بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے ہندوستان سے معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حوالگی کی درخواست کی ہے۔ بنگلہ دیشی حکام کا کہنا ہے کہ حسینہ کو ملک واپس آکر عدالتی عمل کا سامنا کرنا چاہئے۔ اس سے قبل مفرور شیخ حسینہ نے بنگلہ دیشی حکومت پر ہندو اقلیت کے تحفظ میں ناکام ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے نئی دہلی کو ایک سفارتی مکتوب بھیجا ہے جس میں معزول وزیراعظم شیخ حسینہ کی حوالگی کی درخواست کی گئی ہے،جواگست میں بنگلہ دیش سے فرار ہونے کے بعد سے ہندوستان میں مقیم ہیں۔ملک کے وزیرخارجہ کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش چاہتا ہے کہ شیخ حسینہ وطن لوٹ کر عدالتی عمل کا سامنا کریں۔یہ سفارتی مکتوب نئی دہلی میں بنگلہ دیشی ہائی کمان نے ہندوستان کی وزارت خارجہ کے حوالے کی۔ جبکہ ہندوستانی ذرائع نے اس زبانی مکتوب کے موصول ہونے کی تصدیق کی، لیکن وزارت کی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: تقریباً ۲؍ ملین فلسطینی موسم سرما میں ضروریات زندگی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں
واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں طلبہ کے احتجاج کے بعد حکومت کا تختہ پلٹ دیا گیا تھا، جس کے بعد شیخ حسینہ فرار ہوکر ۵؍ اگست کو ہندوستان آگئی تھیں۔بنگلہ دیش میں قائم انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (آئی سی ٹی) نے شیخ حسینہ واجد اور کئی سابق کابینہ کے وزراء، مشیروں، اور فوجی اور سول حکام کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کےالزامات کے تحت گرفتاری وارنٹ جاری کیے ہیں۔قبل ازیں پیر کو مشیر داخلہ جہانگیر عالم نے کہا کہ ڈھاکہ اور نئی دہلی کے درمیان حوالگی کا معاہدہ پہلے سے موجود ہے اوراس کے تحت حسینہ کو بنگلہ دیش واپس لایا جا سکتا ہے۔گزشتہ ماہ، عبوری حکومت کے ۱۰۰؍دن مکمل ہونے پر قوم سے خطاب میں، بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر محمد یونس نے کہا کہ وہ حسینہ کی حوالگی کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ہر قتل میں انصاف کو یقینی بنانا چاہیے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حسینہ حکومت کے خلاف مظاہروں کے دوران طلباء اور کارکنوں سمیت تقریباً ۱۵۰۰؍افراد ہلاک اور ۱۹؍ ہزار ۹؍ سو ۳۱؍ افرادزخمی ہوئے۔اکتوبر میں، قانون کے مشیر آصف نذرول نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ اگر ہندوستان نے معاہدے کی کسی شق کا حوالہ دے کر حسینہ کی حوالگی سے انکار کرنے کی کوشش کی تو بنگلہ دیش سخت احتجاج کرے گا۔ ستمبر میں ڈھاکہ میں پی ٹی آئی کے ساتھ ایک انٹرویو میں یونس نے کہا تھا کہ حسینہ کا ہندوستان میں بیٹھ کرسیاسی تبصرہ کرنا ایک غیردوستانہ اشارہ ہے۔ انہوں نے کہا،اگر ہندوستان انہیں اس وقت تک رکھنا چاہتا ہے جب تک کہ بنگلہ دیش کی حکومت ان کی واپس کا مطالبہ نہیں کرتی تو شرط یہ ہوگی کہ انہیں خاموش رہنا ہوگا۔خیال رہے کہ حالیہ ہفتوں میں،حسینہ نے یونس کی زیرقیادت عبوری حکومت پر ’’نسل کشی‘‘ کا ارتکاب کرنے اور اقلیتوں، خاص طور پر ہندوؤں کے تحفظ میں ناکام ہونے کا الزام لگایا تھا۔ خارجہ سکریٹری وکرم مصری نے دو ہفتے قبل ڈھاکہ کا دورہ کیا تھا جس کے دوران انہوں نے بنگلہ دیش کو ہندوستان کی تشویش سے آگاہ کیا تھا، خاص طور پر اقلیتوں کے تحفظ اور بہبود سے متعلق ۔