سابق نوکرشاہوں نے سروے کے نام پر ’’غیر قانونی اور تباہ کن ‘‘سرگرمیوں کوروکنے کی اپیل کی، یاد دلایا کہ وہ خود بھی ہر سال پابندی سے اجمیر درگاہ پر چادر پیش کرتے ہیں۔
EPAPER
Updated: December 02, 2024, 9:50 AM IST | Agency | New Delhi
سابق نوکرشاہوں نے سروے کے نام پر ’’غیر قانونی اور تباہ کن ‘‘سرگرمیوں کوروکنے کی اپیل کی، یاد دلایا کہ وہ خود بھی ہر سال پابندی سے اجمیر درگاہ پر چادر پیش کرتے ہیں۔
خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی درگاہ پر بھی بھگوا عناصر کے دعوے کی وجہ سے پورے ملک میں پھیلی بے چینی کے بیچ سابق نوکرشاہوںکی ایک ٹیم نے وزیراعظم مودی سے براہ راست مداخلت اور اِن ’’غیر قانونی اور تباہ کن ‘‘ حرکتوں کو روکنے کی اپیل کی ہے۔ اس پر زور دیتے ہوئے کہ یکے بعد دیگرے مساجد پر دعوے اوراب خواجہ اجمیری کے آستانے کو بھی شیوکا مندر قراردینے کی حرکتیں ہندوستان کے ثقافتی ورثے پر ’’نظریاتی حملہ‘‘ ہیں، سابق بیورکریٹس نے کہا ہے کہ وزیراعظم مودی واحد ایسے شخص ہیں جو اس کو روک سکتے ہیں۔ آدھادر جن سابق نوکرشاہوں پر مشتمل اس گروپ نے وزیراعظم کو یاد دہانی کرائی ہے کہ وہ خود حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے امن و آشتی کے پیغام کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ہرسال عرس کے موقع پر چادربھیجتے ہیں۔
وزیراعظم کو مکتوب لکھنے والے سابق بیوروکریٹس
مسلمانوں کی عبادتگاہوں کے خلاف شرانگیز مہم کی جانب وزیراعظم کی توجہ مبذول کراتے ہوئے ان سے مداخلت کی اپیل کیلئے جن نوکرشاہوں نے مکتوب روانہ کیا ہے ان میں دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ، سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، سابق نائب فوجی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ اور ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے سابق نائب گورنر روی ویرا گپتا شامل ہیں۔ ۲۹؍ نومبر کو روانہ کئے گئے اس مکتوب میں وزیراعظم کو آگاہ کیاگیا ہے کہ کس طرح نامعلوم بھگوا گروپ خود کو ہندوؤں کے مفاد کا محافظ قرار دیکر تاریخی مساجد اور درگاہوں کے سروے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ اس معاملے میں عدالتوں کے رویہ پر بھی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے مکتوب میں کہاگیا ہے کہ ’’پلیس آف ورشپ ایکٹ کے واضح التزامات کے باوجود عدالتیں نہ صرف اس طرح کی پٹیشنوں کو قبول کررہی ہیں بلکہ ان پر کسی احتیاط کے بغیر غیر ضروری جلد بازی میں فیصلے سنارہی ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے:’’ہر مسجد میں مندر نہ تلاش کریں‘‘ کھرگے نے بی جے پی کو بھاگوت کا مشورہ یاد دلایا
خواجہ ؒکے آستانے پر سوال اٹھاناناقابل فہم
ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے سابق افسران نے کہا ہے کہ ’’یہ ناقابل یقین ہے کہ کوئی مقامی عدالت خواجہ معین الدین چشتی ٔ کی ۱۲؍ ویں صدی کی درگاہ کے سروے کا حکم سنائے جو ایشیاء کی سب سے مقدس درگاہ ہے اور صرف مسلمانوں کیلئے باعث افتخار نہیں ہے بلکہ ہندوستان کے اُن تمام لوگوں کیلئے ہے جو ملک کی ہم آہنگی اور تکثیری روایات پر ناز کرتے ہیں۔‘‘ مکتوب نگاروں نے اس خیال کو ہی مضحکہ خیز قرار دیا ہے کہ وہ فقیر اور صوفی جس کی تعلیمات کا محور ہی ایک دوسرے سے ہمدردی، صلہ رحمی، تحمل اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہے، نے کسی مندر کو توڑ کر اپنا آستانہ بنایا ہو۔ ‘‘ واضح رہے کہ ایک زمانہ خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے عقیدتمندوں میں شامل ہے۔ درگاہ ِ اجمیری پر حاضری دینے والوں میں مسلمانوں کے ساتھ برادران وطن کی بڑی تعداد ہوتی ہے۔
ہندو سینا نامی تنظیم کے سربراہ کے ذریعہ داخل کی گئی ایک پٹیشن میں ۱۱۳؍ سال قبل لکھی گئی ایک کتاب کا حوالہ دیکر دعویٰ کیا گیا کہ درگاہ اجمیری ٔ اصل میں شیومندر ہے اس لئے اس کے سروے کا حکم جاری کیا جائے۔ بجائے اس کے کہ عدالت اس پٹیشن کو خارج کرتی اور عرضی گزار کی سرزنش کرتی، اس نے اسے سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے وزارت اقلیتی امور، محکمہ آثار قدیمہ اور درگاہ کمیٹی کو نوٹس جاری کردیا۔اس کی وجہ سے پورے ملک میں شدید بے چینی محسوس کی جارہی ہے۔
’’ملک کی روایات پر نظریاتی حملہ‘‘
مکتوب میں وزیراعظم کومتوجہ کیاگیاہے کہ ’’وہ جگہ جو ملک میں ہم آہنگی کی بہترین علامت ہے،پر یہ نظریاتی حملہ اصل میں ہمارے کی روایات اور ثقافتی ورثے پر حملہ ہے اور سب کو ساتھ لے کر چلنےوالے اس ہندوستان کے تصور کو بگاڑ دیتا ہے جس کی وکالت آپ بھی کرتے ہیں۔‘‘مکتوب نگاروں نے یکےبعد دیگرے اقلیتی عبادت گاہوں کو اس طرح نشانہ بنانے کو ملک کے مستقبل کیلئے نقصاندہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’اس طرح سماج ترقی کرسکتاہے، نہ آپ کا ترقی یافتہ ہندوستان کا خواب شرمندہ ٔ تعبیر ہوسکتا ہے۔‘‘ خود کو ملک کے آزاد شہری قرار دیتے ہوئے سابق نوکرشاہوں نے مزید کہا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اور بڑی حدتک عیسائیوں سے بھی خراب ہوئے ہیں جس نے ملک کی اقلیتوں کو ’’شدید بے چینی اور عدم تحفظ کے احساس ‘‘ میں مبتلا کردیا ہے۔ مکتوب میں مسلمانوں پر ہونےوالے مظالم، گائے کے نام پر ان کی پٹائی اور ایسے دیگر واقعات کا بھی تفصیلاًذکر کیاگیاہے۔