زندگی میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمارے اپنے جو ہمیں شروع سے جانتے ہیں، ہمارے ربط میں رہتے ہیں، وہ بھی ہم سے اچانک بدگمان ہوجاتے ہیں کیونکہ ہمارے نقلی چہرے ہیں۔ اصلی صورت پتہ نہیں کہاں چھپ گئی ہے۔ یاد رکھئے قطع تعلق اللہ کو سخت ناپسند ہے، اس لئے کبھی بھی اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں سے تعلق ختم نہ کریں۔
رشتوں میں در آئی تلخیوں کو جلد سے جلد دور کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ تصویر: آئی این این
ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں کئی لوگوں سے ملتے ہیں، کچھ سے ہم متاثر ہوتے ہیں اور کسی کو ہم متاثر کر جاتے ہیں اور اس طرح ہم اپنی سماجی زندگی میں مگن آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ زندگی تو گزرتی چلی جاتی ہے لیکن یہ جو آگے بڑھنے کا سفر ہے، یہ سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ ہم جس سماج کا حصہ ہیں وہاں ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ مضبوط بناتا ہے اور جو کہیں نہ کہیں ہماری خوشیوں کا سرچشمہ بھی ہوتا ہے۔ یہاں بات صرف خوشیوں کی نہیں بلکہ دکھوں کی بھی ہے کیونکہ دکھ اور سکھ دونوں زندگی کے لازمی حصے ہیں۔
زندگی میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمارے اپنے جو ہمیں شروع سے جانتے ہیں، ہمارے ربط میں رہتے ہیں، وہ بھی ہم سے اچانک بدگمان ہوجاتے ہیں، پتہ نہیں کیوں انہیں ہم سے کئی شکایتیں ہوجاتی ہیں، بہت سے گلے شکوے ہوجاتے ہیں اور دھیرے دھیرے وہ ہم سے بد دل ہوجاتے ہیں۔ کبھی ہمارے کچھ عمل انہیں ناگوار گزرتے ہیں تو کبھی ہمارے فیصلوں سے وہ ناخوش ہوتے ہیں۔ مسئلہ صرف اتنا ہی نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ وہ کبھی ان الجھنوں کو سلجھانے کے بارے میں نہیں سوچتے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ بات کرنے سے معاملات ٹھیک ہوسکتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ کبھی اُن کی بدگمانی ختم نہیں ہوتی اور کبھی ہماری انا درمیان میں آجاتی ہے۔ اس کے باوجود سب کچھ ٹھیک ہے ایسا ہم دکھاوا کرتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے نقلی چہرے ہیں۔ اصلی صورت پتہ نہیں کہاں چھپ گئی ہے۔ یاد رکھئے، جو آپ کی پروا کرتا ہے وہ آپ سے دور نہیں رہ سکتے، ان کی ناراضگی وقتی ہوتی ہے کیونکہ وہ رشتوں کی قدر کرتے ہیں۔
بڑے بزرگوں سے کہتے سنا ہے کہ صورت سے زیادہ سیرت اہم ہوتی ہے لیکن آج کل ہم سیرت سے زیادہ ظاہری صورت کو سنوارنے میں مگن ہیں۔ ہماری ظاہری صورت کسی کو متاثر ضرور کرسکتی ہے لیکن اسیر نہیں کرسکتی کیونکہ اسیر تو ہماری باطنی خوبیاں کرسکتی ہیں جو ہمیشہ رہتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:گلِ آرزو.... ایک خواب، ایک حقیقت
ایک چہرے پر کئی چہرے لگانا، مجھے لگتا ہے اِسے صرف اے آئی تک محدود رکھنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک انسان کے کئی چہرے ہوں یعنی کہ رشتہ داری میں الگ، دوستوں میں الگ اور فیملی میں الگ اور اصل میں الگ، انسان کو اپنے ظاہری برتاؤ کو اپنے باطن کی خوبیوں سے جوڑ کر رکھنا چاہئے کیونکہ اگر یہ دونوں ظاہر ہوگئے تو اس سے ہماری شخصیت کا معیار گر جائے گا۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ آپ کی گفتگو کا انداز اور چہرے کے اتار چڑھاؤ آپ کی شخصیت کو ظاہر کرتا ہے اس لئے کہا گیا ہے کہ بات کرنے سے پہلے سوچ لیں۔ یہ بھی مشہور ہے کہ ہمیشہ کم بولنا چاہئے کیونکہ یہ آپ کی شخصیت میں چار چاند لگا دیتا ہے۔ یہ باتیں ہم سبھی جانتی ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کرتیں۔ رشتے نبھاتے وقت ان باتوں کو نظرانداز کر دیتی ہیں جبکہ ہم سبھی واقف ہیں کہ اس کے نتیجے بھی اچھے نہیں نکلتے ہیں۔
قطع تعلق اللہ کو سخت ناپسند ہے، اس لئے کبھی بھی اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں سے تعلق ختم نہ کریں۔ صلح کرنے میں پہل کرنے سے آپ کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوگا۔ ایک بہت چھوٹی سی مثال سے بہت بڑی بات کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گی کہ ، جو آپ کی آواز سن کر آپ کا حال جان لیتے ہیں وہ لوگ بہت انمول ہوتے ہیں، بڑے نصیب سے ملتے ہیں، انہیں کبھی بھی مت کھونا، کبھی بھی چھوٹی موٹی ناراضگی کو بڑھنے مت دینا کیونکہ کبھی کبھی یہ ناراضی بڑھتی رہی تو رنجشیں جنم لینا شروع ہوجاتی ہیں اس لئے ہمیشہ اس بات کا بھی خیال رکھئے کہ بات کو بڑھنے نہ دیں اور کبھی بھی کسی پر بھروسہ نہ کریں اور بھروسہ سب سے پہلے اُن پر کریں جو آپ کے اپنے ہیں، جنہیں آپ برسوں سے جانتی ہیں، اس سے رشتے بھی مضبوط ہوتے ہیں اور بھروسہ بھی نہیں ٹوٹتا۔
ہمیشہ عزیزوں کو اہمیت دیں۔ رشتے دل سے نبھائیں۔ دکھاوا کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ کبھی بھی اپنے عزیزوں کیلئے دل میں حسد یا جلن کا جذبہ نہ رکھیں، خوش ہونے کی عادت اپنائیں، جس سے آپ کا دل بھی مطمئن رہے گا اور آپ کو ایک چہرے پر کئی چہرے لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور رشتوں میں نااتفاقی بھی پیدا نہیں ہوگی۔ دہری زندگی جینے سے کئی مشکلیں پیدا ہوسکتی ہیں اور اللہ نے بھی اسے منع فرمایا ہے۔ ہم ایسا کام کیوں کریں جس سے ہمارا رب ہم سے ناراض ہو جائے؟ رشتوں کو خلوص دل سے نبھائیں۔ اس سے ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائینگی۔ اگر کسی کی بات سے کوئی تکلیف پہنچے تو اس بارے میں اس شخص سے بات کرکے اپنا دل صاف کرلیں۔ زندگی بہت انمول اور خوبصورت ہے اس لئے اسے رنجش، خفگی، ناراضگی، کدورت اور بغض کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ اسے شادمانیوں، مسرتوں، خوشیوں اور خلوص کے سپرد کر کے ہلکے ہوجائیں اور پھر دیکھیں زندگی کا لطف کیسے بحال ہوتا ہے۔