اس مصرعے کی جیتی جاگتی مثال سنیتا ولیمز ہیں جو ۱۸؍ مارچ کو خلا میں ۹؍ مہینے پھنسے رہنے کے بعد بحفاظت زمین پر واپس آچکی ہیں۔ ان کا ۸؍ دن کا مشن تکنیکی خرابی کی وجہ سے طویل ہوگیا تھا مگر انہوں نے نہ صرف خود کو سنبھالا بلکہ دنیا کو ایک بار پھر یہ پیغام دیا کہ ہم پَر نہیں مگر طاقت ِ پرواز رکھتے ہیں۔
سنیتا کی کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر عورتوں کو مواقع اور وسائل دیئے جائیں وہ زمین ہی نہیں خلا تک بھی جا کے داستان رقم کرسکتی ہیں۔ تصویر: آئی این این
اللہ رب العزت کی اس حسین و جمیل کائنات میں انواع و اقسام کے جاندار موجود ہیں۔ کائنات کا حسن اس رنگا رنگی اور تنوع میں موجود ہے۔ یہ انواع ہمیں خوراک، ادویات اور صاف پانی مہیا کراتے ہیں۔ کچھ ہمارے لئے نغمہ سرا ہیں۔ کچھ ہماری ہوا کو معطر بناتے ہیں۔ زمین کی کشش ثقل زبردست ہے اس کی فضا ہمیں مضر شعاعوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ اس کے ماحول میں ہم سانس لے سکتے ہیں۔ سورج کی شکل میں یہاں توانائی کا لامحدود ذخیرہ موجود ہے جو کم سے کم ایک ارب سال تک چلے گا۔ ہماری اس اسپیس شپ (کرہ ارض) پر آٹھ ملین سے زیادہ انواع ایسی ہیں جن کے بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ زمین کے برعکس خلا اللہ تبارک و تعالیٰ کی بنائی ہوئی ایک عجیب و غریب چیز ہے یہ ایک بے کنار سنسان کائنات ہے جس کے متعلق پوری طرح جانکاری حاصل کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ خلا میں آواز، ہوا، روشنی، پانی کچھ بھی نہیں ہے یہ وہ خطہ ہے جہاں کشش ثقل کا اثر نہیں ہوتا ہے۔ خلائی پرواز کی ابتدا ۴؍ اکتوبر ۱۹۵۷ء کو روس نے کی تھی اس کے بعد امریکہ، چین، بھارت نے پے در پے کئی کامیاب خلائی سفر کئے۔ چاند اور مریخ پر اجارہ داری حاصل کی۔
۱۸؍ مارچ کو سنیتا ولیمز خلا میں ۹؍ مہینے پھنسے رہنے کے بعد بحفاظت زمین پر واپس آچکی ہیں جن کا ہر کوئی بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔ ان کا ۸؍ دن کا مشن تکنیکی خرابی کی وجہ سے طویل ہوگیا تھا مگر انہوں نے نہ صرف خود کو سنبھالا بلکہ دنیا کو ایک بار پھر یہ پیغام دیا کہ ہم پَر نہیں مگر طاقت ِ پرواز رکھتے ہیں اور یہ بھی کہ عورتیں کسی بھی بحران میں حوصلہ اور ہمت سے مقابلہ کرسکتی ہیں۔ ہمیشہ پُرعزم اور رواں دواں رہتی ہیں ان کے سامنے ایک نیا آسماں ہمیشہ رہتا ہے۔ سنیتا ولیمز کی کہانی صرف ایک خلا نورد کی بہادری کی داستان نہیں بلکہ یہ ایک پیغام بھی ہے ایک ایسی دنیا کے لئے جو آج بھی عورت کو کمزور، پچھڑی اور محدود سمجھتی ہے۔ یہ کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر عورتوں کو مواقع اور وسائل دیئے جائیں تو وہ زمین ہی نہیں خلا تک بھی جا کے داستان رقم کرسکتی ہیں اور زندہ سلامت واپس آکر تاریخ بنا سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:تعلیمی نظام میں تبدیلی، بچوں پر دباؤ اور ماؤں کا کردار
مشہور شاعر کیفی اعظمیؔ نے نظم ’عورت‘ میں خواتین کو للکارا تھا: اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے/ کوند کر مجلس خلوت سے نکلنا ہے تجھے/ رت بدل ڈال اگر پھولنا پھلنا ہے تجھے/ اپنی تاریخ کا عنوان بدلنا ہے تجھے! سنیتا نے ان کی پکار ان کے سچ کو صحیح ثابت کر دیا۔ سنیتا کا پس منظر بھی اتنا ہی دلچسپ ہے جتنا ان کا خلائی سفر۔ ان کے والد ہندوستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہجرت کرکے امریکہ گئے تھے اور والدہ سلووینیا سے تھیں۔ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ کوئی بھی فرد چاہے کسی بھی خطے سے ہو اگر اسے مواقع میسر آئیں تو وہ دنیا کے سب سے اونچے مقام تک پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے ناسا کے ذریعے خلا میں ۲؍ بار سفر کیا۔ ان کے سفر سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عورتیں کمزور نہیں ہوتیں۔ اگر انہیں سازگار حالات دیئے جائیں تو وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتی ہیں۔ ایک خاتون ہونے کے ناطے سنیتا کے لئے یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔ صفر کشش ثقل میں تسلسل کے ساتھ رہنے سے ہڈیوں کی دبازت کم ہونے لگتی ہے۔ عضلات سکڑنے لگتے ہیں۔ خلا میں موجود مضر شعاعیں جسم پر خطرناک حد تک اثر انداز ہوتی ہیں۔ جسم میں سیال کا توازن برقرار نہیں رہتا وغیرہ۔ ان سب کے باوجود انہوں نے خلائی تحقیق کو نئی بلندی عطا کی۔ مختلف کامیاب تجربے کئے۔ خلائی ملبے کی صفائی کی۔ خلا نوردی کے اس جوش جذبے نے ہی انہیں ایک دن میں ۱۶؍ طلوع و غروب آفتاب دیکھنے کا اعزاز بخشا ہے۔ اس سے پہلے ہندوستان کی کلپنا چاؤلہ بھی خلائی مشن کا حصہ رہ چکی ہیں۔ یہی حقیقت ہمیں ہندوستان کی تاریخ میں بھی نظر آتی ہے جب اندراگاندھی نے پہلی خاتون وزیراعظم بن کر دنیا بھر کو حیران کر دیا تھا تو یہ صرف ان کی کامیابی نہیں تھی یہ ہر اس عورت کے خواب کی جیت تھی جسے یہ کہا جاتا تھا کہ سیاست مردوں کا میدان ہے۔ انہوں نے دنیا کو بتا دیا کہ عورتیں صرف گھر کی دہلیز تک محدود نہیں بلکہ ملک کی قیادت بھی کرسکتی ہیں۔
سنیتا کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اگر عورت خلا میں جاسکتی ہے تو وہ زمین پر اپنی جگہ کیوں نہیں بنا سکتی؟ مگر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ صرف چند نمایاں کامیابیاں کافی نہیں ہیں۔ ہمیں اس سوچ کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا جو عورت کو کمزور اور کمتر سمجھتی ہے۔ ہر عورت کو آگے بڑھنے، خود مختار ہونے کا حق ہے۔ ہمیں یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم اپنی بیٹیوں کو روایتی زنجیروں میں قید کرنے کے بجائے انہیں آزاد پرواز کرنے دیں گے کیونکہ خواب صرف دیکھنے کے لئے نہیں ہوتے انہیں حقیقت کا روپ دینا ہوتا ہے اور ہماری بیٹیاں یہ حقیقت پوری کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