بیلاپور میں عید لالضحیٰ سے قبل قربانی کے بکرے پر مذہبی نام لکھنے کا معاملہ۔
EPAPER
Updated: September 02, 2024, 11:19 AM IST | Shahab Ansari | Panvel
بیلاپور میں عید لالضحیٰ سے قبل قربانی کے بکرے پر مذہبی نام لکھنے کا معاملہ۔
اس سال جون میں عید الاضحیٰ سے محض ۳؍ روز قبل بیلا پور میں قربانی کے ایک بکرے پر مذہبی نام لکھا نظر آنے کی وجہ سے تنازعہ ہوگیا تھا اور ایک ہندو تنظیم کے ممبر کی شکایت پر پولیس نے دکان اور ۲۲؍ بکرے ضبط کرکے دکان کے مالک سمیت ٣؍ افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔ اس معاملے میں حال ہی میں عدالت نے پولیس اور میونسپل کارپوریشن کو حکم دیا کہ متذکرہ دکان اس کے مالک کو لوٹائی جائے۔ بکروں کو واپس کرنے کی ہدایت پہلے ہی دی جاچکی ہے۔
پولیس اور میونسپل کارپوریشن کے اختیارات
بکروں کی دکان کے مالک شفیع شیخ کے وکیل فیضان ہارون قریشی نے اس سلسلے میں انقلاب سے گفتگوکے دوران بتایا کہ’’دکان ضبط کئے جانے کے تعلق سے ہمارا کہنا تھا کہ پولیس یا میونسپل کارپوریشن کو دکان یا کوئی بھی غیر منقولہ چیز ضبط کرنے کا اختیار ہے ہی نہیں بلکہ یہ اختیار عدالت کو ہے اور اس معاملے میں پولیس کے کہنے پر نوی ممبئی میونسپل کارپوریشن کے جانوروں کے ڈاکٹر نے دکان ضبط کرنے کا حکم جاری کردیا جو غیرقانونی عمل ہے۔
دوسری طرف سرکاری وکیل نے دکان قرق کرنے کے عمل کو درست بتاتے ہوئے کہا تھا کہ دکان مالک نے قربانی کے بکرے پر مذہبی نام لکھ کر لوگوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے جس کے سبب فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی تھی اور نظم و نسق کا مسئلہ پیدا ہوسکتا تھا۔ اگر دکان اس کو واپس لوٹائی گئی تو وہ دوبارہ اس طرح کی حرکت کرسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: کھانے پینے کی اشیاء دورانِ سفر لے جانے پر کوئی پابندی نہیں
دکان سے متعلق عدالت کا فیصلہ
تاہم بیلاپور عدالت کے جج سنگرام سبھاش جادھو نے سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کی روشنی میں یہ بات قبول کی کہ پولیس یا میونسپل کارپوریشن کو غیر منقولہ چیزیں مثلاً دکان وغیرہ ضبط کرنے کا اختیار نہیں ہے صرف عدالت کسی دکان یا مکان وغیرہ کو ضبط کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے، جس کی کاپی انقلاب کے پاس ہے، میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی رو سے اس معاملے میں پولیس اور نوی ممبئی میونسپل کارپوریشن نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے دکان ضبط کی ہے اس لئے عدالت ان کو حکم دیتی ہے کہ مذکورہ دکان کا قبضہ فوری طور پر دکان مالک کو دے دیا جائے۔
بکروں سے متعلق عدالت کا فیصلہ
وکلاء کی بحث سننے کے بعد جج نے اپنے تفصیلی فیصلہ میں سب سے پہلے یہ وضاحت کی کہ قانون میں جانور پر ظلم کسے کہا جاتا ہے اور پھر کہا کہ اس معاملے میں کہیں بھی یہ بات نظر نہیں آرہی کہ بکروں پر ظلم کیا گیا۔ جج سنگرام جادھو نے مزید کہا کہ ایف آئی آر میں بھی صرف ایک بکرے کو `الیکٹرک پول سے چھوٹی سی رسی سے باندھنے کو ظلم بتایا گیا ہے اور دکان میں موجود بکروں کا تو ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ مزید یہ کہ نہ تو پولیس نے وہ رسی ضبط کی اور نہ ہی یہ کہا ہے کہ ان بکروں کو اس دکان میں اسی دن ذبح کیا جانے والا تھا۔ حقیقت یہ ہیکہ عیدالاضحی کا موقع تھا اور وہ بکرے فروخت کرنے کی غرض سے لائے گئے تھے۔ پولیس نے یہ بھی نہیں کہا ہیکہ جس رنگ سے بکرے پر مذہبی نام لکھا گیا تھا اس سے بکرے کی کھال یا بکرے کو کوئی نقصان پہنچا۔ ان مشاہدات کے ساتھ جج نے جانوروں کی تنظیم کی بکرے حاصل کرنے کی عرضی مسترد کردی اور دکان مالک کو تمام ۲۱؍ بکرے دینے کا حکم دیا۔ عدالت کو بتایا گیا تھا کہ ضبط شدہ ایک بکرا مر گیا ہے۔
بنیادی کیس اب بھی زیر التواء ہے
اس معاملے میں بنیادی کیس اب بھی زیر التواء ہے جس میں قربانی کے بکرے پر مذہبی نام لکھنے کا الزام ہے۔ اس معاملے میں دفاعی وکیل فیضان کا کہنا ہے کہ متذکرہ بکرا ایک گاہک نے خرید کر اپنے ہاتھ سے اس پر اپنے نام کا مخفف لکھ دیا تھا۔ اس گاہک کا نام ریاض احمد مِتھانی ہے اور بکرے پر یہ مکمل نام لکھنا ممکن نہیں تھا جس کی وجہ سے نام کے ابتدائی حروف آر. اے۔ ایم. لکھ دیئے گئے جو انگریزی میں لکھنے پر ’رام‘ پڑھا جارہا تھا اور شروع میں لوگوں کو غلط فہمی ہوگئی کہ مذہبی منافرت کی وجہ سے بکرے پر بھگوان کا نام لکھ کر اسے ذبح کیا جائے گا۔ حالانکہ اسی روز ریاض احمد نے پولیس کو بیان دے کر پوری حقیقت سے آگاہ کردیا تھا اور یہ بات صاف ہوگئی تھی کہ یہ صرف غلط فہمی کا معاملہ ہے اس کے باوجود کچھ لوگوں نے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی غرض سے اسے فرقہ وارانہ رنگ دے دیا اور پولیس پر دباؤ ڈال کر کارروائی کروائی۔
پولیس یا میونسپل کارپوریشن کو غیر منقولہ چیزیں مثلاً دکان وغیرہ ضبط کرنے کا اختیار نہیں ہے صرف عدالت کسی دکان یا مکان وغیرہ کو ضبط کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔
سنگرام سبھاش جادھ(بیلاپور عدالت کے جج)