• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بنگلہ دیش میں حالات معمول پر نہیں آئے، پولیس غائب، نظم و نسق میں دشواری

Updated: August 07, 2024, 5:10 PM IST | Inquilab News Network | Dhaka

شیخ حسینہ حکومت گرنے اور شیخ یونس کی قیادت میں نئی عبوری حکومت بننے کے باوجود تاحال بنگلہ دیش میں حالات معمول پر نہیں آسکے ہیں۔ کئی مقامات پر پولیس تھانوں پر حملے کئے گئے جس کے بعد پولیس ڈیوٹی سے غائب ہے۔ صدر نے پولیس محکمہ میں بڑے پیمانے پر ٹرانسفر کئے ہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

پیر کو بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ حکومت گرنے کے بعد حالات معمول پر نہیں آئے ہیں۔ منگل کو تمام ملک میں بدنظمی چھائی رہی۔ پولیس ڈیوٹی سے غائب تھی جس کی وجہ سے عوام کو نظم و نسق میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم، مقامی میڈیا نے بتایا کہ بدھ کو طلبہ نے رضاکارانہ طور پر ٹریفک نظام سنبھالا۔

بدھ کو ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس اے کے ایم شہید الرحمٰن کو حالیہ بحران کو سنبھالنے کیلئے بنگلہ دیش پولیس فورس کے اہم افسر کے طور پر تعینات کیا گیا ہے۔  انہوں نے پولیس فورس کے ہر ممبر سے اپیل کی کہ وہ بتدریج طریقے سے جلد از جلد اپنی ڈیوٹی پر لوٹ آئیں اور نظم و نسق کی بحالی میں تعاون کریں۔ اس دوران، ڈھاکہ ٹریبیون کے مطابق، پولیس کی غیر موجودگی میں طلبہ اور بنگلہ دیش اسکاؤٹس کے ممبران نے رضاکارانہ طور پر کئی مقامات پر ٹریفک سنبھالنے کی ذمہ داری انجام دی۔ ڈھاکہ ٹریبیون کے مطابق، منگل کو مشتعل عوام نے کئی پولیس تھانوں پر حملہ کیا جس میں عوامی املاک کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔ انہی حالات اور خوف کے ماحول کی بدولت پولس اپنی ڈیوٹی سے غائب رہی۔

یہ بھی پڑھئے:بنگلہ دیش: طلبہ لیڈران کو عبوری حکومت جلد قائم ہونے کی توقع

واضح رہے کہ منگل کی رات بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین نے معروف نوبل ایوارڈ یافتہ محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا جس کے بعد پولیس محکمے میں اعلیٰ سطحی عہدیداروں کا بڑے پیمانے پر ٹرانسفر کیاگیا۔ حکومت گرنے کے بعد نظم و نسق کی بحالی اور فیکٹریوں، دکانوں اور تجارتی مراکز، پولیس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دو دنوں میں فیکٹریوں اور تجارتی مراکز پر تشدد حملوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔مقامی اخبار ڈیلی اسٹار نے بتایا کہ کچھ فیکٹری مالکین خصوصاً کپڑے کی دکانیں کھل گئی ہیں لیکن ان پر حملے کا خطرہ برقرار ہے۔ علاوہ ازیں، بنگلہ دیش بینک کے چھ اعلیٰ سطحی عہدیدار، جن میں ڈپٹی گورنر قاضی سعید الرحمن بھی شامل ہیں، نے بدھ کو استعفیٰ دے دیا۔ ڈھاکہ ٹریبیون کے مطابق ، ۱۰۰ سے زائد سرکاری ملازمین نے بنگلہ دیش بینک اور گورنر آفس پر حملہ کیا جس کے باعث کئی ڈپٹی گورنرز کو افس چھوڑنا پڑا۔ ان عہدیداروں پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ بینک کو لوٹنے والے افراد کی مدد کر رہے تھے۔ 

منگل کو سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کی عوامی پارٹی کے ۲۹ حامیوں کی لاشیں برآمد ہوئیں جس کے بعد مظاہروں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۴۶۹ تک پہنچ گئی ہے۔ واضح رہے کہ تین ہفتے قبل جولائی میں بنگلہ دیش میں سرکاری نوکریوں میں کوٹہ کی تبدیلی پر ملک گیر احتجاج کا اغاز ہوا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK