• Thu, 23 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

مائیں توجہ دیں! بچوں کی باتوں کو ہرگز نظرانداز نہ کریں

Updated: January 23, 2025, 5:06 PM IST | Doctor Asma Rehmatullah | Mumbai

بچیوں کےزیادہ تر معاملات نفسیاتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ عمر کے ساتھ، بدلتی کیفیات کے ساتھ، افراد و ماحول کے ساتھ وہ کبھی ہیجانی کیفیت سے گزرتی ہیں تو کبھی نفسیاتی کیفیت سے۔ ایسے میں ان کیلئے ماں ہی وہ واحد آسرا و سہارا ہوتی ہے جس سے بچیاں اپنی ہر بات کھل کر رکھ سکتی ہیں اسلئے ماؤں کو چاہئے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی ہر بات سنیں

Children face many problems as they grow older, so listen to what they say carefully and analyze it. Photo: INN
بڑھتی عمر میں بچے کئی مسائل کا شکار ہوتے ہیں اس لئے ان کی باتیں غور سے سنیں اور اس کا تجزیہ کریں ۔ تصویر: آئی این این

والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد پر یقین رکھیں، بھروسہ رکھیں، اعتماد رکھیں اور ان کے ساتھ اپنے تعلق اور رشتے کو اتنا محدود نہ کر دیں کہ بچہ آپ سے اپنے دل کی بات بھی بیان نہ کرسکے۔ اپنی اولاد کو آزادی دیں لیکن اس آزادی کی ایک حد رکھیں۔ بعض والدین اپنی اولاد پر اتنی پابندیاں لگا دیتے ہیں، اتنی سختیاں عائد کر دیتے ہیں کہ بچہ ان سے اپنی تکلیف، اپنا درد، اپنا مسئلہ، اپنی پریشانی، اپنی ضرورت، اپنے جذبات اور احساس تک کو بیان نہیں کرسکتا۔ ممکن ہے آپ کے نزدیک یہ کہنے کو تو محض چند الفاظ ہوں لیکن وہ ایسی کیفیت سے گزرتا ہے جس کا ذکر اپنے ماں باپ سے کرنا چاہتا ہے لیکن والدین اور اولاد کے درمیان کے فاصلے، ان کے مابین عدم اعتماد، شکوک و شبہات کی دیوار کے سبب بچہ ان چیزوں کو اپنے والدین سے شیئر نہیں کر پاتا۔ خاص طور پر یہ معاملہ لڑکیوں کے ساتھ ان کی ماں کو لے کر یا ان کے والدین کو لے کر زیادہ ہوتا ہے۔ بہت سارے مواقع ایسے ہوتے ہیں کہ بچیاں جب مختلف قسم کے مسائل میں الجھی ہوتی ہیں جنہیں وہ اپنی والدہ سے شیئر کرکے ان کا حل نکالنا چاہتی ہیں لیکن ساتھ ہی انہیں یہ خوف ستاتا ہے کہ اگر ہم نے یہ مسئلہ اپنی ماں سے ذکر کر دیا تو وہ انہیں غلط سمجھے گی۔ ان کے والد سے ان کی شکایت کر دے گی۔ اور دیکھا بھی کچھ ایسا ہی گیا ہے، جہاں کچھ بچیاں ہمت جٹا کر اگر اپنا مسئلہ، اپنی پریشانی، اپنی الجھن، اپنی تکلیف، اپنا دکھ درد اپنی ماں کو بتاتی ہیں تو پھر انہیں بہت کچھ برداشت کرنا ہے۔ ان کی اپنی نگاہ میں، ان کے اپنے گھر میں، ان کے اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں کے بیچ ان پر انگلی اٹھائی جاتی ہے۔ جس سے بچیاں خود کو ایک ناکردہ جرم کا بہت بڑی مجرم مان بیٹھتی ہیں۔ جبکہ ہونا یہ

