البانیہ نے گذشتہ ماہ ایک طالبِ علم کے قتل کے بعد سنیچرکو’’ٹک ٹاک‘‘ پر ایک سال کی پابندی کا اعلان کیا۔ البانیہ کے وزیرِ اعظم اِدی راما نے اس پابندی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ پابندی ا سکولوں اور طلبہ کو محفوظ بنانے کے وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے۔
EPAPER
Updated: December 23, 2024, 4:06 PM IST | Tirana
البانیہ نے گذشتہ ماہ ایک طالبِ علم کے قتل کے بعد سنیچرکو’’ٹک ٹاک‘‘ پر ایک سال کی پابندی کا اعلان کیا۔ البانیہ کے وزیرِ اعظم اِدی راما نے اس پابندی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ پابندی ا سکولوں اور طلبہ کو محفوظ بنانے کے وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے۔
البانیہ نے گذشتہ ماہ ایک طالبِ علم کے قتل کے بعد سنیچرکومختصر ویڈیوز والی مقبولِ عام ایپ ’’ٹک ٹاک‘‘ پر ایک سال کی پابندی کا اعلان کیا۔ اس واقعے سے بچوں پر سوشل میڈیا کے اثر و رسوخ کے حوالے سے خدشات پیدا ہوئے تھے۔ ذرائع کے مطابق اس واقعے کے بعد حکام نے والدین اور اساتذہ کے ساتھ ۱۳۰۰؍میٹنگز کی جس کے بعد یہ ٹک ٹاک کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیرِ اعظم اِدی راما نے اس پابندی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ پابندی ا سکولوں کو محفوظ بنانے کے وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے جو اگلے سال کے اوائل سے نافذ العمل ہو گی۔ راما نے مزید کہا کہ ایک سال کیلئے ہم اسے سب کیلئے مکمل طور پر بند کر دیں گے۔ واضح رہے کہ فرانس، جرمنی اور بلجیم سمیت کئی یورپی ممالک نے بچوں کیلئے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندیاں نافذ کر رکھی ہیں۔ آسٹریلیا نے نومبر میں ۱۶؍سال سے کم عمر بچوں کیلئے سوشل میڈیا پر مکمل پابندی کی منظوری دی جو ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کو نشانہ بنانے والے دنیا کے سخت ترین ضوابط میں سے ایک ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ: اسرائیل کا۲؍ اسپتالوں اور پناہ گزین کیمپ پر حملہ، ۸؍ افراد کی موت
وزیر اعظم راما نے سوشل میڈیا اور بالخصوص ٹک ٹاک پر اسکول کے اندر اور باہر نوجوانوں میں تشدد کو ہوا دینے کا الزام لگایا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ البانیہ میں نومبر میں ا سکول کے ایک۱۴؍ سالہ طالبِ علم کو اس کے ساتھی نے چاقو کے وار کر کے ہلاک کر دیا تھا جس کے بعد ادی راما کی حکومت کا یہ فیصلہ سامنے آیا ہے۔ اس موقع پر راما نے کہا’’آج کا مسئلہ ہمارے بچے نہیں بلکہ ہم ہیں، آج کا مسئلہ ہمارا معاشرہ ہے، آج کا مسئلہ ٹک ٹاک اور دیگر تمام سوشل میڈیا ہے جو ہمارے بچوں کو یرغمال بنا رہے ہیں۔ ٹک ٹاک نے کہا کہ اس نے البانیہ کی حکومت سے ’’فوری وضاحت‘‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ کمپنی کے ترجمان نے کہا کہ ہمیں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ مجرم یا متاثرہ شخص کے ٹِک ٹاک اکاؤنٹس تھے اور متعدد رپورٹس نے حقیقت میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس واقعے کی وجہ بننے والی ویڈیوز کسی اور پلیٹ فارم پر پوسٹ کی جا رہی تھیں، نہ کہ ٹک ٹاک پر۔