• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

وزیر اعظم مودی منی پور کیوں جائیں، وہاں اُن کا استقبال کون کریگا، گارڈ آف آنر کون دیگا؟

Updated: July 15, 2024, 5:24 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

گزشتہ سال ہی وزیر داخلہ امیت شاہ منی پور پہنچے تھےاورسول سوسائٹیوں کے اراکین نیزمقامی نمائندوں سے ملاقات کر کے تشدد کےاسباب جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی تھی اورحسب روایت مساعی ٔ امن کا یقین دلایا تھا۔

People in the camps of Manipur are still helpful even today. Photo: INN
منی پور کے کیمپوں میں لوگ آج بھی بے یارو مددگار ہیں۔ تصویر : آئی این این

شمال مشرقی ریاستوں کے تعلق سے پارلیمنٹ کے حالیہ مانسون اجلاس میں وزیراعظم مودی نے منی پور کے معاملے پر اپنے خطاب میں ایک مجموعی پس منظر میں کہا تھا کہ’’حکومت شمال مشرقی ریاستوں میں امن کیلئے اقدامات کررہی ہے اور وہاں بتدریج حالات معمول پر آرہے ہیں، منی پور میں تشدد کے واقعات کم ہوئے ہیں،اسکول، کالج اور دیگرادارے باقاعدہ چل رہے ہیں، مرکزی اور ریاستی حکومتیں منی پور میں امن کیلئے کوششیں کررہی ہیں اور چھوٹی سے چھوٹی مقامی تنظیموں کو بھی ساتھ لے کرکام کیاجارہا ہے۔ ‘‘
منی پورکےمسئلہ پراپوزیشن سال بھر سےزائدعرصے سے وزیر اعظم سے تفصیلی جواب مانگ رہا ہےاور مطالبہ کررہا ہےکہ وزیر اعظم تشدد زدہ ریاست کادورہ کریں ، وہاں عوام سے ملاقات کریں اور انہیں اپنی زبان سےبحالی امن کا یقین دلائیں، لیکن وزیراعظم مودی منی پور سے دوری ا ختیار کئے ہوئے ہیں ۔ وہ وہاں کے حالات سے واقف تو ہیں لیکن بذات خودریاست کادورہ کرنے میں وہ عار محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان کی قیادت میں دنیا ہندوستان کو پُرامید نظروں سے دیکھ رہی ہے، منی پور، یا اس جیسی دیگرکوئی ریاست نہیں۔ منی پور سے اگروہ پوری طرح لا تعلق نہیں ہیں تو ان کا رویہ ظاہرکرتا ہےکہ یہ ریاست ان کی ترجیح بھی نہیں ہے۔ ان کا مقصدعالمی برادری کو راغب کرنا ہے، منی پوریا اس جیسی چھوٹی ریاست کیلئے ان کا بس چھوٹاسا بیان ہی بہت ہے، دور سے سلام ہی کافی ہے۔ 
 یاد رہے کہ منی پور میں گزشتہ سال مئی میں میتی اور کوکی برادری کےد رمیان ریزرویشن کے معاملے پرتشدد شروع ہوا تھا، اس کے بعد سے یہ ریاست مسلسل جل رہی ہے۔ گزشتہ سال ہی وزیر داخلہ امیت شاہ منی پور پہنچے تھےاورسول سوسائٹیوں کے اراکین نیزمقامی نمائندوں سے ملاقات کر کے تشدد کےاسباب جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی تھی اورحسب روایت مساعی ٔ امن کا یقین دلایا تھا۔ وزیر داخلہ کادورہ منی پورمرکزی سطح کے کسی لیڈر کا پہلادورہ تھا۔ اس کے بعد کسی مرکزی وزیرکےمنی پور کے دورہ کی خبر نہیں ہے، وزیر اعظم کا تو ذکر ہی کیا !منی پور میں بی جےپی کی حکومت ہےیعنی اس ریاست سے بی جےپی اوروزیر اعظم کاذاتی نوعیت کا تعلق ہے۔ وہاں اگر کانگریس کی حکومت ہوتی اوروزیر اعظم مودی دورہ نہیں کرتےتواس معاملے میں تعصب کا پہلو نکالا جاسکتا تھا لیکن اپنی پارٹی کی زیر اقتدار ریاست کے دورہ سے وہ گریز کررہے ہیں اوراس میں خود بی جےپی کو کوئی مسئلہ نہیں ہے، یہ حیرت کی بات ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: نیٹ تنازع :امتحان منعقد کیاجارہا ہے یا جوئے اور سٹے کا کاروبار چلایاجارہا ہے؟

