• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کھانے پینے کی اشیاء دورانِ سفر لے جانے پر کوئی پابندی نہیں

Updated: September 02, 2024, 11:11 AM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

وکلاء کی قانون کی روشنی میں وضاحت لیکن کہا کہ حالات کے پیش نظر حکمت عملی کے تحت احتیاط برتنا مفید ہوگا اور اس طرح ہم شرپسندوں کے منصوبوں کو خاک میں ملاسکتے ہیں۔

Ashraf Ali Syed Hussain (inset) assaulted accused in the circle. Photo: INN
اشرف علی سید حسین(انسیٹ) کو زد و کوب کرنے والے ملزمین دائرے میں۔ تصویر : آئی این این

ٹرین میں سفر کے دوران گوشت یا دیگر کھانے پینے کی اشیاء لے جانے کے تعلق سے سوائے ممنوعہ اشیاء اور ممنوعہ جانوروں کے گوشت کے قانون میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی اس پر کوئی پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس کے باوجود حالات کے پیش نظر محتاط ہوکر سفر کرنا بہتر ہوگا۔ 
 دھولیہ سی ایس ایم‌ ٹی ایکسپریس میں سفر کے دوران اشرف علی سید حسین(۷۲) سے بیف لے جانے کے نام پر شرپسندوں کے ذریعے ان سے کی گئی مارپیٹ اور گالی گلوج کے ضمن میں نمائندۂ انقلاب نے ۵؍ وکلاء سے بات چیت کی۔ ‌ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ قانون کیا کہتا ہے۔ 
بنیادی حقوق سے کسی کو محروم نہیں کیا جاسکتا
  سینئر وکیل ایڈوکیٹ ایچ آر شرما نے کہا کہ کھانے پینے کی جن چیزوں کی اجازت ہے ان کےلے جانے پر قانوناً کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔ اس لئے کسی بھی شخص کو نہ تو روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے سختی کی جاسکتی ہے۔ ویسے بھی کھانے پینے کی چیزیں کوئی بھی شخص کلو ۲؍ کلو ہی لے جائے گا ۲۵؍ یا ۵۰؍ کلو نہیں، اس پر اگر کوئی عام شخص کسی کے ساتھ زیادتی کرتا ہے جیسا کہ اس بزرگ مسافر کے ساتھ کیا گیا تو ایسا کرنے والا خود مجرم ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کھانا پینا، پہننا اوڑھنا عام آدمی کا بنیادی حق ہے، اس سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ 

یہ بھی پڑھئے:بنارس ہندو یونیورسٹی آبرورزی کیس کے۲؍ ملزمین کی رہائی پر اپوزیشن برہم

ایڈوکیٹ کشور سامنت نے کہا کہ میں نے خود بھی وہ ویڈیو دیکھا جس میں کئی نوجوان اپنی باپ کے عمر کے بزرگ کو بے رحمی سے پیٹ رہے ہیں ، بدتمیزی کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ گالی گلوج کر رہے ہیں۔ ان سب کا یہ عمل ایک نہیں اپنے آپ میں کئی جرائم کو سمیٹے ہوئے ہیں ۔ اگر کسی مسافر کو یہ محسوس ہوتا ہے یا وہ یہ دیکھتا ہے کہ دوسرے مسافر کے پاس کوئی ایسی چیز ہے جسے سفر کرتے ہوئے لے جانے‌کی اجازت نہیں ہے تو وہ پولیس یا ریلوے اتھارٹی کو اس سے مطلع کرے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اس کا شمار ذمہ دار شہری میں ہوگا ورنہ وہ قانون کی نگاہ میں اس سے بڑا مجرم ہوگا۔ ویسے بھی ریلوے نے تو خود ہی وزن کی مقدار سے لے کر کون سی اشیاء منع ہیں ، سب کی وضاحت کر دی ہے۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ ایک طبقے کے نزدیک قانون مذاق بن کر رہ گیاہے اور وہ موقع بہ موقع ایسی حرکتیں کرتا رہتا ہے۔ 
 سینئر ایڈوکیٹ صغیر خان‌ نے کہا کہ ٹرین کے ہر ڈبے میں خود ہی ہدایت نامہ لگا رہتا ہے جس میں خاص طور آتش گیر مادہ، پیٹرول، مٹی کا تیل، گیس سلنڈر اور ہتھیار کی تفصیل درج ہوتی ہے۔ خلاف ورزی کرنے والے مسافر سے جرمانہ بھی لیا جاتا ہے۔ 
 انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اگر کوئی شخص تجارت کی غرض سے کوئی چیز لے جانا چاہے تو اس کے لئے اصول موجود ہے، کون سے نقل وحمل کے ذرائع استعمال ہوں گے، اس کی بھی تفصیل موجود ہے۔ مثال کے طور پر جب سلاٹر ہاؤس سے گوشت کاٹ کر سپلائی کیا جائے گا تو اس کا چالان بھی سپلائی کرنے والا لے گا اور اجازت بھی لیکن جب کوئی شخص کسی دکان سے گوشت خریدے گا تو اسے اس کی ضرورت نہیں ہوگی بالکل اسی طرح جیسے سبزی یا فروٹ کی گاڑیاں جب مارکیٹ لائی جاتی ہیں تو اس کے لئے بھی ٹرانسپورٹ کے اصول و ضوابط کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے لیکن جب ایک عام صارف ہول سیل مارکیٹ یا دکان سے خریدے گا تو اسے ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن اب تو ایسا لگتا ہے کہ ایک طبقے ایسا ہے جس کی نگاہ میں قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہے وہ خود ہی فیصل بن جاتا ہے جیسا کہ اشرف علی سید حسین کے ساتھ ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ قانوناً تو کوئی بندش نہیں ہے پھر بھی حالات کے پیش نظر محتاط ہوکر سفر کیا جائے تاکہ ایسے عناصر کو کسی طرح کا موقع نہ مل سکے۔ 

یہ بھی پڑھئے:کوکن مرکنٹائل بینک کے روح رواں علی ایم شمسی کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا

حکمت عملی کی غرض سے ایسا کیا جائے
 ایڈوکیٹ شہود انور نے کہا کہ عام آدمی کے آئینی حقوق چھیننے کا کسی کو حق نہیں اور نہ ہی کوئی اس کی پسند اور ناپسند طے کرے گا۔ اسے اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ جیسے ہر شخص بلاٹکٹ مسافروں سے ٹکٹ نہیں مانگ سکتا، محض ٹی سی کو اس کی اجازت ہے اسی طرح ذمہ دار شہری کا رول صرف اتنا ہے کہ وہ خلاف اصول کوئی عمل دیکھنے پر متعلقہ ایجنسی یا اہلکار کو مطلع کردے نہ کہ خود منصف بن جائے اور قانون ہاتھ میں لے لے ورنہ انارکی پھیل جائے گی اور اس کا یہ عمل خود بڑا جرم ہوگا۔ انہوں نے‌ اس سے اتفاق کیا کہ قانون تو عام آدمی کو پورا حق دیتا ہے مگر موجودہ حالات میں محتاط ہوکر سفر کرنا بہتر ہے تاکہ ایسے حالات سے بچا جاسکے۔ مگر اسی کے ساتھ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ یہ ڈر، خوف اور کسی اندیشے سے کیا جائے بلکہ شرپسندوں کے منصوبوں کا خاک میں ملانے کے لئے حکمت عملی کی غرض سے۔ 
 ایڈوکیٹ ابراہیم شیخ عرف لاڈلے، جنہوں نے وہ ویڈیو اپنے پیغام کے ساتھ عام کیا تھا، نے کہا کہ قانوناً ایسی کوئی پابندی نہیں ہے جس میں گوشت لے جانا منع ہو۔ اس لئے کہ جو چیزیں کھائی جاتی ہیں وہ لے جاسکتے ہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ ان اشیاء کی تجارت کا ضابطہ مختلف ہے۔ لیکن اگر ہم دوران سفر تھوڑی احتیاط برتیں تو ان شرپسندوں کے منصوبوں کو ناکام بناسکتے ہیں جو اس طرح کی حرکتوں سے اصل موضوعات سے عوام کی توجہ ہٹانا اور فرقہ پرستوں کو طاقت پہنچانا چاہتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK