ہندوستان میں ستر کی دہائی کے بعد اردو شاعری کے افق پر جو لوگ اپنی فکر کی بلندی اور فن کی ندرت کے سبب پہچانے گئے ان میں ایک اہم نام ضیاء فاروقی کا ہے۔
EPAPER
Updated: December 15, 2024, 2:59 PM IST | Dr. Mehtab Alam | Mumbai
ہندوستان میں ستر کی دہائی کے بعد اردو شاعری کے افق پر جو لوگ اپنی فکر کی بلندی اور فن کی ندرت کے سبب پہچانے گئے ان میں ایک اہم نام ضیاء فاروقی کا ہے۔
ہندوستان میں ستر کی دہائی کے بعد اردو شاعری کے افق پر جو لوگ اپنی فکر کی بلندی اور فن کی ندرت کے سبب پہچانے گئے ان میں ایک اہم نام ضیاء فاروقی کا ہے۔ چودھری ضیاءالدین فاروقی جنہیں ادبی دنیا ضیاءفاروقی کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے ان کی ولادت اودھ کے تاریخی قصبہ سندیلہ، ضلع ہردوئی میں ۱۲؍ ستمبر ۱۹۴۷ء کو ایسے گھرانے میں ہوئی جو اپنی ادبی خدمات اور علمی وجاہت کے لئے مشہورہے۔ ضیاء فاروقی کے والد چودھری عالم رضا کا شمار سندیلہ کے بڑے زمینداروں میں ہوتا تھا۔ ضیا ءفاروقی کی ابتدائی تعلیم طبقہ اشرافیہ کی روایت کے مطابق گھر پر ہوئی۔ پھر انہوں نے سندیلہ سے ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلئے کانپور کا سفر کیا۔ کانپور یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسی شہر میں وہ محکمہ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی ملازمت سے وابستہ ہوئے۔ اُنہوں نے اپنی علمی زندگی کا ایک اہم حصہ کانپور میں گزارا اور یہیں سے وظیفہ حسن خدمت پر ۲۰۰۵ء میں سبکدوش ہونے کے بعد کانپورکی سکونت ترک کردی اور بغدادالہند بھوپال کا رخ کیا جہاں سے ان کے بزرگوں کا تعلق نواب شاہجہاں والی ٔ بھوپال سے تھا۔ ضیا فاروقی کے بزرگ بھوپال میں مستاجر تھے۔
شہرِ غزل بھوپال سے ضیا ءفاروقی کے خانوادےکا جو رشتہ نواب شاہجہاں بیگم کے عہد میں استوار ہوا تھاتب سے یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں ابتک جاری ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بھوپال آنے کے بعد ضیاء فاروقی کی ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع ہوا بلکہ بھوپال آنے سے قبل ہی ان کی ادبی و شعری حیثیت اُردو دنیا میں تسلیم کی جا چکی تھی۔ وہ جتنے اچھے شاعر تھے اتنے ہی عمدہ نثر نگار تھے۔ شاعری کا فن اُنہیں وراثت میں ملا تھا۔ اُن کے والد چودھری عالم رضا اپنے عہد کے کہنہ مشق شاعر تھے۔ ریاست کے آخری فرمانروا نواب حمیداللہ خان کا سہرا ضیاء فاروقی کے والد چودھری عالم رضا نے ہی لکھا تھا۔
ضیاء فاروقی ایک ایسے علمی و ادبی خانوادے کے چشم وچراغ تھے جس کی ادبی نگارشات اردو ادب میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ اُن کا سلسلہ نسب قاضی مبارك سے جا ملتا ہے۔ ان کا مزار درگاہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ میں مرجع خلائق ہے اور وہاں سے یہ سلسلہ خلیفہ دوئم سیدنا حضرت عمر ؓ فاروق تک پہنچتا ہے۔ ننہال کی جانب سے ضیا ءفاروقی کا سلسلہ نسب نواب تجمل حسین ایمانؔ گوپاموی اور نواب محمد علی والا جاہ والی آرکاٹ (موجودہ تمل ناڈو کا حصہ) سے ملتا ہے۔ اُن کے خاندان میں بہت سے صاحب سیف و قلم ہوئے ہیں جن میں نمایاں طور پر نواب تجمل حسین ایمانؔ گوپاموی، مولانا ابرار حسن فاروقی (مراۃ احمدی) بابت شاہ احمد اللہ شہید، چچا چودھری نبی احمد (مرقع بنارس، مرقع عالمگیر اور ملا قلب الدین اور ملا وہاج الدین) کے نام قابل ذکر ہیں۔
