ایک طاقتور حکومت کی طرف سے قدم قدم پر رکاوٹوںکے باوجود انہوں نے انصاف کے حصول کے تئیں اپنا موقف نہیں چھوڑا، کیا ہم میں ان کی طرح زندگی گزارنے کی ہمت ہے؟
EPAPER
Updated: February 13, 2025, 5:36 PM IST | Mumabi
ایک طاقتور حکومت کی طرف سے قدم قدم پر رکاوٹوںکے باوجود انہوں نے انصاف کے حصول کے تئیں اپنا موقف نہیں چھوڑا، کیا ہم میں ان کی طرح زندگی گزارنے کی ہمت ہے؟
ذکیہ جعفری نہیں رہیں۔ ان کے بیٹے تنویر جعفری نے بتایا کہ یکم فروری کی صبح احمد آباد میں اپنی بیٹی کے گھر تمام کام سے فراغت حاصل کرنے کے بعد اپنے اہل خانہ سے بات چیت کرتے ہوئے ذکیہ جعفری کو کچھ تکلیف محسوس ہوئی۔ فوری طور پر ڈاکٹر کو بلایا گیا جس نے ا نہیں ساڑھے ۱۱؍ بجے مردہ قرار دیا۔ وہ ۸۶؍ سال کی تھیں۔ ان کی موت فطری کہلائے گی۔ اکثر لوگ ایسی موت کی خواہش کرتے ہیں جس میں نہ انہیں خود گھسٹنا پڑے، نہ ہی ان کے عزیزوں کو ان کی وجہ سے تکلیف اٹھانی پڑے۔ ان کی موت کی تفصیل پڑھ کر مجھے اپنی والدہ کی موت یاد آگئی۔ جگر میں درد کی شکایت ہوئی اور بس معاملہ ختم۔ وہ ہماری دنیا سے غائب ہوگئیں۔ میری دوست نویدیتا مینن نے یہ سن کر کہا تھا کہ ان کی ماں ایسے لوگوں کو ’پاک روح‘ کہا کرتی تھیں۔
یہ بھی پڑھئے: شہربھیونڈی: پا ورلوم نگری سے ای کامرس کا مرکز بننے کا سفر
ہم بھی شاید ذکیہ جعفری جیسی موت کی خواہش کریں، لیکن کیا ہم ان کی جیسی زندگی بھی جینا چاہیں گے؟ بچوں کے بڑے ہوجانے اور اپنے اپنے کام سے لگ جانے کے بعد اطمینان کی سانس لینے کے جو سال ایک عام ہندوستانی خاتون اپنے شوہر کے ساتھ بغیر کسی پریشانی اور دوڑ دھوپ کے گزارنے کا خواب دیکھتی ہے، وہ سال ذکیہ جعفری نے درخواستیں تیار کرنے اور ہندوستانی عدالتوں کے چکر لگانے میں گزارے۔ اسلئے کہ آج ۸۶؍ سال کی جس بزرگ خاتون ذکیہ جعفری نے اس دنیا کو الوداع کہا، وہ جب ۶۳؍ سال کی تھیں، تب ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے شوہر احسان جعفری کو متشدد ہندوؤں نے قتل کردیا تھا۔ وہ اکیلے ان کا قتل نہیں تھا۔
احمد آباد کی جس گلبرگ سوسائٹی کے ایک فلیٹ میں وہ رہتی تھیں، اسے مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہندوتووادیوں کی ایک بھیڑ نے گھیر لیا تھا۔ وہ کوئی اچانک جمع ہوجانے والی بھیڑ نہیں تھی۔ احسان جعفری بھی کوئی معمولی انسان نہیں تھے۔ وہ رکن پارلیمان رہ چکے تھے۔ وہ گجرات حکومت کے ہر محکمے میں جانے جاتے تھے۔ گجرات کا ہر سیاستدان ذکیہ جعفری کے شوہر کو جانتا تھا۔ اُس وقت وہاں کا وزیر اعلیٰ بھی ۔ شاید اس یقین کے ساتھ کہ ان کی شہرت کی وجہ سے اُن کی سنی جائے گی اور ان کی موجودگی کی وجہ سے وہ بچ بھی جائیں گے، گلبرگ سوسائٹی کے تمام پڑوسی ذکیہ جعفری کے فلیٹ میں پناہ لینے آئے تھے۔
یہ بھی پڑھئے: بنگلہ دیش: شیخ حسینہ کے دور میں بچوں سمیت سیکڑوں ماورائے عدالت قتل: اقوام متحدہ
پولیس کمشنر خود آئے اور کہا کہ مزید پولیس فورس آرہی ہے، لیکن ہجوم بڑھتا ہی چلا گیا اور پولیس کے پہنچنے کے کوئی آثار نہیں تھے۔ احسان صاحب نےیکے بعد دیگرے تمام افسران کو فون لگانا شروع کیا: پولیس سربراہ، میئر، اپوزیشن کے لیڈران، تمام اعلیٰ افسران ..... اورسب کو۔ آخرمیں ان کی پڑوسی روپا مودی نے دیکھا کہ انہوں نے وزیراعلیٰ کو بھی فون کیا ۔ فون پر وزیر اعلیٰ کا جواب سن کر احسان صاحب نے فون رکھ دیا۔ انہوں نے باہر جمع ہونے والے ہجوم کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ مجھے مار ڈالو، باقی سب کو چھوڑ دو۔ بھیڑ اُن پر ٹوٹ پڑی اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے ۔
