکامی تو کیا، مودی اور ان کے وزیروں کوان باتوں میں کوئی معمولی خامی تک نظر نہیں آتی۔ وزیر اعظم مودی نے خاتون پہلوان ونیش پھوگاٹ سےکبھی ایک تقریب میں خوشگوارماحول میں گفتگو کی تھی لیکن یہی ونیش پھوگاٹ اوردیگر خواتین پہلوان جب بی جے پی لیڈر برج بھوشن پر جنسی زیادتی کا الزام لگاتے ہوئے احتجاج پر بیٹھیں تومودی اور حکومت کی نظر میں ان کی حیثیت متنازع ہوگئی۔ مودی اور ان کےزیر اثر بی جے پی لیڈروں کی یہی خاصیت ہے کہ وہ تنازعات کا سبب تو بنتے ہیں لیکن کمال عیاری سے ان تنازعات سے خود کودورکرلیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اپوزیشن کے خلاف بی جےپی کے حربے اور اقدامات اس کے خوف کی علامت ہیں
سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ۲۰۰۶ء میں دئیے گئے ایک بیان کو بنیاد بناکروزیر اعظم مودی نے مسلمانوں کیلئے جو نازیبا الفاظ استعمال کئے ان میں بھی وزیر اعظم مودی کی یہی نفسیات کام کررہی تھی کہ ایسے کسی بیانات سے نہ انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا، نہ ان کی حکومت کو اور نہ ان کی پارٹی کو۔ انہیں یہ احساس بھی نہیں تھا کہ ان کا بیان کسی فرقےکے خلاف تھا۔ اس کا مطلب واضح ہےکہ وزیر اعظم اور ان کی پارٹی سیاسی طورپر بے حس ہوچکے ہیں۔ سیاست میں وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ دوسرے ہی دن علی گڑھ میں حج کوٹہ بڑھوانے کا کریڈٹ بھی انہوں نے بڑی آسانی سے لے لیا۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ۲۰۰۶ء میں جو یہ بات کہی تھی کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہےوہ در اصل اقلیتی اسکیموں کے پس منظر میں کہی تھی۔ انہوں نے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ اقلیتوں کے تعلق سے جو اسکیمیں ہیں اوران کیلئے جو وسائل بروئے کارلانے ہیں ان پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ ظاہر ہےمنموہن سنگھ نے ایسا اس لئے کہا کہ مسلمان اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ یعنی جب بات مجموعی ترقی کی ہوگی تووسائل پر پہلا حق اکثریتی طبقے کا ہی تسلیم کیاجائے گا، اس میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتی۔
اس واضح سی بات کو بنیاد بناکر وزیر اعظم مودی نے مسلمانوں پر دوالزام دھر دئیے۔ ایک تو انہیں زیادہ بچے پیدا کرنے والا بتا دیا اور دوسرے درانداز بھی قرار دے دیا۔ یہ بھی کہا کہ کانگریس ان دراندازوں میں ملک کی دولت تقسیم کرنا چاہتی اور پھر خواتین کے منگل سوتر بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ دوسرے دن علی گڑھ میں مودی نے سماجوادی پارٹی اورکانگریس پر مسلمانوں کی بہبود کیلئے کچھ نہ کرنے کا الزام لگایا۔ ایک طرف انہیں یہ اندیشہ ہےکہ کانگریس ملک کی دولت مسلمانوں میں تقسیم کر دے گی اور دوسری طرف ان کا یہ دعویٰ ہےکہ کانگریس نے مسلمانوں کی بہبودکیلئےکچھ نہیں کیا بلکہ ان کی حکومت کررہی ہے۔ وزیر اعظم مودی خود نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور یہ ان کی ذاتی نہیں بلکہ سیاسی نفسیات کا مسئلہ ہے اوروزیر اعظم کی سیاسی نفسیات کی اصلاح اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک وہ فرقہ واریت کی سطح سے اوپرنہیں اٹھتے جو اُن کی پارٹی کا بنیادی ایجنڈا ہے۔ ۱۰؍ سال ہوگئے، اگر اب بھی مودی خود کو صرف بی جے پی لیڈر ہی سمجھ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہےکہ وہ وزارت عظمیٰ کے تقاضو ں کو اب تک سمجھ نہیں سکے ہیں۔