سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے اسرائیل کے اس اقدام کو شام کی سلامتی کی کوششوں کو کمزور کرنے کے مترادف قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ گولان کی پہاڑیاں شام کا علاقہ ہیں۔
EPAPER
Updated: December 17, 2024, 1:21 PM IST | Agency | Tel Aviv/ Abu Dhabi
سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے اسرائیل کے اس اقدام کو شام کی سلامتی کی کوششوں کو کمزور کرنے کے مترادف قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ گولان کی پہاڑیاں شام کا علاقہ ہیں۔
اسرائیل نےگولان کی پہاڑیوں پر یہودی بستیوں میں توسیع کا اعلان کیا ہے۔ اس مذموم منصوبے کے خلاف عرب ممالک نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل قبضہ جاری رکھے گا اور گولان کی پہاڑیوں پر یہودی آباد کاری کو بڑھائے گا، گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی دفاع کو مضبوط کیا جائے گا۔ یاہو کا مزید کہنا تھا کہ گولان کی پہاڑیوں کو مضبوط کرنا اسرائیل کو مضبوط کرنے کے برابر ہے، اسرائیلی فوج گولان کی پہاڑیوں پر شام کے ساتھ بفر زون میں موجود رہے گی۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے نومنتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے ٹیلیفونک رابطہ بھی کیا جس میں دونوں لیڈران کے درمیان غزہ اور شام کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس گفتگو کے دوران غزہ میں زیر حراست اسرائیلی اور غیر ملکی یرغمالیوں کی رہائی کیلئے حالیہ پیش رفت پر بھی بات چیت کی گئی۔ شام کی صورتحال سے متعلق گفتگو میں نیتن یاہو نے کہا کہ شام کے ساتھ تنازع میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، شام میں اسرائیلی کارروائیوں کا مقصد ممکنہ خطرات کو ناکام بنانا ہے۔
اسرائیلی اقدامات شام میں سلامتی، امن اور استحکام کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہیں : سعودی عرب
سعودی عرب کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا مقبوضہ گولان میں آباد کاری میں توسیع کا فیصلہ قابل مذمت ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق سعودی عرب کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ گولان میں یہودی آبادکاری کو وسعت دینے کے اسرائیلی فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا یہ اقدام شام کی سلامتی، استحکام اور امن کی بحالی کے امکانات کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔
یہ بھی پڑھئے:برطانیہ، شام کو ۶۳؍ ملین ڈالر کی امداد فراہم کرے گا
سعودی عرب نے شام کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرنے کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کی گولان کے بفرزون کی خلاف ورزیوں کی مذمت کریں۔ سعودی عرب نے عالمی برادری سے اسرائیل کو گولان کے بفرزون کی خلاف ورزیوں اور توسیع پسندانہ اقدامات سے روکنے کے لیے کردار ادا کرنے کی اپیل بھی کی۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے اسرائیل کے اس اقدام کو شام کی سلامتی کی کوششوں کو کمزور قرار کرنے کے مترادف قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ گولان کی پہاڑیاں شام کا علاقہ ہیں۔
اسرائیل کے اقدام سے کشیدگی بڑھے گی :متحدہ عرب امارات
سعودی عرب کے ساتھ ساتھ دیگر عرب ممالک نے بھی مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں میں بستیوں کی توسیع کے اسرائیلی حکومت کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے زور دے کر کہا ہے کہ تل ابیب حکومت کے گولان کی پہاڑیوں میں بستیوں کی توسیع کے فیصلے سے خطے میں کشیدگی بڑھے گی۔ متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ بستیوں کی توسیع کا فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
قطر اور عراق نے کیا کہا؟
قطر کی وزارت خارجہ نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ شام کی سرزمین پر اسرائیل کے حملوں کو روکنے اور بین الاقوامی قراردادوں کی تعمیل کے لیے اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داریاں پوری کرے۔
عراقی وزارت خارجہ نے گولان کی پہاڑیوں میں بستیوں کی توسیع کے اسرائیل کے فیصلے کی بھی مذمت کی ہے۔
یاد رہے کہ۸؍دسمبر کو۶۱؍ سالہ اسد حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی، ۲۷؍ نومبر کو شام میں دشمنی میں شدت کے بعد، شام پر اسرائیلی فوج کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ گولان کی پہاڑیوں کے آس پاس بفر زون میں داخل ہونے والی اسرائیلی فوج نے قبضے کو مزید آگے بڑھایا اور دارالحکومت دمشق کے۲۵؍ کلومیٹر کے اندر گھس گئی۔ اسرائیل نے ۱۹۶۷ء سے شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اسرائیل اور شام کے درمیان۱۹۷۴ء میں افواج کے انخلا کے معاہدہ میں بفر زون اور غیر فوجی زون کی سرحدوں کی وضاحت کی گئی تھی۔ یاد رہے کہ شام میں مسلح باغی گروہوں نے محض۱۱؍دن میں دارالحکومت دمشق پر قبضہ کرلیا تھا اور بشار الاسد روس فرار ہوگئے تھے۔ جس کے بعد اسرائیلی طیاروں نے شام میں فوجی اڈوں، ایئرپورٹس اور ملٹری تنصیبات پر بمباری کی اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی بنائے گئے جنگ سے پاک علاقے ’’بفرزون‘‘ میں داخل ہوگئی تھی۔ اسرائیل نے مقبوضہ گولان کے علاقے میں مزید توسیع کا ارادہ ظاہر کیا ہے جو کہ شام اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
نئی انتظامیہ چاہے تو شام کو فوجی تربیت دینے کیلئے تیار ہیں : ترکی
ترکی کے وزیردفاع یسار گولر نے کہا ہے کہ شام میں نئی انتظامیہ کے مثبت پیغامات کی وجہ سے انہیں حکومت کرنے کا ایک موقع ملنا چاہیے، نیز انقرہ فوجی تربیت کی درخواست ملنے پر مدد فراہم کرنے کے لیے تیار رہے گا۔ ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق یسار گولر نے انقرہ میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ ’’نئی انتظامیہ نے اپنے پہلے بیان میں تمام حکومتی اداروں، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں کے ساتھ بہتر تعلقات کا اظہار کیا ہے۔‘‘واضح رہے کہ شام میں معزول صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے والے باغیوں کو ترکی کی حمایت حاصل رہی ہے۔ دریں اثنا ترکی نےاپنے انٹیلی جنس سربراہ کے دورے کے بعد سنیچر کو دمشق میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولا ہے۔
قطر کا ۱۳؍سال بعد شام میں سفارتخانہ کھولنے کا اعلان
قطر کے ایک وفد نے شام کا دورہ کیا ہے اور عبوری حکومت کے حکام سے ملاقاتوں کے بعد اعلان کیا ہے کہ قطر شام میں اپنا سفارت خانہ رواں ہفتے کھول دے گا۔ قطر کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان جاری کیا ہے کہ وہ پڑوسی ملک میں منگل سے اپنا سفارت خانہ فعال کر دے گا۔قطر کی حکومت نے شام میں سفارت مشن کیلئے نیا سربراہ بھی مقرر کر دیا ہے۔ قطر نے۱۳؍ برس قبل جولائی۲۰۱۱ء میں شام میں اپنا سفارت خانہ بند کرکے اپنے سفیر کو بھی واپس بلا لیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب بشار الاسد کی حکومت کے خلاف عوامی احتجاج شروع ہوا جو بعد میں خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ سعودی عرب سمیت مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک نے شام میں اسد حکومت سے بعد ازاں تعلقات استوار کر لئے تھے۔