Updated: June 24, 2024, 11:30 AM IST
| Patna
۱۸؍ جون کو ارریہ، ۲۲؍ جون کو سیوان میں پل گرنے کے واقعات کے بعد اتوار کو مشرقی چمپارن میں بھی ایک ز یر تعمیر پل منہدم، کوئی جانی نقصان نہیں، حکام کو حادثہ کا سبب بھی معلوم نہیں، اس سے قبل ۲۲؍ مارچ ،جون ۲۰۲۳ء اور اپریل ۲۰۲۲ء میں بھی پلوں کے انہدام کے واقعات ہو چکے ہیں۔
سنیچر کوسیوان میں جو پل منہدم ہوا وہ ۳۰؍ سال پرانا تھا۔ تصویر :پی ٹی آئی
بہار کے ارریہ اور سیوان میں پل گرنے کے واقعات کے بعداتوار کومشرقی چمپارن میں بھی ایک ز یر تعمیرپل منہدم ہوگیا۔ ارریہ میں پانچ دن قبل پل گرنے کا حادثہ پیش آیا تھا جبکہ سیوان میں سنیچر کو پل گرگیا۔ بہارمیں گزشتہ ۲؍ سال میں پُل گرنے کے پانچ واقعات ہوچکے ہیں جبکہ ہفتے بھر میں یہ تیسرا واقعہ ہے۔ سنیچر کو سیوان میں جو پل منہدم ہواوہ ۱۰۰؍ میٹر لمبا تھا۔ دروندا بلاک کی رام گڑھ پنچایت میں ایک نہر پر بنایا گیا۱۰۰؍ میٹر لمبا یہ پل ۳۰؍ سال پرانا تھا۔ پل کے ایک کنارے کا حصہ ٹوٹ کر گرگیا۔ حادثہ میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔ سیوان کا یہ پل مہاراج گنج اوردروندا اسمبلی کو جوڑتا تھا۔
ادھر اتوار کو مشرقی چمپارن میں بھی ایک زیر تعمیرپل منہدم ہوا۔ یہ حادثہ موتیہاری کے گھورا سہن بلاک میں پیش آیا۔ اس میں بھی کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے لیکن مقامی افراد کاکہنا ہے ابھی تو بارش بھی نہیں ہورہی ہے اور پل گررہے ہیں۔ یہ پل کمزور تعمیر ہوئے ہیں، ان میں استعمال ہونے والا سامان اس قدر ناقص ہوتا ہے کہ یہ دوارنِ تعمیر یا تعمیر کے چند دنوں کے اندر منہدم ہوجا تے ہیں۔ لوگوں کو کا کہنا ہے کہ اس بار نہ تو طوفان آیا اور نہ ہی بارش ہوئی پھر بھی پل زمیں بوس ہو گیا۔ چمپارن میں منہدم ہونے والایہ پل ۱۶؍ میٹر لمبا تھا اوراس کی تعمیرکا بجٹ ڈیڑھ سے ۲؍ کروڑ روپےتھا۔
یہ بھی پڑھئے: مانسون میں حفاظتی نقطہ نظر پر توجہ مرکوز کرنے کی ریلوے ملازمین کو ہدایت
’’حادثہ کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی ‘‘
رورَل ورکس ڈپارٹمنٹ (آر ڈبلیو ڈی) کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری دیپک کمار سنگھ نے اس حادثہ پر اپنے رد عمل میں کہا کہ ’’ حادثہ کی صحیح وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ یہ ایک سنگین معاملہ ہے اور اس کی محکمہ جاتی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔ قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ‘‘انہوں نے مزید بتایا کہ’’سینئر ضلعی انتظامیہ افسران جائے وقوع پر پہنچ چکے ہیں اور تفصیلی رپورٹ تیار کررہےہیں۔ ‘‘ اس کے علا وہ ضلع مجسٹریٹ سوربھ جوروال نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہےکہ پل گرنے کی وجہ معلوم کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ایسی اطلاعات ہیں کہ کچھ مقامی لوگوں نے ابتدائی طور پر پل کے کچھ ستونوں کی تعمیر پر اعتراض کیا تھا۔ پولیس اس پہلو سےبھی معاملے کو دیکھ رہی ہے۔ ‘‘واضح رہےکہ یہ واقعہ سنیچر کوسیوان ضلع میں پل گرنے کے بعد پیش آیا۔ اس سے قبل منگل ۱۸؍جون کو ارریہ ضلع میں ایک نو تعمیر شدہ۱۸۰؍ میٹر لمبا پل گر گیا تھا جس کا عنقریب ا فتتاح ہونے والا تھا۔ یہ پل ۱۲؍ کروڑ کی لاگت سے تعمیر کیاگیا تھا۔ اس حادثہ کی تحقیقات میں اب تک۳؍ انجینئروں کو معطل کیاگیا ہے اور کنٹریکٹر کے خلاف بھی کیس درج کیا گیا ہے۔
مزید حادثات ہوچکے ہیں
اس سے قبل ۲۲؍ مارچ کوسوپال میں کوسی ندی پرایک زیر تعمیر بریج کے تین سلیب منہدم ہونے کے نتیجے میں ایک مزدور کی موت ہوگئی تھی جبکہ ۸؍ دیگر زخمی ہوگئے تھے۔ ساڑھے۱۰؍ کلومیٹر طویل یہ بریج مدھوبنی میں سوپال کے باکوراور بھیجا کے درمیان تعمیر کیا جارہا تھا۔ اس سے قبل جون ۲۰۲۳ء میں کھگریا سلطان گنج میں گنگا ندی پر بنائے جا رہے بریج کے تین ستون منہدم ہوگئے تھے۔ اس میں بھی کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ ۱۷۱۰؍ کروڑ کی لاگت سے بنائے جارہے۳ء۱؍ کلومیٹر طویل اس بریج کا کام امسال نومبر میں مکمل ہونا تھا۔ بریج کی تکمیل کی پہلی ڈیڈ لائن ۲۰۱۹ءتھی۔ اس سے قبل اپریل ۲۰۲۲ء میں بھاگل پورکے سلطان گنج میں ایک بریج منہدم ہوا تھا۔ اس کی بھی تعمیر جاری تھی۔ حادثہ کی کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