Updated: September 12, 2024, 10:15 PM IST
| Sydney
آسٹریلیا کی بائیں بازو کی حکومت نے نفرت پر مبنی جرائم کےسد باب کیلئے دو نئے قانون متعارف کرائے ہیں جن کی رو سے کسی بھی فرد کو مذہب، رنگ، نسل، جنس، یا جنسی رجحان کی بنا پر نشانہ بنانے پر جرمانہ اور جیل کی سزا ہوگی۔ اس کے علاوہ کسی فرد کی ذاتی معلومات افشا کرنے کے خلاف ’’اینٹی ڈاکسنگ‘‘ قانون بھی لایا گیا ہے۔
آسٹریلیائی وزیر اعظم انتھونی البانیس ۔ تصویر: آئی این این
آسٹریلیا کی بائیں بازو کی حکومت نے نفرت پر مبنی جرائم کے خلاف قانون کو متعارف کرایا جس کی رو سے کسی بھی فرد کو مذہب، رنگ، نسل، جنس،یا جنسی رجحان کی بنا پر نشانہ بنانے پر جرمانہ اور جیل کی سزا کا اعلان کیا گیا ہے۔یہ قانون غزہ جنگ کے بعدنفرت پر مبنی حملوں میں اضافہ کےنتیجے میں وضع کئے گئے، جس کے تحت کسی بھی دہشت گرد تنظیم کی علامت کا مظاہرہ کرنے، اور نازی طرز کی سلامی پر پابندی عائد کی گئی ہے۔اس قانون کو متعارف کراتے ہوئے اٹارنی جنرل نے اپنے بیان میں کہا کہ’’ اب کسی بھی آسٹریلیائی شہری کو محض اس بناء پر نشانہ نہیں بنایا جا سکے گا کہ وہ کون ہے اور اس کا عقیدہ کیا ہے، ہم فخریہ طور پر ایک ایسے سماج کے شہری ہیں جو مختلف عقائد، اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے افراد پر مبنی ہے، اور ہمیں اس خوبی کی حفاظت کرکے اسے مظبوط بناناہے ۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: امریکی انتخابات: حماس پر عصمت دری کا جھوٹا الزام لگانے پر کملا ہیرس ہدف تنقید
واضح رہے کہ اس بل کے مطابق اگر کوئی شخص کسی جماعت یا فرد کے خلاف تشدد یا طاقت کے استعمال کی دھمکی دیتا ہے ، اور اگر وہ شخص اس دھمکی پر واقعی عمل در آمد سے خوفزدہ ہوتا ہے، اگر حکومت اس کو خطرہ محسوس کرتی ہے تواس کا ارتکاب کرنے والے کو سات سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔اس کے علاوہ لیبر حکومت نے ایک دوسرا قانون بھی متعارف کرایا، جس میں کسی بھی فرد کی ذاتی معلومات کو بدنیتی کے ساتھ عام کرنے پر چھ سال قید کی سزا تفویض کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اردن: قومی پارلیمانی انتخابات میں حزب اختلاف کی بڑی فتح
دراصل وزیر اعظم انتھونی البانیس نے فروری میں اسرائیل مخالف گروپوں کی جانب سے سیکڑوں یہودیوں کے نام اور ذاتی معلومات کو سوشل میڈیا پرعام کر دیئے جانے کے بعد اس کے خلاف اقدام کرنے کا وعدہ کیا تھا۔’’اینٹی ڈاکسنگ‘‘ نامی یہ بل فرد کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ سنگین راز افشا کرنے پر مقدمہ دائر کرسکے۔ لیکن صحافیوں، اورحکومت کے خفیہ اداروں کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