اس کے بعد سے ذکیہ جعفری کو احسان جعفری کی بیوہ کے طور پر جانا جانے لگا۔ وہ ایک بے چاریہندوستانی بیوہ ہوکر رہ سکتی تھیں، لیکن انہوں نے اپنے شوہر اور باقی دوسروں کے قتل کیلئے انصاف کی لڑائی لڑنے کا فیصلہ کیا۔ یہ آسان کام نہیں تھا۔ وہ گجرات کے سب سے طاقتور آدمی کے خلاف کھڑی تھیں اور اس کے ساتھ ہی ہندوتوا وادیوں کی نفرت کے خلاف بھی۔ انصاف کی یہ لڑائی طویل ہونے والی تھی، لیکن ذکیہ نے اسی راستے کا انتخاب کیا۔ان کے مطابق ان کے شوہر کا قتل ایک بڑی سازش کا حصہ تھا۔ یہ انتقام کے جذبے سے کیا گیا قتل نہیں تھا۔ اس قتل کو اقتدار اور ریاست کے نظام نے ہونے دیا تھا۔ اس کیلئے ہر طرح کی تیاریاں کی گئی تھیں۔
یہ بھی پڑھئے: بھیونڈی کے اُردو اسکول میں مراٹھی تقریری مقابلے کی ۵۱؍ سالہ منفرد روایت
گودھرا میں ٹرین میں آگ لگنے سے ہلاک ہونے والے ہندوؤں کی لاشیں ان کے اہل خانہ کے حوالے نہیں کی گئی تھیں بلکہ وشو ہندو پریشد کو دی گئی تھیں اور اسے جلوس نکالنے کی اجازت بھی دی گئی تھی۔ مسلمانوں کو ان کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ اسلئے ان کے خلاف منظم تشدد کیا گیا۔ احسان جعفری کی موت کسی جذباتی ہجوم کے جنون کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی۔
ذکیہ جعفری نے فیصلہ کیا کہ وہ احسان جعفری کے قتل کے پیچھے اس بڑی سازش کے ’ماسٹر مائنڈوں‘ کے خلاف انصاف کیلئے لڑیں گی۔ وہ جانتی تھیں کہ انصاف کی یہ لڑائی طویل ہونے والی تھی،اسلئے وہ بغیر تھکے ۲۲؍ سال تک اس راستے پر چلتی رہیں۔ ان کی بوڑھی ٹانگیں کانپتی نہیں تھیں۔ انہیں دہلی کے سب سے بڑے دربار میں آنا پڑا.... اور اس عدالت نے ذکیہ کی ہمت اور انصاف کیلئے اس کے عزم پر اس کا ہاتھ تھامنے کے بجائے اس کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کی۔کہا گیا کہ آخر یہ کیسی عورت ہے جو۲۲؍ سال تک انصاف مانگتے ہوئے تھکی نہیں؟ یہ کوئی ہندوستانی عورت نہیں ہے۔ یہ کیسی عورت ہے جو پورے نظام کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہے؟ عدالت نے ذکیہ جعفری کی انصاف کیلئے جدوجہد کو حیرانی سے دیکھا۔ انصاف کے حصول کیلئےان کا اصرار دیکھ کر اسے شک ہوا اوراس کے پیچھے کسی سازش کا گمان کیا گیاکیونکہ انصاف پر اصرار ہندوستانیوں کی پہچان نہیں ہے.... اور پھر عدالت نے ذکیہ جعفری کی درخواست مسترد کر دی۔
آج ذکیہ جعفری کی موت کے اس لمحے میں ہم یاد کریںکہ وہ ہندوستانی نظام اور اس کی عدالتوں کے ذریعہ ٹھکرائی گئی ایک خاتون تھیں۔ وہ انصاف کی پیاس کے ساتھ ہی اس دنیا سے چلی گئیں۔ذکیہ جعفری ایک ’پاک روح‘ تھیں لیکن ان کی موت سے کہیں زیادہ ان کی زندگی اچھی تھی۔اپنی زندگی کے آخری ۲۲؍ برسوں میں انصاف کیلئے جدوجہد کرنےکے ان کے عزم کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی ایک طاقتور حکومت کی طرف سے قدم قدم پر رکاوٹوں اور مخالفتوں کے باوجود انہوں نے انصاف کے حصول کے تئیں اپنا موقف نہیں چھوڑا۔ کیا ہم میں ذکیہ جعفری جیسی زندگی گزارنے کی ہمت اور طاقت ہے؟ کیا ہمیں ذکیہ کی انصاف کی پیاس یاد رہے گی؟