ضیاء فاروقی ننہال کی جانب سے نواب اور داد یہال کی جانب سے عالم، صوفی اور فقیر تھے۔ اس لئے یہ دونوں خوبیاں ان کی سرشت میں ایک حسین امتزاج کے ساتھ شامل تھیں۔ ضیاء فاروقی کو ادبی و شعری ذوق وراثت میں ملا تھا مگر وہ اُن لوگوں میں سے نہیں تھے جو اپنے روشن ماضی پر تو فخر کریں مگر اپنی تحریروں سے کوئی کارنامہ انجام نہ دیں۔ ضیاء فاروقی نے درجن بھر کتابیں لکھیں جو اُردو ادب میں اضافہ ہیں۔
ضیاء فاروقی نے طالب علمی کے زمانے میں ہی مشق سخن سے اہل ہنر کو متوجہ کرنا شروع کردیا تھا۔ ان کی پہلی تخلیق اس وقت منظر عام پر آئی تھی جب وہ ہائی اسکول کے طالب علم تھے اور پھر جب وہ کانپور آئے تو انہوں نے اپنی مشق سخن سے اپنے فن کو اجلا بنایا۔ کانپور کی بود و باش، طرز معاشرت ان میں اس طرح رچ بس گئی تھی کہ جب انہوں نے کانپور نامہ کی تخلیق کی تو اس کی فنی خوبیوں کو دیکھ کر اہل ہنر عش عش کر اٹھے۔ کانپور نامہ ضیا ٍءفاروقی کا بڑا ادبی کارنامہ ہے جس کی تخلیق بھی ادبی چشمک کے سبب ہوئی تھی۔ انہوں نے کانپورنامہ کے ذریعہ اردو شاعری کے فن پر جہاں اپنی دسترس کا ثبوت دیا ہے وہیں اپنے حریفوں کو آئینہ بھی دکھایا ہے۔
کانپور نامہ ۱۶۰؍صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ ایک مثنوی ہے جس میں کانپور کی صدیوں کی تاریخ کو منظوم کیا گیا ہے۔ اس مثنوی کے مطالعہ سے جہاں کانپور کی تاریخ، طرز معاشرت اور ادبی ماحول کا پتہ چلتا ہے وہیں کانپور کی ادبی قدامت ہی نہیں بلکہ علما، صوفیا اور ماہرین تعلیم کی تفصیل بھی سامنے آتی ہے جنہوں نے کانپور میں رہ کراس کی ہمہ جہت ترقی، قومی یکجہتی کے فروغ اور اردو زبان کی ترویج و اشاعت کیلئے نمایاں کارنامہ انجام دیا۔ ممتاز ادیب و ناقد شمس الرحمن فاروقی نے کانپور نامہ کے حوالے سے لکھا ہےکہ ’’اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں ان تمام ادیبوں، شاعروں اور علمائے کرام کے نام یکجا ہوگئے ہیں جن کا تعلق کانپور سے رہا۔ ان میں ہندو مسلم سکھ عیسائی سب شامل ہیں۔ کسی ایک جگہ اتنی معلومات کانپور کے بارے میں جمع ہوجائے یہ بڑی بات ہے۔ ‘‘ اس مثنوی میں ضیا ءفاروقی نے کانپور کے حوالے سے معلومات کو یکجا ہی نہیں کیا بلکہ معلومات کے دریا کو کوزے میں بند کردیا۔ اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں شاعروں اور ادیبوں کے نام کا تذکرہ ہی نہیں کیا گیا ہے بلکہ ان کی تصانیف کوبھی فنی خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اردو ادب کے فن پارے کو تراشنے میں کانپور میں بہت سے ایسے نام تھے جو گردش وقت کے ساتھ ذہنوں سے اوجھل ہو رہے تھے، کانپور نامہ میں ان کا لطیف انداز میں تذکرہ کرکے انہیں نہ صرف دوبارہ زندہ کیا گیا ہے بلکہ نئی نسل کو اردو شاعری کی ایسی دستاویز پیش کی گئی ہے جس پر وہ ہمیشہ فخر کرے گی۔
