مجسٹریٹ کی رپورٹ۔ ہائی کورٹ نے کہا : اس کی بنیاد پر ایف آئی آر درج ہونا لازمی ہے، بس ہمیں یہ بتایا جائے کہ کون سی ایجنسی تفتیش کرے گی۔
EPAPER
Updated: January 21, 2025, 10:33 AM IST | Shahab Ansari | Mumbai
مجسٹریٹ کی رپورٹ۔ ہائی کورٹ نے کہا : اس کی بنیاد پر ایف آئی آر درج ہونا لازمی ہے، بس ہمیں یہ بتایا جائے کہ کون سی ایجنسی تفتیش کرے گی۔
بدلاپور میں اسکولی بچیوں کےساتھ جنسی زیادتی کے ملزم اکشے شندے کی پولیس تحویل میں موت کے سلسلے میں مجسٹریٹ انکوائری کی رپورٹ میں ۵؍ پولیس اہلکاروں کو حراستی موت کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے جس پر ہائی کورٹ نے کہا کہ ان پولیس اہلکاروں کے خلاف لازماً ایف آئی آر درج ہونی چاہئے بس عدالت کو یہ بتایا جائے کہ اس کیس کی تفتیش کون سی ایجنسی کرے گی۔
اکشے کے والد انّا شندے نے بامبے ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کرکے دعویٰ کیا کہ ان کے بیٹے کو فرضی انکائونٹر میں ماراگیا ہے اور انہوں نے اس کی تحقیق اور خاطی پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
پولیس انکائونٹر کی مجسٹریٹ کے ذریعہ انکوائری ہوتی ہے اس لئے ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ اس انکوائری کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔ اس ہدایت کی بنیاد پر پیر کو مہر بند لفافے میں رپورٹ جسٹس ریوتی موہتے ڈیرے اور جسٹس نیلا گوکھلے کے روبرو پیش کی گئی۔ ججوں نے اس رپورٹ کا مطالعہ کیا اور کہا کہ اس میں انکائونٹر کو فرضی پایا گیا ہے اور اس میں تھانے کرائم برانچ کے سینئر انسپکٹر سنجے شندے، اسسٹنٹ انسپکٹر نلیش مورے، ہیڈ کانسٹبل ابھیجیت مورے، ہریش تائوڑے اور پولیس کی گاڑی چلانے والے ڈرائیور کو انکائونٹر کا ذمہ دار بتایا گیا ہے۔ اس انکائونٹر میں گولی سینئر انسپکٹر سنجے شندے نے چلائی تھی اور دیگر افراد ان کے ساتھ موجود تھے۔
یہ بھی پڑھئے:ٹرمپ نے عہدہ سنبھال لیا، نئے دور کے آغاز کا وعدہ
عدالت میں جو رپورٹ پیش کی گئی ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ پولیس وین میں (ڈرائیور کے علاوہ) جو ۴؍ پولیس اہلکار موجود تھے، وہ اس پوزیشن میں تھے کہ معاملے کو (انکائونٹر کئے بغیر) سنبھال سکتے تھے۔ رپورٹ میں سوال کیا گیا ہے کہ کیا اُس وقت کے حالات میں پولیس کے ذریعہ طاقت کے استعمال کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔
مجسٹریٹ نے ’فورینسک سائنس لیباریٹر ‘ کی رپورٹ پر بھی انحصار کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جس پستول کے تعلق سے کہا گیا ہے کہ ملزم اکشے نے پولیس سے چھین کر فائرنگ کی تھی، اس پر اس کی انگلیوں کے نشان نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے ہاتھ پر کارتوس کا پائوڈر بھی نہیں پایا گیا ہے جو عام طور پر پستول سہے گوئح چلانے کی وجہ سے ہاتھ پر لگ جاتا ہے۔ رپورٹ میں سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں کہ اگر مستقبل میں اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے یعنی کوئی ملزم فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے تو پولیس کو کیا احتیاطی تدابیر کرنی چاہئے۔
عدالت نے حکم دیا ہے کہ مجسٹریٹ کی رپورٹ کی کاپی استغاثہ کو اور ملزم اکشے کے والدین کو مہیا کرائی جائے۔ تاہم اس کی اصلی کاپی ہائی کورٹ کے پاس رہے گی تاکہ تفتیش یا مقدمہ کی سماعت کے دوران جب مستقبل میں استغاثہ کو اس کی ضرورت پیش آئے تو انہیں دی جاسکے۔ ججوں نے سرکاری وکیل ہتین وینیگائونکر کو ہدایت دی ہے کہ وہ ۲؍ ہفتوں میں عدالت کو بتائیں کہ کون سی ایجنسی اس انکائونٹر کی تفتیش کرے گی۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس اگست میں بدلاپور کے ایک مشہور اسکول میں ۴؍ سال کی ۲؍ بچیوں کے جنسی استحصال کا معاملہ سامنے آیا تھا جس میں پولیس نے اسی اسکول میں صاف صفائی کا کام کرنے والے اکشے شندے (۲۴) کو گرفتار کیا تھا۔ اس کے بعد ۲۳؍ ستمبر کو اکشے کو پولیس کی ایک ٹیم نے تلوجہ جیل سے پوچھ تاچھ کیلئے حراست میں لیا لیکن راستے میں اسے گولی ماردی گئی تھی۔ اسے ساتھ لے جانے والی پولیس ٹیم نے دعویٰ کیا تھا کہ اکشے نے ایک پولیس حوالدار کی پستول چھین لی تھی اور وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کررہا تھا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اکشے نے ان پر گولی بھی چلائی تھی جس کی وجہ سے جوابی کارروائی میں پولیس کی گولی لگنے سے اس کی موت ہوگئی۔
یہ بھی یاد رہے کہ بدلا پور کے اسکول میں بچیوں کے جنسی استحصال کی خبر عام ہونے کے بعد اس پر عوام نے شدید احتجاج کیا تھا اوربدلاپور ریلوے اسٹیشن پر ٹرین بھی روک دی تھی۔ اس واقعہ کا از خود نوٹس لیتے ہوئے ہائی کورٹ نے مفاد عامہ کی ایک پٹیشن پر سماعت شروع کی تھی اور اس طرح کے واقعات کی روک تھام کیلئے مہاراشٹر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کو تجاویز پیش کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اس تعلق سے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ کی کاپی بھی پیر کو عدالت میں پیش کی گئی تھی لیکن یہ ادھوری تھی اس لئے ایڈوکیٹ ہتین نے عدالت کو بتایا کہ اس کمیٹی کی رپورٹ ۳۱؍ جنوری تک مکمل ہوجائے گی۔