Updated: October 24, 2024, 7:23 PM IST
| Gaza
الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک نے اسرائیل کے ان الزاموں کو خارج کردیا جس میں اس نے الجزیرہ کیلئے کام کرنے والے چھ فلسطینی صحافیوں پر حماس یا اسلامی جہاد کا رکن ہونے کا الزام عائد کیا تھا، الجزیرہ کا کہنا ہے کہ انہیں نشانہ بنانے کیلئے اسرائیل جواز فراہم کر رہا ہے۔
خبر رساں ادارہ الجزیرہ کا دفتر۔ تصویر: آئی این این
الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک نے اسرائیل کے ذریعے اس کے چھ فلسطینی صحافیوں پر حماس یا اسلامی جہاد سے وابستہ ہونے کے الزام کی مذمت کی ہے۔اپنے بیان میں الجزیرہ نےکہا کہ اسرائیل انہیں نشانہ بنا کر ہلاک کرنے کا جواز فراہم کرنے کیلئے اس قسم کے الزامات عائد کر رہا ہے۔ یہ صحافیوں طلال محمود عبد الرحمن اروكي، علاء عبد العزيز محمد سلامة،انس جمال محمود الشريف، حسام باسل عبد الكريم شبات، اسماعيل فريد محمدابو عمر،اشرف سامي عاشور سراج ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ’’عصائے سنوار‘‘، عربی زبان کی ایک نئی اصطلاح، سوشل میڈیا پر وائرل
اسرائیل نےجو دستاویز شائع کئے ہیں اس میں کہا گیا ہے کہ اسے غزہ میں کچھ کاغذات ملے ہیں جس میں ان صحافیوں کی تمام تفصیل درج ہے، جیسے ان کی تنخواہ، ذاتی معلومات، تربیت، فون کے اندراجات، اور زخموں کی رپورٹ وغیرہ۔حالانکہ اسرائیل کے اس دعویٰ کے تصدیق نہیں ہو سکی۔ جبکہ الجزیرہ کے مطابق اسرائیل کا یہ قدم خطے میں بچے چند صحافیوں کی آواز کو بھی ختم کرنے کی کوشش ہے،جو اسرائیل کے وحشیانہ مظالم کو دنیا کے سامنے پیش کر نے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ: اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی تعداد دگنا ہوچکی ہے: ادارہ
واضح رہے کہ الجزیرہ سے اسرائیل کی عداوت کافی پرانی ہے، اسرائیل نے کئی بار الجزیرہ کے دفتر پر چھاپہ مارکر اہم آلات کو نقصان پہنچایا، ساتھ ہی حفاظت کا بہانہ بناکراس کی رپوٹنگ پر پابندی عائد کر دی۔ الجزیرہ نے کہا کہ اسرائیل کا یہ عمل انتہائی غیر ذمہ دارانہ، مجرمانہ ہے اور ظلم کی ایک نئی قسم ہے۔ ساتھ ہی اسرائیل پر اس کے صحافیوں کو قصداً قتل کرنے کا الزام عائد کیا۔جس میں سامر ابو دقة اور حمزة الدحدوح شامل ہیں۔
خیال رہے کہ ۷؍ اکتوبر کے بعد سے اسرائیل نے ۱۸۰؍ فلسطینی صحافیوں کو قتل کیا ہے، یہ تعداد دنیا کی کسی بھی جنگ میں ہلاک ہوئے صحافیوں کی تعداد میں سب سے زیادہ ہے۔صحافیوں کی تنظیم نے اسرائیل کے الزامات پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔تنظیم کے بقول اسرائیل ماضی میں بھی صحافیوں کو قتل کرنے سے پہلے اس قسم کے بے بنیاد الزامات عائد کرتا رہا ہے۔انہوں نے ثبوت کے طورپر الغول کی مثال پیش کی۔ اسرائیل کے بقول وہ ۱۹۹۷ء میں پیدا ہوئے اور انہوں نے ۲۰۰۷ء میں حماس کی فوجی تربیت حاصل کی تھی۔جبکہ ان کی عمر اس وقت محض ۱۰؍ سال تھی۔