ضیاء فاروقی کئی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے۔ اردو، عربی، فارسی، ہندی اور انگریزی زبان کے ادب پر ان کی گہری نگاہ تھی۔ اس کے باوجود وہ عام فہم زبان میں اپنی بات کہنا پسند کرتے تھے۔ بھاری بھرکم الفاظ سے گریز ان کا شعار تھا۔ وہ اپنے چھوٹوں کو بھی مشورہ دیتے تھے کہ بات ایسی زبان میں کہی جائے جس کیلئے قاری یا سامع کو لغت کی ضرورت نہ ہو۔ ان کی زبان سلیس اور اشعار میں روانی ہے۔ بقول فاروق جائسی ’’کانپور نامہ ضیا فاروقی کے فن کا شناخت نامہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ پوری مثنوی فن کی ندرت، فکر کی بلندی اور محبت کی خوشبو سے عبارت ہے۔ جب اردو شاعری کا قاری اس مثنوی کو تاریخی معلومات میں اضافہ کے ساتھ شعری لطف کے ساتھ پڑھتا ہے تو اس کے مطالعہ کا حسن دوبالا ہوجا تاہے۔ ‘‘ (جاری)
کانپور نامہ میں ضیا فاروقی کی فنی مشاقی ظاہر ہوتی ہے۔ اس کی تصدیق ممتاز ادیب و محقق و استاد شاعر ڈاکٹر انجم بارہ بنکوی کے اس خیال سے ہوجاتی ہے جو اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’کانپور نامہ ضیا ءفاروقی کی شاہکار تخلیق ہے۔ اس کے مطالعہ سےایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ شاعر نے اتنی معلومات شاعری کے حسین پیرائے میں ہمارے سامنے پیش کردی ہے۔ اس میں ماضی قریب اور ماضی بعید کے ساتھ آج کے بھی زیادہ تر شعرا کا ذکر شاعرانہ محاسن کے ساتھ کیا گیا ہے۔ سہا مجددی پر لکھا گیا ان کا مونو گراف ان معنوں میں بہت اہم ہے کہ اس صدی کے لوگوں کو سہا مجددی کے بارے میں کم علم ہے۔ ضیا فاروقی کی نثر آپ پڑھیں تو آپ کو ایک خاص تہذیبی رچاؤ ملے گا جو ہمارے اساتذہ کا ملکہ رہا ہے۔ بڑی شائستہ اور شگفتہ نثر ہے ضیا فاروقی کی۔ ‘‘
ضیا ءفاروقی کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ انہوں نے اپنی فکر کے جوہر کو کسی ایک فن تک محدود نہیں رکھا بلکہ مثنوی، غزل، نظم اور قطعات کے علاوہ افسانوں اور خاکوں میں بھی اپنے قلم کی جولانی کو پیش کیا ہے۔ شاعری میں غزل اور نظم ان کا خاص میدان رہا ہے۔ ضیاء فاروقی نے نظموں کے ساتھ شخصی مرثیے بھی اچھی خاصی تعداد میں کہے ہیں۔ یوں تو انہوں نے بہت سی اہم نظمیں لکھی ہیں مگر ادبی حلقوں میں ان کی نظم نور کائنات، تعزیت، مہر وفا، تھکن، کولمبس کی موت و غیرہ قابل ذکر ہیں۔ ضیاء فاروقی کی نظموں میں تجربات کی ریزہ کاری اور تخیل کی بلند پروازی ہے۔ کہیں وہ اختر شیرانی کے رنگ و آہنگ میں اپنے قاری سے کلام کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں انہوں نے سماجی مسائل پر مجاز ؔکی تشتریت اختیار کی ہے۔ کہیں کہیں ان کی نظموں میں مخدوم کاپر تو بھی نظر آتا ہے۔ ضیاؔءفاروقی ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد ۲۰۰۵ء میں بھلے ہی کانپور سے مستقل طورپر بھوپال منتقل ہوگئے تھے مگر ان کی آنکھوں سے کانپور کبھی اوجھل نہیں ہوا۔ انہوں نے کانپور کی اپنی کھٹی میٹھی یادوں کو ایک طویل نظم (رقص غبار )میں تحریر کیا ہے۔ اس نظم کے مطالعہ سے اخترؔ شیرانی کی نظم ’’او دیس سے آنے والے بتا‘‘کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ ضیاء فاروقی نے کانپور سے اپنی یادوں کا بین ثبوت دیتے ہوئے ’’کچھ تو کہئے کہ مرا شہر جنوں کیسا ہے‘‘کے عنوان سے نظم اس طرح تخلیق کی ہے:
کچھ تو کہئے کہ مرا شہر جنوں کیسا ہے
اہل دل کیسے ہیں ِ، ارباب کرم کیسے ہیں
وہ حرم کیسے ہیں، اصنام حرم کیسے
زندگی کیسی ہے اور اس کے ستم کیسے ہیں
کیسے ہیں شام و سحر، آب و ہوا کیسی ہے
باغ کیسے ہیں وہ مرغانِ چمن کیسے ہیں
روز و شب کیسے ہیں آسودہ جفا لوگوں کے
ہاؤ ہو کیسی ہے پابند وفا ہونٹوں پر
کچھ تو کہیے کہ یہ درماندہ و مجبور ضیا
کس سے پوچھے کہ مرا شہر جنوں کیسا ہے
ضیاؔ ءفاروقی معاصر اردو غزل کے ان اہم شعراء میں ہیں جن کی تحریروں میں نصف صدی کے تجربات کے نقوش نمایاں ہیں۔ انہوں نے جس طرح سے کانپور نامہ اور رقص غبار لکھ کر اپنے کانپوری عشق کا اظہار کیا ہے اسی طرح بھوپال کی ادبی فضا ان کی سرشت میں اس طرح رچ بس گئی تھی کہ انہوں نے شہر غزل میں ہی زندگی کا آخری سفر تمام کیا اور یہیں کی خاک اوڑھ کر سو گئے۔ بھوپال سے اپنے عشق کا اظہار اُنہوں نے کچھ اس اندازمیں کیا ہے:
میں کبھی تھا کانپوری، تھا کبھی سندیلوی
اب تو مدت سے پتہ میرا ضیاؔبھوپال ہے
ضیا ءفاروقی کی تحریریں شعور سے عبارت ہیں۔ اُن کے شعری مجموعوں میں کانپور نامہ(کانپور کی ڈھائی سو سالہ منظوم ادبی تاریخ)، رقص غبار (منظوم یادد اشتیں۔ یوپی اردو اکادمی سے انعام یافتہ)، پس گرد سفر (شعری مجموعہ)، دشت شب (شعری مجموعہ۔ یوپی اردو اکادمی سے انعام یافتہ) کے نام قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح سے اُن کی نثری تصانیف میں لفظ رنگ (تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ)، تذکرۂ مورخین (مرتبہ)، دیدہ و دانستہ (مرتبہ)، داستان رنگ (افسانوی مجموعہ)، رباعیات مومن (مضامین)، نقوش کانپور (مضامین) اور دہلی اردو اکادمی سے شائع مونوگراف سہامجددی کے نام قابل ذکر ہیں۔ تراجم کے میدان میں بھی اُن کی تحریریں مثالی ہیں۔ ممتاز ہندی فکشن نگار اوشا کرن خان کے ناول (حسینہ منزل) اور( اگن ہنڈولہ )کا ضیاءفاروقی نے جس فنی خوبی کے ساتھ ترجمہ کیا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس ترجمہ کی داد دیئے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ دونوں ناولوں کے مطالعہ سے کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ ترجمہ شدہ ہیں بلکہ قاری یہی سمجھتا ہے کہ یہ ان کا اپنا شہکار ہے جسے انہوں نے فنی خوبیو ں کے ساتھ پیش کیا ہے۔
ضیاؔءفاروقی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں بہت سے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے ان کی مجموعی خدمات کے اعتراف میں انہیں با وقار (نواب صدیق حسن خاں ) ایوارڈ سے سرفرا ز کیا تھا۔ یہی نہیں، مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے اوشا کرن خان کے ناول( حسینہ منزل )کے بہترین اردو ترجمہ کے لیے ضیا ؔفاروقی کو نواب شاہ جہاں بیگم ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔ اسی طرح اتر پردیش اردو اکادمی نے ضیا ءفاروقی کی دو کتابوں (رقص غبار اوردشت شب)کو ایوارڈ سے سرفراز کیا تھا۔ کانپور جہاں پر ضیا ءفاروقی نے اپنی زندگی کا اہم حصہ گزاراوہاں بھی انہیں اعزازات دیئے گئے۔ کانپور میں ہی انہیں نشور واحدی اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔ دیکھا جائے تو انعام و اکرام کی فہرست طویل ہے مگر سندیلہ کا ذکر ضروری ہے جو اُن اجداد کی سر زمین ہے۔ یہاں بھی انہیں (سلام سندیلوی) اعزاز دیا گیا جبکہ بھوپال لٹریری سوسائٹی نے انہیں (ستارہ بھوپال) کیلئے منتخب کیا۔ اردو شاعری کے آداب سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ شاعری سانس کے دھاگوں میں زندگی کے تجربات کی حسین ’’مالا ساز ی‘‘ اور واردات قلب کی حسین پیکر تراشی ہے۔
شاعری در اصل ایک خدا داد صلاحیت ہے جو روح کو بالیدگی، افکار و احساسات کو وسعت اور پروازِ تخیل کو عروج بخشتی ہے۔ ضیا ءفاروقی کو خدا نے بہت سی صلاحیتوں کا مالک بنایا تھا۔ ان کا کلام استعارہ وعلامتوں کی فنکارانہ زرکاری، فنی بصیرت اور تجربات کا حسین گلدستہ ہے۔ وہ سمندر کو قطرے میں سمیٹ لینے اور قطرے میں سمندر کا جلوہ دکھا دینے کے ہنر سے واقف تھے۔ انہوں نے جس انداز میں اپنے عہد کو شاعری میں قلم بند کیا ہے اس میں روایات کی پاسداری اور جدیدیت کی روشنی بھی ہے۔
ضیاء فاروقی ایک مخلص انسان اور با شعور فنکار تھے۔ وہ کسی خیال کو اپنے ذہن اور روح میں حل کرکے پیش کرنے کے ہنر سے خوب واقف تھے۔ اشعار کی تخلیق آسان نہیں ہوتی۔ شاعر اپنے تجربات ومشاہدات کو تحلیل نفسی کے عمل سے گزار کر فکرواحساس کے سانچے میں ڈھالتا ہے اور پھر الفاظ کا جامہ پہنا کر اشعار کی صورت میں زمانے کو پیش کرتا ہے۔ یہی اس کے تخلیقی عمل کا ما حصل ہوتا ہے۔ شاعر کا تخیل جس درجہ بلند ہوتا ہے شاعری بھی ویسی ہی اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے۔ تشبیہ و استعارہ کا حسن، جدت طرازی اور ندرتِ بیان ضیا فاروقی کی شاعری کا خاصہ ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ضیاءفاروقی کی شاعری ذوق و وجدان کی داخلی کیفیت کی غمازی ہے تو غلط نہیں ہوگا۔
ضیاء فاروقی کے ادبی سرمایہ میں درجن بھر کتابوں کے علاوہ سو (۱۰۰) سے زیادہ ادبی و تحقیقی مضامین بھی شامل ہیں۔ دہلی اردو اکادمی کے خصوصی اصرار پر انہوں نے ماہر غالبیات مولانا سہا مجددی پر بہترین مونو گراف لکھا تھا۔ اس مونوگراف میں انہوں نے سہا مجددی کے احوال و آثار کی تلاش، فہم و ادراک، شاعرانہ عظمت اور غالب شناسی کی خوبیوں کو عرق ریزی سے پیش کرنے کے ساتھ ان رنگوں کی نشاندہی بھی کی ہے جو انہیں ان کے معاصرین میں ممتاز بناتی ہے۔ ضیا ءفاروقی شاعری کے مزاج داں اور نثر کے نباض تھے۔ انہوں نے فنون لطیفہ کے مختلف میدانوں میں اپنے فن کے جوہر سے ایک جہاں کو منور کیا ہے۔ وہ اپنی خود نوشت بھی لکھ رہے تھے۔ انہوں نے خود نوشت میں آبائی وطن سندیلہ، گوپامئو، اودھ کی سرمستیوں اور کانپور کی بہاروں کا ایک بڑا حصہ تحریر بھی کر لیا تھا۔ بھوپال اور کچھ دوسرے شہروں کا تذکرہ ابھی باقی تھا کہ تار نفس منقطع ہوگیا۔ زندگی نے مزید مہلت دی ہوتی تو اُن کی کتاب خود نوشتوں کی فہرست میں بہت اہم اضافہ قرار پاتی۔
جس روز ضیا ءفاروقی نے دار فانی سے کوچ کیا اس سے چند گھنٹے قبل انہوں نے فون کرکے خیریت دریافت کی اور کہا کہ ’’مہتاب میاں دعا کیجئے کہ خود نوشت جلد مکمل ہو جائے اور آپ اس کی اشاعت کا انتظام کر وا دیں تومیں شہر وفا کی خاک اوڑھ کر چین سے سو جاؤں۔ ‘‘ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ضیا ءفاروقی سے فون پر ہونے والی گفتگو ان کی زندگی کی آخری گفتگو ہے اور خود نوشت مکمل کرنے کی آرزو اُن کی آخری آرزو ہے۔