• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بنگلہ دیش، ہندوستانی کمپنیوں کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر نظر ثانی کرے گا: رپورٹ

Updated: September 12, 2024, 10:15 PM IST | Dhaka

بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کے دور اقتدار میںہندوستان کے ساتھ جن تجارتی معاہدوں پر دستخط کئے گئے تھے، محمد یونس کی عبوری حکومت ان تمام معاہدوں پر نظر ثانی کرے گی۔اس میں اڈانی گروپ کا بجلی معاہدہ بھی شامل ہے جو بنگلہ دیش میںاس کی غیر معمولی اونچی قیمت کے سبب متنازع بنا ہوا ہے۔

Mohammad Yunus, the head of the interim government of Bangladesh. Photo: INN
بنگلہ دیش کے عبوری حکومت کے سربراہ محمدیونس ۔ تصویر: آئی این این

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے ہندوستانی تاجروں جس میں اڈانی گروپ بھی شامل ہے ان شرائط کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت وہ بنگلہ دیش میں کار وبار کر رہے ہیں۔ نامعلوم حکام کے ذرائع سے جمعرات کو یہ خبر دی گئی کہ محمد یونس کی سربراہی والی عبوری حکومت ان معاہدوں کا ان اصولوں کا معائنہ کرے گی جس کے تحت ’’ کوئی بھی بیرونی کمپنی اس وقت تک یہ درجہ حاصل نہیں کر سکتی جب تک وہ ملک کے قوانین کی پاسداری نہ کرے۔‘‘
واضح رہے کہ اڈانی گروپ ۲۰۱۷ء میں ایک معاہدے کے تحت جھارکھنڈ کے گوڈا ضلع کی اکائی سے بنگلہ دیش کو بجلی فراہم کر رہا ہے۔ حکام نے خدشہ ظاہر کیا کہ’’ حکومت کے اس اقدام کی غلط تعبیر کرتے ہوئے اسے ہندوستانی کاروبایوں کو نشانہ بنانے کی کوشش قرار دیا جائےگا۔ حالانکہ حکومت کی یہ منشا نہیں ہے۔ ہم فقط یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ تاجرملک میں کس طرح اپنا کاروبار کر رہے ہیں،اس کے علاوہ بنگلہ دیش جو قیمت ادا کر رہا ہے وہ جائز ہے یا نہیں۔ اس معائنے کے بعد ان تمام سوالوں کے جواب منظر عام پر آجائیں گے۔‘‘واضح رہے کہ حکومت کا یہ اعلان فائنانشیل گروپ کی ایک رپورٹ میں شائع اڈانی گروپ کے انتباہ کے بعد آیاجس میں انہوں نے بنگلہ دیشی حکومت پر ۵۰۰؍ ملین ڈالر کے بقایا جات کے تعلق سے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔
جب بنگلہ دیش حکومت کے اس اقدام کی بابت اڈانی گروپ سے سوال کیا گیا تو اس کے ترجمان نے کہا کہ’’ انہیں اس با ت کا کوئی علم نہیں ہے کہ بنگلہ دیش نے ۲۰۱۷؍ کے معاہدے پر نظر ثانی کا اعلان کیا ہے۔‘‘انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ ہم شراکت کی روح کے مطابق بجلی کی فراہمی جاری رکھیں گے باوجود اس کے کہ ہماری ایک خطیر رقم ان پر بقایا ہے،ہم اس کی بازیابی کیلئے بنگلہ دیشی حکام سے مسلسل رابطہ میں ہیں۔‘‘ 

یہ بھی پڑھئے: اتراکھنڈ: ہندوتوا تنظیموں کا اترکاشی کی ایک پرانی مسجد کو منہدم کرنے کا مطالبہ

اڈانی گروپ اور بنگلہ دیش کے مابین شیخ حسینہ کے دور اقتدار میں ایک معاہدے کے تحت یہ طے پایا تھا کہ جھارکھنڈ کے گوڈا کی اکائی سے بنگلہ دیش کے کھپت کا۷؍ سے ۱۰؍ فیصد یا کسی مخصوص علاقے کی کم ترین ضرورت کی بجلی فراہم کرے گا، یہ معاہدہ نریندر مودی کےاگست ۲۰۱۵ء کے بنگلہ دیش دورے کے فوراً بعد طے پایا تھا۔ جس پر ہندوستان کی حزب اختلاف پارٹیوں نے سوالیہ نشان بھی کھڑا کیا تھا۔اس کے علاوہ بنگلہ دیش میں بھی اسے متنازع خیال کیا جاتا رہا ہے، جس کی وجہ ماہرین اس کی غیر معمولی اونچی قیمت بتاتے ہیں۔بنگلہ دیش کے خبر رساں ادارے یو این بی ٹی کے مطابق گزشتہ سال بنگلہ دیش کے بجلی بورڈ نے اڈانی گروپ کو مکتوب روانہ کرکے اس معاہدے پر نظرثانی کا ارادہ ظاہر کیا تھا، جس میں اعلی قیمت ہی اعتراض کا مرکز تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’’تم خود بیف کھائو، شراب پیو ، لوگوں کی جان لو اور ہمیں ہندوتوا سکھائو ‘‘

۱۲؍ اگست کو ہندوستانی حکومت نے ان رہنما خطوط میں تبدیلی کر دی جس کے مطابق گوڈا میں تیار کی جانے والی تمام بجلی بنگلہ دیش کو ہی درآمد کئے جانے کی شرط تھی، اس تبدیلی کے تحت اب اڈانی گروپ یہ بجلی ہندوستان میں مخصوص حالات میں فراہم کر سکتاہے۔ حالانکہ حکومت کے اس اقدام کو اڈانی گروپ کو بنگلہ دیش میں سیاسی حالات کے پیش نظر ہونے والے نقصان کی تلافی کی کوشش کے طور پر خیال کیا جا رہا ہے۔کیونکہ حکومت ہند نے شرائط میں یہ تبدیلی شیخ حسینہ کے بحیثیت وزیر اعظم کے استعفی اور فرار کے ایک ہفتہ بعد ہی کی تھی۔اس کے بعد یونس خان نے ۸؍ اگست کو عبوری حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے حلف لیا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK