ملک کی قدیم سیاسی پارٹی کے ان ۵؍ اہم لیڈران کے کاندھوں پر جیت دلانے کی ذمہ داری تھی لیکن وہ اس کام میں بری طرح فلاپ ہوئے۔
EPAPER
Updated: November 25, 2024, 12:07 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ملک کی قدیم سیاسی پارٹی کے ان ۵؍ اہم لیڈران کے کاندھوں پر جیت دلانے کی ذمہ داری تھی لیکن وہ اس کام میں بری طرح فلاپ ہوئے۔
مہاراشٹر کی انتخابی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے جب ملک کی قدیم ترین سیاسی جماعت کانگریس کومحض ۱۶؍ سیٹوں پر ہی کامیابی مل پائی ہے۔ پارٹی نے اس کراری ہار کیلئے ’ای وی ایم‘کو قصوروارٹھہرایا ہے۔ کانگریس کے جنرل سیکریٹری جئے رام رمیش نے کہا ہے کہ ای وی ایم کے ڈیٹا کی وجہ ہم الیکشن ہار گئے ہیں۔ انتخابی دنگل میں کانگریس کے چاروں خانے چت ہونے کی ایسی ہی کئی وجوہات میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آرہی ہیں۔ اس ضمن میں ٹی وی نائن نے ایسے ہی ایک اسٹوری شائع کی ہے، جس میں پارٹی کے ۵؍ بڑے لیڈران کو اس شکست کی وجہ بتایا جارہا ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں بہترین کارکردگی کے بعد کانگریس نے اپنے پانچ اہم لیڈران کو انتخابی کمان سونپی تھی، لیکن یہ لیڈران اس مہم کو کامیاب سے ہمکنار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
کے سی وینوگوپال تال میل بٹھانے میں بے اثر رہے
کانگریس کے سینئر لیڈر کے سی وینو گوپال، پارٹی کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ کانگریس صدر کے بعد یہ عہدہ سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ ہریانہ اسمبلی الیکشن میں ہار کے بعد کے سی وینو نے خود مہاراشٹر کی ذمہ داری سنبھالی۔ انہوں نے یہاں بڑے لیڈران کی فوج اُتاری لیکن سب ڈھاک کے تین پات ثابت ہوا۔ انہی کے ذمہ اتحادی پارٹیوں سے کو آرڈینیٹ کرنے کا کام تھا، لیکن سیٹوں کی تقسیم سے لے کر پولنگ کے دن تک کانگریس اور اسکے اتحادیوں کے درمیان کوآرڈینیشن کا فقدان نظر آیا۔ اس معاملے پر کانگریس کے ریاستی صدر نانا پٹولے اور شیوسینا یوبی ٹی لیڈر سنجے راؤت کے درمیان لفظی لڑائی بھی ہوئی۔ عین ووٹنگ کے دن شولاپور ساؤتھ سیٹ پر سابق وزیرداخلہ سشیل کمار شندے نے شیوسینا(یوبی ٹی) کے بجائے آزاد امیدوار کو حمایت کرنے کااعلان کردیا۔ کے سی وینوگوپال نہ تو اس نقصان کی بھرپائی کرپائے اور نہ ہی شندے کے خلاف کارروائی کرسکے۔ خیال رہے کہ سشیل کمار شندے کی بیٹی پرینیتی شندے فی الوقت شولاپور سیٹ سے کانگریس کی رکن پارلیمان ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: موسمیاتی آفات سے نمٹنے کیلئے متاثرہ ممالک کو۳۰۰؍ارب ڈالر فراہم کرنے پراتفاق
الیکشن انچارج رمیش چینیتھلاکی کارکردگی پر بھی سوال
کانگریس نے الیکشن سے قبل کیرالا کے قدآور لیڈر رمیش چینیتھلا کو الیکشن انچارج بنایا۔ الیکشن انچارج کا کاحکمت عملی تیار کرنا، کوآرڈی نیشن کرنا اور پارٹی کیڈر کو مضبوط کرنا ہوتا ہے۔ چینیتھلا ان تینوں کاموں کو ٹھیک ڈھنگ سے نہیں کرپائے۔ ودربھ کانگریس کا مضبوط گڑھ مانا جاتا ہے۔ وہاں بھی پارٹی بری طرح ہار گئی۔ ممبئی اور نارتھ مہاراشٹر میں بھی کانگریس پھسڈی ثابت ہوئی۔ چینیتھلا ممبئی میں ضرور ڈٹے رہے، لیکن کوآرڈی نیشن کرنے اور صحیح معلومات جٹانے میں ناکام رہے۔
سیٹ اور ٹکٹ کے معاملے میں نانا پٹولےکی مرضی چلی لیکن...
مہاراشٹر کانگریس کے صدر نانا پٹولے الیکشن سے پہلے ہی وزارت اعلیٰ کے دعویدار سمجھے جارہے تھے۔ پٹولے نے خود کئی بار کھل کر دعویداری بھی کی تھی۔ سیٹوں کی تقسیم اور امیدواروں کے انتخاب میں پٹولے کی مرضی چلی، لیکن وہ نتائج دینے میں ناکام ثابت ہوئے۔ پٹولے جس بھنڈارا گوندیا سے تعلق رکھتے ہیں، وہاں کی ۶؍ اسمبلی سیٹوں میں سے صرف ایک پر ہی کانگریس جیت حاصل کرسکی ہے۔ پٹولے کو خود اپنی سیٹ بچانے میں ناکوں چنے چبانے پڑے اور وہ محض ۲۰۸؍ ووٹوں کے فرق سے کامیاب ہوئے ہیں۔ اتنا ہی نہیں پٹولے کے گڑھ ناگپور میں بھی کانگریس کی کارکردگی خراب رہی اور ۶؍ میں سے صرف ۲؍ سیٹوں پر ہی وہ کامیابی حاصل کرسکی۔ نانا پٹولے نے پورے الیکشن میں تقریباً ۵۵؍ ریلیاں کیں، لیکن ان میں سے ایک دو سیٹوں پر ہی پارٹی کے امیدوارکامیاب ہوئے ہیں۔
مدھو سدن مستری امیدواروں کوجانچنے پرکھنے میں ناکام
مہاراشٹر میں کانگریس امیدواروں میں ٹکٹ تقسیم کرنے اور ٹکٹ کے متمنی امیدواروں کو جانچنے پرکھنے کاکام پارٹی نے مدھوسودن مستری کو سونپا تھا۔ کانگریس نے ۲۸۸؍ میں سے ۱۰۲؍ سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے تھے۔ لیکن پارٹی کے ۸۶؍ امیدواروں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اگر اسے فیصد میں دیکھا جائے تو کانگریس کے صرف ۱۶؍فیصد امیدوار ہی جیت حاصل کرپائے ہیں۔ کانگریس کے بالا صاحب تھورات، پرتھوی راج چوہان جیسے بڑے لیڈران بھی الیکشن ہارگئے۔
سنیل کنوگولو کی حکمت عملی پر سوالیہ نشان
اسمبلی انتخاب میں سنیل کنّو گولو کانگریس کے انتخابی حکمت عملی ساز تھے۔ لیکن کنّو گولو بی جے پی کی حکمت عملی بھانپ کر کانگریس کے لئے اس کا توڑ نہ نکال سکے۔ اور نہ ہی ان کی ٹیم مہاراشٹر میں بی جےپی کی مائیکرو مینجمنٹ کی حکمت عملی کو سمجھ نہیں پائی۔ بی جے پی نے اس بار مہاراشٹر میں مدھیہ پردیش کی طرح مائیکرو مینجمنٹ کی حکمت عملی اپنائی۔ جو پارٹی کے حق میں کام کرگئی اور مشکل سیٹوں پر بھی اسے جیت حاصل ہوئی۔
سوال ہائی کمان سے بھی
ہریانہ میں ہار کے بعد احتساب کا دعویٰ کرنے والی کانگریس ایک مہینے کے اندر ہی مہاراشٹر میں ڈھیر ہوگئی۔ ہار کے لئے کانگریس ہائی کمان پر بھی سوال قائم ہورہے ہیں۔ راہل گاندھی اور پارٹی صدر ملکارجن کھرگے شروعات میں انتخابی مہم سے دور رہے۔ آخر میں بڑے لیڈران نے طاقت ضرور جھونکی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کانگریس کے بڑے لیڈران مہاراشٹر میں نہ تو جارحانہ انداز میں تشہیر کرتے نظر آئے اور نہ ہی حکمت عملی بنانے کیلئے مہاراشٹر میں محاذ سنبھالا۔ اس کے برعکس بی جے پی کی طرف سے امیت شاہ نے مہاراشٹر میں کافی وقت دیا اور پارٹی کیلئے سیاسی بساط بچھائی۔ اس باعث کانگریس ہائی کمان پر بھی سوالات قائم ہورہے ہیں۔