 منی پور کے وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ نے تواس معاملے میں وزیراعظم کا پُر زور دفاع کیا ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ’’ وزیر اعظم کا ریاست کا دورہ نہ کرنا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ ان کاد ورہ کرنا، نہ کرنا، یہ معاملہ ہی الگ ہے۔ وہ یہاں کے امور کی نگرانی کررہے ہیں اور ان کی سربراہی میں یہاں تمام اقدامات اور کوششیں کی جارہی ہیں۔ ‘‘راہل گاندھی کے وزیر اعظم سے منی پورکادورہ کرنے کے مطالبے سے متعلق سوال پروزیر اعلیٰ نے یہ جواب دیا۔ وزیراعظم کی قیادت میں یو ں تو پورا ملک ’ترقی ‘کررہا ہے بلکہ پوری دنیا میں ہندوستان کا ڈنکا بج رہا ہے، پھرانہیں بیرونی دوروں کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ پھر انہیں ایسی ریاستوں کے دورے کی ضرورت ہی کیاہےجہاں کسی پروجیکٹ کا افتتاح کرنا، کسی منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنا ہے۔ ان کی سربراہی میں پارٹی کا کوئی بھی مقامی وغیر مقامی لیڈرایسے بہت سے کام کرتا ہے۔ نام تو وزیر اعظم کا ہی ہوگا۔ یہ دو متضادباتیں ہیں۔ بیرن سنگھ تووزیر اعظم کادفاع کرکے اپنے وزیر اعلیٰ بنائے جانے کا حق ادا کر رہے ہیں لیکن وزیر اعظم کا اب تک منی پور کو نظر انداز کرنا ایک ایسی ذہنیت کا عکاس ہےجو مسئلہ کو مسئلے کے طورپر دیکھنا اور بیان کرنا نہیں چاہتی۔ وزیر اعظم بیرن سنگھ کا مذکورہ بیان ایسا ہےکہ وزیراعظم نے منی پورکا دورہ نہ کرکے بھی کمال کردیا، اگر وہ دورہ کرلیتے تو کیا ہوجاتا ؟
 گزشتہ ہفتے جس وقت وزیر اعظم اپنی تیسری میعاد کے پہلے غیر ملکی دورہ پرروس اور آسٹریا پہنچےتھے، اس وقت راہل گاندھی منی پورمیں تھے۔ یہاں بھی وزیر اعظم نے روس اورآسٹریا کے ساتھ ساتھ پوری عالمی برادری کی توجہ مبذول کرلی۔ حالانکہ جب انہوں نے پارلیمنٹ میں پہلی بارمنی پور پرنسبتاً تفصیلی بیان دیا، تو اخلاقی طورپران کی پر یہ ذمہ داری عائد ہوچکی تھی کہ وہ اجلاس کے بعد کسی دن منی پور چلے جائیں۔ وزیر اعظم کا منی پورکا دورہ حالات میں بڑی تبدیلی کا ضامن ہوسکتا تھا لیکن اب چونکہ ریاست کے سربراہ نے خود کہہ دیا ہے کہ ان کادورہ نہ کرنا ’نان ایشو‘ ہےاوران کی قیادت میں ہی یہاں راحتی اور امدادی اقدامات کئے جارہے ہیں، پھرکوئی بات ہی نہیں رہ جاتی۔ 
اعدادوشمار کے مطابق وزیر اعظم مودی ان ۱۰؍ برسوں میں ۶۷؍ممالک کا دورہ کرچکے ہیں۔ غیر ملکی دوروں کا مقصد عام طور پر پوری طرح واضح ہوتا ہےاور دورہ بھی انہی ممالک کا کیا جاتا ہے جن سےتعلقات بہتر ہوتےہیں۔ بس مستقبل میں انہیں مزید مضبوط کرنے کاعزم ہوتا ہے، تجارت اور کاروبار بڑھانےکے اہداف طےکئے جاتے ہیں۔ یہ آسان انتخاب ہے، لیکن، اپنے ملک کی کسی ریاست کا دورہ جوگزشتہ ایک سال سے نسلی تشدد کی زد میں ہو، بطور وزیر اعظم آسان فیصلہ نہیں ہے۔ اگر وزیر اعظم جائیں گےتوجوابدہی بڑھ جائیگی، ریاست منی پورپوری دنیاکی نظر میں آجائیگی۔ راہل گاندھی نے اپنے منی پورکے دورہ پر جیری بام میں پناہ گزیں کیمپ کادورہ کیاتھا، اس کے بعد انہوں نے ایک بار پھروزیر اعظم سے یہاں آنے کی اپیل کی۔ انہوں کہا تھا کہ منی پور اب بھی دوحصوں میں منقسم ہے۔ حالات بہتر نہیں ہوئے ہیں۔ گھر جلائے جارہے ہیں، بم دھماکے ہورہے ہیں۔ ریلیف کیمپ میں ٹھہری ایک خاتون نے راہل گاندھی نے کہا تھا ’’سر، ہم سیکوریٹی چاہتے ہیں، ہم گھر جانا چاہتے ہیں۔ ‘‘راہل گاندھی کا یہ منی پور کا تیسرا دورہ تھا لیکن وزیر اعظم اب تک ایک مرتبہ بھی وہاں نہیں گئے۔ وہ کیوں جائیں جبکہ بقول بیرن سنگھ ان کی قیادت میں وہاں امن کی کوششیں ہورہی ہیں، وہ کیوں جائیں جبکہ روس اورآسٹریا جیسے ممالک میں ان کا شاندار استقبال ہورہا ہے، وہ کیوں جائیں جبکہ انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا جارہا ہے!! منی پور میں ان کا استقبال کون کریگا، ان کیلئےسرخ قالین کون بچھائے گا، سلامی کون دے گا۔ وہاں تو بی جے پی کی ہی حکومت ہے، وہاں کس تجارت اورکاروبار کے فروغ کی بات کرنی ہے، وہاں کون سے دوطرفہ تعلقات پر گفتگو کا امکان ہے، اور وہاں کون سی برادری وزیر اعظم کے ساتھ سیلفی اورفوٹو کھنچانے کی منتظر ہے؟وزیراعظم خوشگواری کے خوگر ہوچکے ہیں  ناخوشگواری کا سامنا نہیں کرنا چاہتے !

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK