Updated: March 21, 2024, 10:00 PM IST
| New Delhi
سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کے ذریعے ترمیم شدہ انفارمیشن ٹیکنالوجی قوانین کے نفاذ پر روک لگادی۔ اس سے پہلے ہائی کورٹ نے اس پر روک لگانے سے انکار کر دیا تھا۔ کورٹ نے اس کے کچھ پہلو ئوں پر آئینی سوالات اٹھائے۔ ایک دن قبل ہی مرکزی حکومت نے حقائق کی جانچ کیلئے نئی اکائی کا اعلان کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے ۲۱؍مارچ کو یہ کہتے ہوئے کہ اس میں سنگین آئینی خدشات موجود ہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے قوانین میں ترمیم کے نفاذ پر روک لگا دی جس کے تحت حکومت کے بارے میں میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کی تصدیق کیلئے حقائق کی جانچ کی اکائی قائم کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ یہ حکم الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کی جانب سے حقائق کی جانچ کرنے والی اکائی کے رسمی اعلان کے ایک دن بعد آیا ہے، جب بامبےہائی کورٹ نے اس پر روک لگانے سے انکار کر دیا تھا۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچڈ کی قیادت والی بنچ نے کہا کہ، ’’ہم واضح طور پر اس خیال سے متفق ہیں کہ ۲۰؍ مارچ ۲۰۲۴ء کے مرکزی حکومت کے نوٹیفکیشن پر روک لگانے کی ضرورت ہے۔ اس معاملےمیں سنگین آئینی خدشات موجود ہیں۔ بنیادی حقوق سے متعلق مسائل کا تجزیہ ہائی کورٹ کرے گا۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: الیکٹورل بونڈز اسکیم: الیکشن کمیشن نے مکمل اعدادوشمار جاری کئے
اس میں کہا گیا ہے کہ جب تک بامبے ہائی کورٹ حقائق کی جانچ کرنے والی اکائی کی تشکیل کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو نمٹاتا، اس وقت تک قوانین پر روک باقی رہےگی۔ یہ معاملہ اس وقت سپریم کورٹ پہنچا جب بامبے ہائی کورٹ کی دو ججوں کی بنچ کے الگ الگ فیصلہ سنانے کے بعد تیسرے جج نے بھی، یونٹ کے قیام کو روکنے سے انکار کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ آئی ٹی رولز (ترمیم) ۲۰۲۳ء میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم جیسے ذرائع کو یہ یقینی بنانے کیلئے ’’معقول کوششیں ‘‘ کرنی ہوں گی کہ صارفین مرکزی حکومت کے بارے میں معلومات کو ’’جعلی یا غلط یا گمراہ کن‘‘ کے طور پر شناخت کرنے کے بعد اپ لوڈ نہ کریں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ایک تنظیم اس طرح کے مواد کی ثالث ہو گی، اور اگر ثالث تنظیم کے فیصلے کی تعمیل نہیں کرتے ہیں، تو وہ اپنی محفوظ پناہ کی حیثیت سے محروم ہو سکتے ہیں۔
انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن جس نے اسٹینڈ اپ کامیڈین کنال کامرا کی عرضی دائر کرنے میں مدد کی اس کے مطابق یہ ترامیم آئی ٹی ایکٹ ۲۰۰۰ءکی دفعہ ۷۹؍کی ماورائے اختیار تھیں۔ شریا سنگھل بمقابلہ یونین آف انڈیا میں، سپریم کورٹ نے کہا کہ ثالثوں کیلئے محفوظ پناہ کی منسوخی کو آرٹیکل ۱۹(۲) میں درج موضوعات کے مطابق ہونا چاہئے۔ جعلی یا جھوٹا یا گمراہ کن مواد آرٹیکل۱۹(۲) یا آئی ٹی ایکٹ، ۲۰۰۰ء کی دفعہ ۶۹؍اے میں درج کوئی بنیاد نہیں ہے۔
درخواست میں یہ بھی استدلال کیا گیا کہ ترامیم آرٹیکل ۱۹؍کے تحت آزادی رائے اور اظہار رائے کے حق کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور آزادی اظہار اور اظہار رائے کے امتحان کے معیار پر پورا نہیں اترتیں۔ اس کے علاوہ اس نے مشغلہ، تجارت یا پیشے کے حق کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