شبنم ہاشمی ،سیدہ حمید اور دیگر نےعمر عبداللہ کو خط لکھ کر ان خصوصی سیلزکی اہمیت باورکرائی۔
EPAPER
Updated: March 28, 2025, 10:36 AM IST | Kashmir
شبنم ہاشمی ،سیدہ حمید اور دیگر نےعمر عبداللہ کو خط لکھ کر ان خصوصی سیلزکی اہمیت باورکرائی۔
حقوق خواتین کیلئے کام کرنے والی ۶۰۰؍ سے زیادہ کارکنوں اور دانشوروں کے ایک گروپ نے جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ سے مرکزی خطے میںخواتین کیلئے قائم خصوصی سیل کو بند کرنے کی تجویز پر روک لگانے کی اپیل کی ہے ۔ بتایا جارہا ہے کہ قومی کمیشن برائے خواتین (این سی ڈبلیو)کے ذریعے فنڈنگ بند کئے جانے کےسبب خصوصی سیلز کو بند کرنے کی تجویز ہے۔
این سی ڈبلیو کے ذرائع نے بتایا کہ۲۶؍ مارچ کو عبداللہ کو لکھے گئے ایک خط میں ممتاز کارکن شبنم ہاشمی اور ڈاکٹر سیدہ حمید اور دیگر نے تشدد زدہ خواتین کو نفسیاتی،سماجی اورقانونی مدد فراہم کرنے میں خصوصی سیلز کے کردار پر زور دیا ہے ۔ نومبر۲۰۲۱ء میں’ وائلنس فری ہوم‘ کے تصور کے تحت جموں و کشمیر کے تمام ۲۰؍اضلاع میں قائم کئے گئے ان مراکز کے ذریعے۹۸۰۰؍ متاثرہ خواتین کو مختلف پہلوؤں سے امداد فراہم کی گئی ہے۔عمر عبداللہ کے نام لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ’’ یہ سہولت مصیبت میں گھری خواتین کیلئے امید کی کرن ہیں۔ ان خصوصی سیلز کے ذریعے انہیں قانونی امداد دی جاتی ہے ،اگر وہ کسی بحران میںمبتلا ہیںتو انہیں سہارا دیاجاتا ہے اوران کی بحالی کے اقدامات کئے جاتے ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: دسویں محراب سنارہے ہیں انجینئرحافظ شفیق بارودگر
اس میں مزید کہا گیا کہ’’ فنڈنگ اچانک منسوخ کئے جانے سے ہزاروں خواتین امداد سے محروم رہ جائیں گی، ان کے مقدمات میں رکاوٹ پیدا ہو گی اور صنفی بنیاد پر تشدد سے نمٹنے کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ ‘‘ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز(ٹی آئی ایس ایس) اور جموں کشمیر کے ہوم اینڈ سوشل ویلفیئر محکموں کے تعاون سے نافذ کئے گئےخصوصی سیل کے متاثرین کیلئے انصاف کے حصول کی راہ میں رکاوٹوںکودور کیا ہے اورپولیس اسٹیشن کی سطح پر کام کیا گیا ہے۔ اس دوران این سی ڈبلیو کے ذرائع نے بتایا کہ جموں کشمیر حکومت کو اس پروجیکٹ کو سنبھالنا تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔ این سی ڈبلیو ذرائع کے مطابق اس تعلق سے معاہدہ ۳۱؍مارچ کو ختم ہونے والا تھا، تاہم، جموں کشمیر حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی ۔ یہ معاہدہ صرف۳۱؍ مارچ تک کیلئے ہی ہے۔سماجی کارکنوں نے عبداللہ پر زور دیا ہے کہ وہ جموں کشمیر انتظامیہ پر دباؤ ڈالیں کہ یہ خصوصی مراکز قائم رکھنے کیلئے وہ سماجی بہبود اور محکمہ داخلہ کے ذریعے عبوری فنڈنگ کے متبادلات پر پر غور کریں۔ انہوںنے ٹی آئی ایس ایس ،این سی ڈبلیواوردیگرفریقوں کی اس ضمن میںفوری میٹنگ بھی بلانے کا مطالبہ کیا ۔