سول نافرمانی کی تحریک کے دوران مظاہرین ، پولیس اور حکمراں جماعت کے کارکنوں میں جھڑپیں، مہلوکین میں ۱۴؍پولیس اہلکار بھی شامل، حکومت نے ملک میں غیرمعینہ مدت کیلئے کرفیو نافذ کردیا۔
EPAPER
Updated: August 05, 2024, 2:01 PM IST | Agency | Dhaka
سول نافرمانی کی تحریک کے دوران مظاہرین ، پولیس اور حکمراں جماعت کے کارکنوں میں جھڑپیں، مہلوکین میں ۱۴؍پولیس اہلکار بھی شامل، حکومت نے ملک میں غیرمعینہ مدت کیلئے کرفیو نافذ کردیا۔
حکومت کے خلاف ’تحریک سول نافرمانی‘ کے بعد بنگلہ دیش کے کئی شہروں میں تشدد کی تازہ لہر پھیل گئی جس کےدوران کم از کم ۹۱؍ افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو گئے۔ مہلوکین میں ۱۴؍پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ اس دوران طلباء کی پولیس اور حکمران جماعت کے کارکنوں کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔ وزیراعظم شیخ حسینہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے والے ہزاروں مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے آنسو گیس اور اسٹین گرینڈز کا استعمال کیا۔ حالات کے پیش نظرحکومت نے ملک میں غیرمعینہ مدت کیلئے کرفیو نافذ کردیا۔
’انڈیاٹوڈے‘ کی خبر کے مطابق اتوارکو بڑی تعداد میں مظاہرین جن میں سے بہت سے لاٹھیاں اٹھائے ہوئے تھے، ڈھاکہ کے مرکزی شاہ باغ اسکوائر میں گھس گئے۔ احتجاج کے دوران متعدد مقامات اور کئی اہم شہروں میں سڑکوں پر لڑائیاں ہوئیں۔ مظاہرین نے بڑی شاہراہوں کوبندکر دیا۔ ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں اورانہیں حکمراں جماعت عوامی لیگ کے کارکنوں سے بھی تصادم ہوا۔
مظاہرین نے دفاتر اور اداروں پر حملہ کیا جس میں بنگلہ بندھو شیخ مجیب میڈیکل یونیورسٹی بھی شامل ہے۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ ڈھاکہ کے اترا علاقے میں خام بم کے کچھ دھماکے ہوئے اور گولیوں کی آوازیں بھی سنی گئیں۔ خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق مظاہرین نے کئی گاڑیوں کو بھی نذر آتش کردیا۔
یہ بھی پڑھئے:برطانیہ : بچیوں کے قتل کے بعد شروع ہوئے مظاہروں میں۲۵۰؍ افراد گرفتار
منشی گنج میں مظاہرین اور حکمراں جماعت عوامی لیگ کے کارکنوں کے درمیان تصادم میں کم از کم ۲؍ افراد کی موت اور ۳۰؍ زخمی ہوگئے جبکہ رنگ پور میں ۴؍ افراد ہلاک اور ۱۰۰؍ سے زائد زخمی ہوگئے۔
ضلع پبنا کے قصبے میں عوامی لیگ کے کارکنوں کی مبینہ فائرنگ میں \۳؍طلباء زاہد اسلام (۱۹)، محبوب الحسین(۱۶) اور فہیم (۱۷)جاں بحق ہوگئے جبکہ ۵۰؍ افراد زخمی ہیں۔ اسی طرح سراج گنج میں مظاہرین کی عوامی لیگ کے کارکنوں اور پولیس سے مڈبھیڑ ہوئی جس میں کم از کم ۴؍افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔
بوگرہ میں عوامی لیگ کے کارکنوں اور مظاہرین کے درمیان صبح سے جاری جھڑپوں میں ۲؍افراد ہلاک ہو گئے۔
کومیلا کے علاقے ڈیبیڈوار میں عوامی لیگ اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے دوران ایک کارکن جاں بحق اور ۳؍بچے سمیت ۱۵؍ افراد زخمی ہوگئے۔ ماگورا میں جھڑپوں میں طلبہ تنظیم کے لیڈر سمیت ۲؍افرادکی موت ہوگئی۔
دریں اثناء کئی علاقوں میں بڑے پیمانے پر ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ اور آتش زنی کے واقعات بھی ہوئے۔ متعدد پولیس اسٹیشنوں اور ۲؍ اراکین اسمبلی کے مکانوں کو بھی نذر آتش کردیا گیا۔
ڈھاکہ کے منشی گنج ضلع میں ایک پولیس اہلکار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ’’پورا شہر میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ‘‘ احتجاج کرنے والے لیڈروں نے مظاہرین سے لاٹھیوں سے مسلح ہونے کی اپیل کی تھی کیونکہ جولائی میں ہونے والے احتجاج کو پولیس نے بڑی حد تک کچل دیا تھا۔
حالات کے پیش نظرحکومت نے اتوار کی شام ۶؍بجے سے ملک میں غیر معینہ مدت کیلئے کرفیو نافذکردیا۔
واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں طلبہ ایک مہینے سے زائد عرصے سے احتجاج کر رہے ہیں۔ وہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس دوران پرتشدد احتجاج میں اب تک ملک بھر میں کم از کم ۲۰۰؍ افراد کو ہلاک ہوچکے ہیں۔