یہ بھی پڑھئے: یقین جانئے، کام کسی بھی عمر میں کیا جاسکتا ہے

چاہئے کہ بچہ بلاتامل آپ سے اپنی بات کہہ سکے۔  ہمارے ہاں یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ بالخصوص لڑکیوں کے معاملات میں یہ دیکھاگیا ہے کہ لڑکیاں بدنامی اور بے عزتی کے خوف سے اپنے مسائل اپنی ماؤں سے بیان نہیں کر پاتی ہیں۔ ظاہر ہے باپ سے تو بول نہیں سکتیں اور ماں سے بیان کرنے میں بھی انجانا خوف دامن گیر رہتا ہے۔ اپنی پریشانیاں، اپنی تکلیفیں، اپنی مجبوریاں نہ بتا پانے کے سبب وہ ساری زندگی اُنہی مسائل سے جوجھتی رہتی ہیں۔ بعض دفعہ اس کے برے نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔   بچیوں کےزیادہ تر معاملات نفسیاتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ عمر کے ساتھ، بدلتی کیفیات کے ساتھ، افراد و ماحول کے ساتھ وہ کبھی ہیجانی کیفیت سے گزرتی ہیں تو کبھی نفسیاتی کیفیت سے۔ فطری اور قدرتی طور پر چونکہ یہ شرم حیا زیادہ رکھتی ہیں اور ایسی مختلف کیفیات، تجربات اور احساسات سے گزرتی ہیں جس کا تذکرہ ان کے لئے محال ہوتا ہے۔ ایسے میں ان کے لئے ماں ہی وہ واحد آسرا و سہارا ہوتی ہے جس سے بچیاں اپنی ہر بات کھل کر رکھ سکتی ہیں اس لئے ماؤں کو چاہئے کہ وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ اپنے رشتے اور تعلق کو مکمل اعتماد اور بھروسے کے ساتھ قائم رکھیں، بالخصوص ان کی ہر قسم کی نفسیاتی، مخفی و ظاہری پریشانی، ضرورت اور حاجت کی احسن طور پر رہنمائی کریں اور ان کا بھرپور ساتھ دیں بلکہ ان کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے رہ کر ان میں حوصلے و ہمت، خود پر اعتماد و یقین کی جوت جلائیں۔  مختصراً یہ کہ اولاد کے معاملے میں اتنی گنجائش ماں باپ کو چاہئے کہ وہ ضرور رکھیں کہ اولاد اپنے ماں باپ سے اپنے مسائل اپنی پریشانیاں اپنی دقتیں کہہ سکیں اور ان کا حل نکال سکیں، ورنہ ایسا نہ ہو کہ بعد میں آپ بھی پچھتائیں اور آپ کی اولاد بھی۔ اپنی اولاد سے گفتگو کریں، اپنے بچوں کو وقت دیں، ان کے ساتھ بیٹھیں اور بچوں کی عمر کے لحاظ سے اور اس کی عمر کے تقاضوں کے مطابق اس سے ان موضوعات پر ڈسکس بھی کریں۔ قرآن کی روشنی و حدیث کی روشنی میں، سماجی معاملات کی روشنی میں، بچے کے تعلیمی مسائل ہوں، چاہے ازدواجی معاملات ہوں، معاشرتی معاملات ہوں یا کاروباری

یہ بھی پڑھئے: بچوں کا امتحان ماں کیلئے بھی آزمائش ہوتا ہے

معاملات، خواہ تجارتی معاملات ہوں یا ملازمت کے معاملات، غرضیکہ ہر معاملے میں اپنی بچے کی رہنمائی کریں۔  یاد رکھیں کہ اگر آپ بچے کی رہنمائی نہیں کریں گی تو بچے دوسروں کے پاس جائیں جو انہیں غلط راستے پر گامزن کرسکتے ہیں۔ اس لئے بچوں کی ہر بات توجہ سے سنیں۔ اگر آپ مصروف ہیں تو ان سے کہیں کہ ابھی مصروف ہوں بعد میں بات کرتے ہیں۔ لیکن جلد ہی وقت نکال کر ان سے بات کریں۔ ان کی بے چینی اور اداسی کو نظرانداز نہ کریں۔ بڑھتی عمر کے بچے اکثر کچھ نہ کچھ چھپاتے ہیں۔ لہٰذا ان کی حرکتوں کا جائزہ لیں۔ ہمیشہ بچوں کو اس بات کا یقین دلائیں کہ آپ ان کے ساتھ ہیں۔ بچوں کو یہ اعتماد دلائیں کہ مشکل سے مشکل مسئلے کا حل موجود ہے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK